مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

اردو ہندی تنازعہ از ڈاکٹر ظفر احمد

اردو ہندی تنازعہ خصوصی مطالعہ اردو ہندی تنازعہ اور رسم الخط از ڈاکٹر ظفر احمد پروفیسر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام


اردو ہندی تنازعہ

پس منظر اور آغاز

اردو میں حروف تہجی اور املا کی بحث علمی سطح پر انیسویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوئی۔

یوں تو ان مطالعات کے پس پردہ کئی عوامل فعال نظر آتے ہیں البتہ بنیادی طور پر اسے سیاسی بحث قرار دے سکتے ہیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد جب مغل سلطنت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تاج برطانیہ کے زیر نگیں آگیا، جب مغلوں اور مسلمانوں سے وابستہ ایک پوری تہذیب زوال آمادہ ہوئی۔

معاشرتی و لسانی تبدیلیاں

اس دوران یہ خطہ شدید قسم کی تبدیلیوں کی زد میں رہا۔ ان سے جہاں فرد متاثر ہوا وہاں اس سے منسلک ہر شے بھونچال کا شکار ہوئی۔

زبان بھی اس معاشرے کا ایسا ہی شعبہ تھا جو نئے حالات میں نئے پیراہن اختیار کرنے لگتا ہے۔

دیگر ہندوستانی زبانوں کے برعکس اردو بولنے والے اپنی زبان کی اس تبدیلی کے عمل میں مزاحم ہوئے۔

مزاحمت کی وجوہات

اس مزاحمت کی بنیاد یہ تھی کہ اردو زبان ان کے اسلاف کی نشانیوں میں سے ایک تھی۔

اس زبان کو ان کے بزرگوں نے سجایا سنوارا تھا اور اسے ادبی زبان کے درجے تک لے آئے تھے۔

اس زبان میں ان کا بیشتر علمی و ادبی ورثہ محفوظ تھا۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ اس زبان میں اب اس قدر عربی ، فارسی اور ترکی اثرات شامل ہو گئے تھے

کہ انہیں لگنے لگا کہ اس واسطے ان کا رابطہ ایران و عرب سے قائم رہے گا۔

ان خطوں کو بحیثیت مسلمان وہ اپنا فکری و علمی سر چشمہ تصور کرتے تھے۔

زبان کی نئی صورت قبول کرنے سے انہیں اندیشہ تھا کہ یہ رابطہ ٹوٹ جائے گا۔


ہندوؤں کا ابھار اور لسانی اثرات

دوسری جانب نئے ہندوستانی معاشرے میں ہندو جو اکثریت میں ہونے کے باوجود ایک مدت سے پس منظر میں رہتے چلے آئے تھے،

انگریزوں کے زیر سایہ ابھرنے لگتے ہیں۔ اقتدار کا قرب حاصل ہوتے ہی وہ کئی ناپسندیدہ عوامل کو راہ راست پر لانے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔

اردو زبان بھی ان کے طابق گزشتہ ادوار میں اپنی راہ کھو چکی ہے۔ یوں وہ اس کی تراش خراش پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

اردو کو پاک کرنے کی تحریک

ان کے مطابق اس زبان کو پاک کرنا ضروری ہے۔ یوں پہلے تو وہ اس زبان کے نام اور اس میں عربی ، فارسی اثرات کے خلاف محاذ کھولتے ہیں بعد میں اس کے رسم الخط پر اعتراض کرتے ہیں۔

یہیں دراصل وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے اردو رسم الخط و حروف کے مطالعے کا آغاز ہوتا ہے۔

ہندو کے ان اعتراضات کا جواب بذریعہ دلیل و ثبوت دینے کے لیے نیز مسلمانوں میں اس زبان کی اہمیت اور اس کے مندرجات کی شناخت و ابلاغ کے لیے رسم الخط و حروف کے مطالعے کا عملاً آغاز ہوتا ہے۔

اردو ہندی تنازعے کی تاریخ اور اس کے اثرات پر اردو میں کئی اہم اور وقیع کرتابیں سامنے آچکی ہیں۔


فورٹ ولیم کالج اور لسانی نفاق

بہت سے مورخین کا خیال ہے زبان کی تبدیلی کا آغاز کلکتہ میں قائم فورٹ ولیم کالج سے ہوا۔

انگریزوں نے اس کالج میں ہی زبان کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق کا بیج بو دیا تھا۔

جب تک مغل سلطنت کا دیا ٹمٹما رہا تھا ان سرگرمیوں کی کوئی واضح شکل نہ ابھر سکتی۔

لیکن جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مغل حکومت کا چراغ بجھ گیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان پر کمپنی کی حکومت قائم ہوگئی۔

انگریزوں کے اقتدار کا سورج چڑھتے ہی ہندوؤں نے اردو زبان سے عربی، فارسی اثرات کے خاتمے کے لیے باقاعدہ جد وجہد کا آغاز کیا۔

لسانی مسئلے کا شدت اختیار کرنا

یوں لسانی مسئلہ پہلی بار بڑے پیمانے پر شدت کے ساتھ سر اٹھاتا ہے۔

بنارس کی ہندی پر چارنی سبھا کی سی متعدد انجمنیں سیاسی محاذ پر سرگرم عمل ہو گئیں اور گور نر میکڈونلڈ کی استعماری سیاست اور گریرسن کا لسانی استعمار ان انجمنوں کی سر پرستی کو اپنا قومی فریضہ سمجھنے لگا۔ (۱)


ہندی کی ترقی کے لیے تنظیمیں

ہندوؤں نے ہندی کی ترقی اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کئی تنظیمیں قائم کیں۔

ان تنظیموں نے ہندی زبان سبقت کے احیاء کو اپنا مقصد اولین بنایا اور ہر سطح پر ہندی زبان کی حمایت، اسے بیرونی اثرات سے پاک کرنے اور اسے اردو پر سے دلانے کی کوششیں شروع کیں۔

برہمو سماج، جس کے بانی راجا رام موہن رائے تھے نے نئے ملکی حالات کا تقاضا سمجھتے ہوئے اصلاح مذہب کا بیڑا اٹھایا اور اس میں کافی کامیابی بھی حاصل کرلی۔

آریہ سماج کا قیام

دوسری طرف آریا سماج اس کے رد عمل میں وجود میں آئی۔ یہ ایسی تحریک تھی جس کے ذریعے ‘ برہمو سماج’ اور اسلامی اثرات سے ہندومت کو پاک کرنے کی کوششیں ہوئیں۔


آریہ سماج تحریک اور لسانی نزاع

اس کا بنیادی مقصد ہندومت کی قدیم روح کا احیاء اور نئے نظام کو اس کے مطابق کرتا تھا۔

آریا سماج تحریک نے لسانیات میں نزاعی کردار ادا کیا اور اردو پر ہندی کو سبقت دلانے کی کوشش کی۔

دیانند سرسوتی نے ہندی کو ہندوؤں کی مذہبی زبان قرار دیا۔ (۲)

دیانند سرسوتی نے ہندی کو پورے ہندوستان میں رائج کرنے کی کوشش کی۔

زبان کی شدھی

زبان کی شدھی کا اولین نمونہ دیانند سر سوتی نے اپنی تصنیف "ستیا رتھ پرکاش” میں پیش کیا اور عربی اور فارسی کے مقبول الفاظ کو چن چن کر نکالا اور ان کی جگہ سنسکرت کے بھاری بھر کم الفاظ استعمال کیے۔ (۳)

اس تنظیم کے نزدیک ہندی آریا بھاشا تھی اور اس کا فروغ ہر ہندو کا مذہبی فریضہ تھا۔ (۴)


رسم الخط کی تبدیلی کا مطالبہ

دنیا کی رائج اور ترقی یافتہ زبانوں کی تاریخ میں اس طرح کی مثال شاید ہی ملے۔

یہ اردو ہی ہے جس نے اپنے ارتقائی سفر میں اس قدر اتار چڑھاؤ دیکھے۔

ہندو کی جانب سے زبان کو شدہ کرنے کے بعد اس کے رسم الخط کی باری آئی، اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع ہوا۔

یہ معاملہ اٹھانے والوں میں سناتن دھرم تحریک کے رہنما پنڈت شردھا رام پیش پیش تھے۔

یہ بھی پڑھیں؛ ہندی اردو تنازعہ از ڈاکٹر فرمان فتحپوری | PDF

سناتن دھرم تحریک نے اس نظریے کو مزید ہوا دی اور ہندی بھاشا کو دیوناگری حروف میں رائج کرنے کا مطالبہ کیا اور حصول مقصد کے لیے بنارس میں ناگری پر چارٹی سبھا اور الہ آباد میں ہندی ساہتیہ سمیلن، قائم کیے گئے۔ (۵)


انگریزوں کی لسانی پالیسی اور اردو کا دفاع

ایک طرف جہاں اردو کو ہندوؤں کی جانب سے کئی حملے سہنے پڑے وہاں دوسری جانب بعض مورخوں کے مطابق انگریزوں نے ایک پالیسی کے تحت ایک زبان کو دو ٹکروں میں تقسیم کیا۔

گورے کی لسانی سازشوں کے نتیجے میں اردو اور ہندی میں بھی حد فاصل پیدا ہوئی۔

ایک طرف یہ فاصلہ بڑھتا گیا تو دوسری سمت دفتری ہندی ہوتی چلی گئی۔ (۲)

اردو کے دفاع میں جہاں انفرادی سطح پر کام ہوئیں وہاں بعض اداروں اور انجمنوں نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔

دہلی کالج، علی گڑھ کالج اور جامعہ اس ضمن میں نمایاں ہیں۔


علی گڑھ تحریک اور سر سید احمد خان کا کردار

ان اداروں نے اردو کو ادبی و علمی حوالوں سے ثروت مند بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

علی گڑھ کالج کا کردار اس تحریک میں سب سے نمایاں ہے۔

اس ادارے کے بانی اور روح رواں سر سید احمد خان تھے۔

سر سید ابتدا میں ہندوؤں کی فلاح کے لیے کوشاں تھے۔ وہ مسلمانوں یا یہاں آباد کسی دوسرے گروہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔

یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ سر سید کو اپنا لائحہ عمل بدلنا پڑا اور اس فیصلے کے پس پردہ بھی بنیادی کردار زبان نے ہی ادا کیا۔


۱۸۶۷ء کا سنگ میل

فورٹ ولیم کالج سے شروع ہونے والے تنازع نے ۱۸۵۷ء کے بعد شدت اختیار کرلی۔

چنانچہ ۱۸۶۷ء کے سال کو اس تحریک میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ اب سر سید کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا۔

سر سید کی زندگی میں جنگ آزادی کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا۔ ۱۰

اس سال بنارس کے بعض سر بر آوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے۔ ۱ (۸)

اس فعل سے جہاں ایک طرف ہندوؤں کی مسلم دشمنی عیاں ہو گئی تو دوسری جانب ان کے دلوں میں اردو کے۔۔۔۔


اردو ہندی تنازعہ برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم پہلو ہے، جو بنیادی طور پر نوآبادیاتی دور اور اس کے بعد کے سیاسی اور ثقافتی حالات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ تنازعہ 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں اس وقت ابھرا جب شمالی ہندوستان میں ہندی اور اردو بولنے والے لوگوں کے درمیان زبان کو سرکاری سطح پر اپنانے پر اختلافات سامنے آئے۔

پس منظر


اردو اور ہندی دونوں زبانیں ہندوستانی (ہندوی) زبان کی مختلف شکلیں ہیں، جو فارسی، عربی، ترک، اور مقامی بولیوں سے مل کر تیار ہوئی تھیں۔ اگرچہ دونوں زبانوں میں بول چال کی سطح پر بڑی مماثلت ہے، لیکن رسم الخط، ثقافتی حوالہ جات، اور مذہبی وابستگیوں نے انہیں الگ کیا۔

ہندی تحریک

ہندی بولنے والے بالخصوص ہندو قوم پرستوں نے 19ویں صدی کے دوران ہندی کو دیوناگری رسم الخط میں اپنانے اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہندی ہندو ثقافت کی نمائندہ زبان ہے۔

اردو کا دفاع

اردو، جو مغلیہ دور میں درباری زبان رہی اور مسلمانوں کی ثقافتی اور ادبی زبان سمجھی جاتی تھی، اس کے حمایتی بالخصوص مسلمان طبقہ اس زبان کو ہندوستانی تہذیب کا اہم حصہ سمجھتا تھا اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کا خواہاں تھا۔

نوآبادیاتی دور میں تنازعہ


برطانوی راج کے دوران اس تنازعے نے شدت اختیار کی، جب 1837 میں فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے ہٹا کر اردو کو شمالی ہندوستان میں سرکاری زبان بنا دیا گیا۔ ہندی بولنے والے طبقے نے اس فیصلے کی مخالفت کی، اور ہندی کو دیوناگری رسم الخط میں سرکاری زبان بنانے کی تحریک شروع کی۔ 1900 میں برطانوی حکومت نے ہندی کو بھی سرکاری زبان کے طور پر قبول کیا، جس سے تنازعہ مزید بڑھا۔

سیاسی پہلو


اردو ہندی تنازعہ مذہبی اور سیاسی پہلو بھی رکھتا تھا۔ ہندی کو ہندو قوم پرست تحریکوں اور بھارتی قومی تحریک میں ایک اہم علامت کے طور پر دیکھا گیا، جب کہ اردو کو مسلم لیگ اور مسلمانوں کی ثقافتی شناخت سے جوڑا گیا۔ تقسیم ہند کے وقت یہ تنازعہ بھی مذہبی بنیادوں پر تفریق کی ایک علامت بن گیا۔

تقسیم ہند کے بعد


1947 میں تقسیم کے بعد اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا، جبکہ بھارت میں ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ تاہم، بھارت میں اردو کو اقلیتوں کی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا، اور یہ آج بھی وہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

یہ تنازعہ بنیادی طور پر زبان کے بجائے ثقافتی اور مذہبی شناخت کی جنگ تھی، جس نے ہندوستانی معاشرے کو گہرے طور پر متاثر کیا۔

اردو_ہندی_تنازعہ_اور_اردو_رسم_الخط | PDF

اردو ہندی تنازعہ اور اردو رسم الخطpdf

Title
The Urdu-Hindi Controversy

Contributor: Haniyyah

This comprehensive article explores the complex and multifaceted Urdu-Hindi controversy, tracing its historical, cultural, and political roots. The dispute emerged in 19th-century North India over the adoption of Urdu or Hindi as the official language. The author examines the backgrounds of both languages, the rise of the Hindi movement, and the defense of Urdu. The article also delves into the colonial era, political aspects, and the impact of the Partition of India on the controversy. Key points include:

– Historical context of Urdu and Hindi languages

– Hindi movement and Urdu’s defense

– Colonial era and political implications

– Partition of India and its aftermath

– Cultural and religious identity dimension

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں