ثمینہ گل کی نظم نگاری کے فکری عناصر

ثمینہ گلؔ کی شاعری کے فکری عناصر
ثمینہ گلؔ کی نظم نگاری کے فکری عناصر:
ثمینہ گلؔ اُردو کے ان شعراء میں ہیں جو صنفی حد بندیوں میں مقید نہیں رہیں بلکہ اپنے احساساتی اظہار کے لیے انہیں جہاں جو صنف موزوں لگی انہوں نے وہاں اسی کو اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے زیر نظر شعری مجموعوں میں غزل کی بہ نسبت نظموں کی تعداد کم ہے تاہم ان کی فکری حیثیت سے صرف نظر ممکن نہیں۔
ثمینہ گلؔ شخصی طور پر مذہب سے جتنی قریب ہیں ان کی نظموں سے اس بات کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں۔ ان کی نظموں کا ایک بڑا حصہ مذہبی شاعری پر مشتمل ہیں، جن میں اللہ تعالی کی بارگاہ رحمت میں حمد و ثنا کا نذرانہ، بارگاہ رسالتؐ میں ہدیئہ نعت، شاہ کربلاؓ کے حضور اظہارعقیدت اور ماہِ رمضان وغیرہ جیسے مضامین شامل ہیں۔ اب ظاہر ہے ان موضوعات کا تنقیدی جائزہ لینا ایک نقاد کے لیے کیونکر ممکن ہو سکتا ہے بس اس حوالے سے حد درجہ احتیاط کے ساتھ چند معروضات ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
ربِ کائنات کی حمد وثناء ہر ذی روح کے فرائض اولین میں شامل ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ نہ صرف اس کے وجود کا شاہد ہیں بلکہ اپنی بساط کے مطابق اس کی تعریف و توصیف بھی بیان کر رہا ہے۔ اب جن خوش نصیبوں کو اللہ نے قلم کی طاقت سے نوازا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ جس رب نے انہیں یہ قوت عطا کی ہے وہ اسے اس خالق کی تعریف و توصیف کا وسیلہ نہ بنائیں۔ ثمینہ گلؔ کا شمار بھی انہی خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اگر قلم کی قوت گویائی سے نوازا گیا ہے تو وہ اسے ربِ ذوالجلال کی مدح سرائی کے لیے بروئے کار بھی لا رہی ہیں۔ ثمینہ نے اپنی نظموں میں جہاں اللہ تعالی کی تعریف بیان کی ہے وہی اس کے قدرت کے مظاہر کا بھی برملا اظہار کیا ہے جس کی نشاندہی ان کے حمد کے اس بند سے بھی ہو جاتی ہے :
ہیں زمیں سے لے کے فلک تلک تری عظمتوں کی نشانیاں
یہ چاند، تارے، یہ کہکشاں تری رفعتوں کی نشانیاں
تجھے اپنے دل پہ عیاں کروں تیری شان جل جلالہ (١)

اسی طرح ان کی نظموں میں اللہ تعالی کی یکتائی کی شہادت جگہ جگہ ملتی ہے جو شاعره کے پاک باطنی کی واضع دلیل ہے۔
؎ وہ اپنی ذات میں یکتا وہ اپنی بات میں تنہا
گل و گلشن میں رہتا ہے مگر ہر بات میں تنہا (٢)
ان کی ایک اور حمد میں مناظر فطرت کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے شاہد ہیں:
ہو جنگل میں سنسان جگہ
اور پھیلی ہو ویران جگہ
نے دور تلک جب پانی ہو
اک نخل وہاں لاثانی ہو
تب دیکھ خُدا یاد آئے گا (٣)

حمد کے اس بند میں شاعره نہایت خوبصورت انداز میں مختلف فطری مناظر کو اللہ تعالی کی ذات اقدس کے شواہد کے طور پر پیش کر رہی ہے جس سے شاعره کی بصیرت بھی عیاں ہو رہی ہے کیونکہ اس دنیا کے ذرے ذرے میں ربِ تعالی کی قدرت کے مظاہر پوشیدہ ہے جو اس کی موجودگی کی گواہی دے رہے ہیں، ضرورت دیکھنے والی آنکھ کی ہے۔ ان کی ایک اور نظم "آخری خطبہ ﷺ” میں صفات باری تعالی کا اظہار کچھ یوں ملتا ہے :
سنو لوگو !
خُدا کی ذات اعلیٰ ہے
وہی تعریف کے قابل
وہی توصیف کے قابل
یہاں دونوں جہانوں میں اسی کی حکمرانی ہے (۴ )
حبِ رہانی کے بعد ہر مسلمان سے دوسرا تقاضا حبِ رسول ﷺ کا کیا جاتا ہے۔ کلام پاک میں بھی اللہ تعالی نے جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہی اس حکم کو اطاعتِ رسولؐ سے مشروط قرار دیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے :
ترجمہ”: اس رسولؐ کی اطاعت جو کرے اسی نے اللہ کی فرمانبرداری کی“ (٥)
اسی طرح ارشاد نبوی ﷺ ہے :
” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے
کوئی ایماندار نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے، اولاد
اور دنیا کے کُل لوگوں سے ذیاده عزیز نہ ہو جاؤں“ (٦)
لہذا اللہ کے بعد کسی بھی مسلمان کے لیے سب سے برتر ہستی نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس قرار پاتی ہے۔ ثمینہ گلؔ کی نظم نگاری میں نبی اکرم ﷺ سے والہانہ محبت کا اظہار ملتا ہے۔ ان کی اس عقیدت کا شاہد ان کی زیر طبع کتاب "معراج سخن ” ہے جس کی تمام شاعری نبی آخر الزماں ﷺ سے منسوب ہیں۔ "معراج سخن ” کے علاوه بھی ان کے پہلے دو مجموعوں کی نظموں میں آقا دو جہاں صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی تعریف میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی گئی۔ ان کے پہلے مجموعے کے نعت کے اس شعر میں حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو یوں خراجِ عقیدت پیش کی گئی ہے:
؎ محمدؐ کے ذات گرامی کے صدقے
ہے ارفع جہاں میں وقارِ مدینہ (٧)

اسی طرح نظم "آخری خطبہ ﷺ ” جس کا شمار شاعره کی پسنديده نظموں میں ہوتا ہے ان کے حبِ رسول ﷺ کی عمده مثال ہے۔ اس نظم میں شاعره نے بہت خوبصورت طریقے سے جنابِ محمد مصطفٰی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے خطبہ حجتہ الوداع کو منظوم انداز میں پیش کیا ہے۔ اس خطبے پر لاکھوں مصنفین نے دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنے عقیدت کا اظہار کیا ہے لیکن جس خوبصورتی سے ثمینہ گلؔ نے اس خطبے کو منظوم انداز میں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ نظم کی شروعات میں آپ ﷺ کی تعریف ان الفاظ میں کرتی ہیں :
؎ محمدؐ مصطفٰی جیسا نہیں کوئی زمانے میں
حبیب کبریؐا جیسا نہیں کوئی زمانے میں ( ٨)
جبکہ نظم کے آخر میں نبی پاک ﷺ کی تعریف وہاں موجود لوگوں کی زبانی یوں پیش کرتی ہیں :
محمد مصطفٰی ﷺ اللہ کے پیارے ہیں
حبیب کبریا ہو تم
تمہی ہو دلربا رب کے
تمہی رہبر ہمارے ہو ( ٩)
یہ نظم اگرچہ حجتہ الوداع کے جملہ احکامات کو سامنےلاتی ہے تاہم یہ اُصول بڑی حد تک شاعره کی فکری رجحانات کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اس نظم میں نسلی امتیازات کی مخالفت شاعره ان الفاظ میں کرتی ہیں :
مگر لوگو!
یہی فرمان رب کا ہے
تمہیں پیدا کیا ہے اک مرد اور ایک عورت سے
تمہیں بانٹا قبیلوں میں
کہ تم پہچان پا جاؤ
کسی کالے کو گورے پر، کسی گورے کو کالے پر
کبھی نہ فوقیت ہوگی
مگر ہوگا وہی برتر
جو اللہ سے ڈرے گا اور
گناہوں سے بچے گا جو (١٠)
حبِ رسول ﷺ کی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی لازم قرار دیا گیا کہ آپ ﷺ کے اہل بیتؓ سے جان و دل سے محبت رکھی جائے ۔ ثمینہ گلؔ کی شاعری میں بھی اہلِ بیتؓ سے خصوصی محبت کا اظہار ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سلام اور مرثیے کو خاص جگہ دی ہیں۔ ان کی نظموں میں جگہ جگہ شہدائے کربلا کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نظم ” نظرانۂ عقیدت امام عالی مقام کے حضور” میں حضرت امام حسینؓ کی شان میں یوں سخن سرا ہے :
؎ جھکایا ہے زمانے کو عدالت ہو تو ایسی ہو
کٹایا سر کو سجدے میں عبادت ہو تو ایسی ہو (١١)

اسی طرح ایک اور جگہ امام حسینؓ کا ذکر ان الفاظ میں کرتی ہیں :
؎ تاریخ کی کتاب یوں لکھی حسینؓ نے
تاریخ کو ملا نہ پھر ثانی کا سلسلہ (١٢)

نظم ” نذرانۂ عقیدت امام حسینؓ ” میں حضرت امام حسینؓ کو ان الفاط میں اپنی عقیدت پیش کر رہی ہیں :
کرب و بلا میں صبر کا منبع حسینؓ ہیں
گویا حیات عشق کا نقشہ حسینؓ ہیں
نورِ نظرعلیؓ کا تو زہراؓ کے دل کا چین
میرے نبی ﷺ کا ہو بہو جلوہ حسینؓ ہیں (١٣)

حضرت امام حسینؓ کے علاوه ثمینہ گلؔ نے واقعۂ کربلا کے دیگر کرداروں کا بھی اپنے مرثیوں میں بہت خوبصورتی سے ذکر کیا ہے اور ان کی شان میں عقیدت کے نذرانے پیش کیے ہیں:

چلے عباسؓ پانی کو کہ آقا اب اجازت دو
علم اونچا میں رکھوں گا کہاوت ہو تو ایسی ہو
کٹے بازو پہ سر رکھ کر کہا رو کر سکینہ نے
ہمیں بھی ساتھ لے جانا محبت ہو تو ایسی ہو (١۴)

اسی طرح ایک اور جگہ اہلِ بیتؓ کی شان میں یوں سخن سرا ہے :
اکبرؓ تھے جان ، قاسمؓ و عباسؓ جان تھے
کربل میں چل پڑا تھا اک جانی کا سلسلہ (١٥)

وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہوا کرتی ہے۔ کوئی بھی انسان جہاں کا باشندہ ہوتا ہے اس مٹی سے وفاداری اس کے فرائض اولین میں شمار کی جاتی ہے۔ ثمینہ گلؔ نے اپنی نظموں کے ذريعے وطن سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے اپنی نظم "ملی نغمہ” میں کہتی ہیں :
؎سکوں سے چین سے جینے کا یہ پیغام لایا تھا
خُدا کا نام لینے کے لیے اس کو بنایا تھا
زمیں کے سب خُداؤں سے ہی تو انکار کا دن ہے (١٦)

ایک اور جگہ ان الفاط میں اپنے جذبات پیش کر رہی ہیں :
جس کے محافظ ہمت والے
غیرت والے جرأت والے
دیس کی خاطر جان بھی حاضر
ہم سب ہیں اس کے رکھوالے
سب کچھ ہیں اس پر قربان
میرا دیس ہے پاکستان (۱٧)

پاکستان کی وساطت سے انہیں اس ملک کا پرچم بھی اسی قدرعزیز ہیں جس قدر یہ ارضِ پاک، جس سے ان کی حب الوطنی ظاہر ہو رہی ہے۔ اپنی نظم ” پرچم” میں یوں لب کشا ہوتی ہیں :
یہ درد کی ڈوبی ہوئی تصویر بنا ہے
لاشوں کو ہے دامن میں چھپاتا ہوا پرچم
اے صبحِ وطن تیرے تقدس کی قسم ہے
رکھنا ہے تجھے اونچا بناتا ہوا پرچم (١٨)

ایک محبِ وطن پاکستانی کی طرح انہیں بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و تشدد سے دلی رنج سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنی نظم "کشمیرِ وطن” میں بھارتی ظلم و جبر کا ذکر ثمینہ یوں کرتی ہیں :
ہر سمت خونریزی ہر سمت قتل و غارت
انساں نگل رہی ہے کشمیر کی یہ وادی (۱۹)

ثمینہ گلؔ کی نظم نگاری میں ماں ایک بڑے کردار کے روپ میں سامنے آتی ہیں۔ وہ ماں جس نے اولاد کو جنم دیا، اسے پالا پوسا، اچھے برے کی پہچان دی، اس ہستی کا احترام ہر انسان پر واجب ہوجاتا ہے لیکن ثمینہ گلؔ کے یہاں ماں کا کردار کچھ ذیاده ہی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں ماں ایک ایسے کردار کی صورت میں سامنے آتی ہیں جسے شاعرہ اپنے تمام دکھوں کا مداوا سمجھتی ہیں اور جس کے پاس اس کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
ثمینہ کی والدہ کا انتقال چونکہ ان کے بچپن میں ہوا تھا اور ان کے جانے کے بعد زندگی ایک تلخ حقیقت کی صورت ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی اس لیے ان کی نظموں میں ماں کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔ ان کی نظم "ماں” کے مطالعہ سے یوں لگ رہا ہے گویا شاعرہ اپنی داستانِ حیات بیان کر رہی ہیں۔
تمہیں کس بات کا ڈر ہے
تمہارے گھر کے آنگن میں
اگر کلیاں چٹکتی ہیں
کوئی تتلی چہکتی ہے
کہیں خوشبو مہکتی ہے
سمجھ لینا، سمجھ لینا
تمہاری ماں کا ہی آنچل
ہوائیں چھو کے آتا ہے
دعائیں لوٹ لاتا ہے
مگر جس کی زمیں پر ماں نہیں ہوتی
زمیں دشمن، زماں دشمن
جہان وآسماں دشمن (٢٠)

اسی طرح ان کی ایک اور نظم جس کا عنوان ماں ہی ہے میں ماں کے لیے شاعرہ کے جذبات و احساسات کچھ یوں سامنے آتے ہیں:
تم نرم ہوا کا جھونکا ہو
اس جلتی تپتی دھوپ میں
تم سایہ تھیں
اُس بادل کا
جو چار گھڑی کو برسا تھا (۲۱)

ماں کے حوالے سے ثمینہ کی ایک اور نظم "سنو ماں جی” بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس نظم میں ثمینہ نے مکالماتی انداز میں ماں اور بیٹے کی محبت کو بیان کیا ہے۔ نظم کے آغاز سے ہی قاری کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ نظم دراصل شاعرہ کی اپنی آپ بیتی پر مبنی ہے۔ نظم کا آغاز بیٹے کے مکالمے سے ہوتا ہے جوکہ ملک سے باہر جا چکا ہے، اس طرح قاری کو احساس ہونے لگتا ہے کہ نظم شاعرہ کی ہی آپ بیتی ہے۔ نظم کا اختتام بالکل ڈرامائی انداز میں ماں کی موت پر ہوتا ہے جس کی نفسیاتی حوالے سے دو وجوہات ہوسکتی ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کے ساتھ بچپن میں جو واقعات پیش آتے ہیں اس کے ذہن پر وہ واقعات اس طرح نقش ہوتے ہیں کہ اسے ہمیشہ اسی کے دہرائے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ ثمینہ کی والدہ کا انتقال چونکہ ان کے بچپن میں ہوچکا تھا اس لیے اس نظم کا اختتام بھی انہوں نے ایسے ہی کیا ہے جیسے نظم کا یہ ٹکڑا انہی کے احساسات کی ترجمانی کر رہا ہے :
میرے مالک میرے خالق
یہ کیا کر دیا تو نے
جدا بیٹے کو اس کی ماں سے
کیسے کر دیا تو نے (۲۲)

دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انسان جس کام کے کرنے سےڈرتاہے کہ اس کام کے کرنے سے اس کے ساتھ کچھ بُرا ہو سکتا ہے، اس کے خیالات میں ہر گھڑی وہی حادثہ رونما ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا واضح ذکر بھی نظم کے اس حصے سے مل جاتا ہے:
میں کھاتی ہوں تیری خاطر
میں پیتی ہوں تیری خاطر
میں جیتی ہوں تیری خاطر
میرا بھی دل
اب خالی تسلیوں سے نہ بہلے گا
میں آ تو جاؤں میرے بیٹے
سفر کی صعوبت سے خوف آتا ہے (۲۳)

اس کے علاوه نظم میں جن عادات وخصائل کا ذکر ہوا ہے وہ بھی شاعرہ کی شخصیت کا حصہ ہے۔ جیسے نظم کا یہ حصہ :
مجھے تو یاد ہے یہ بھی
تجھے رنگوں سے رغبت ہے
میں سارے رنگ گلابوں کے
بہت سے موتیوں کے پھول
تری خاطر ہی لاؤں گا (٢۴)

ثمینہ گلؔ کے اپنے بیان کے مطابق موتی کے پھول ان کے پسندیدہ پھولوں میں سے ہیں جس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ نظم شاعرہ کی ہی آپ بیتی بیان کر رہی ہے ۔
اُردو شاعری وقتًا فوقتًا مختلف رجحانات سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ ان رجحانات میں ایک اہم اور جدید رجحان ناسٹلجیا کا بھی ہے۔ ناسٹلجیا وہ نفسیاتی عمل ہے جس کا حامل شخص اپنے ماضی اور گزرے ہوئے ایام سے جڑا رہتا ہے اور اپنی پرانی یادوں میں ہی سکون یا کرب کا احساس پاتا ہے۔ ابتدائی طور پر اسے ایک نفسیاتی بیماری قرار دیا گیا لیکن بعد میں جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی ویسے ویسے یہ بات واضح ہوتی گئی کہ ناسٹلجیا بیماری نہیں بلکہ ایک نفسیاتی رجحان کا نام ہے۔
زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ادب بھی اس رجحان سے نہ صرف متاثر ہوا بلکہ اس کے ہر صنف پر اس کی کارفرمائی نظر آتی ہیں۔ بنیادی طور پر ناسٹلجیا کی تین صورتیں سامنے آتی ہیں ۔
١۔ شخصی ناسٹلجیا: جس کا حامل شخص مختلف اشخاص کو یاد کرتا ہے جن سے اس کی یادیں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔
۲۔ زمانی ناسٹلجیا: اس ناسٹلجیا کا حامل شخص عمر کے کسی مخصوص حصے سے جُڑا ہوتا ہے اور اُس کے تمام احساسات کا محور عمر کا وہی مخصوص حصہ ہوا کرتا ہے۔
۳۔ زمینی ناسٹلجیا: ناسٹلجیا کی اس صورت میں ناسٹلجیاتی شخص کسی مخصوص زمینی خطے سے جڑت کا احساس رکھتا ہے اور اس کی یادوں کا مرکز وہ خطہ ٴزمین ہوا کرتی ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی نظموں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی نظموں میں ناسٹیلیاتی عناصر کی بھر پور کارفرمائی پائی جا رہی ہیں۔ ان کی نظم نگاری میں زمانی ناسٹلجیا کی واضح جھلک موجود ہے۔ وہ ذہنی طور پر اپنی بچپن کی یادوں سے جُڑی ہوئی ہیں جس کی نشاندہی ان کی نظموں میں بآسانی کرائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ان کے یہاں شخصی ناسٹلجیا کی موجودگی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کی واضح صورت ماں اور اُس کی یادیں ہیں، جس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے۔ زمانی ناسٹلجیا کی ایک خوبصورت مثال ان کی نظم "ہجرت” میں یوں ملتی ہے :
میرے اس خوبصورت سے چمن کا
خوبصورت سا حسیں موسم
کوئی لا دے
میری چوڑی، میری بالی، میرا کنگن، میری گڑیا
کوئی واپس مجھے لا دے (۲۵)

زیر نظر نظم کے اس حصے میں شاعرہ کسی بھی طور اپنے شب و روز سے مطمئن نظر نہیں آ رہیں اور بچپن کے انہی لمحات میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں جو نہایت بے فکری کے عالم میں گزرے ہیں۔ شاعرہ انہی گزرے ہوئے ایام کے دوبارہ لوٹنے کی شدید متمنی ہیں جوکہ ایک ناسٹلجیاتی شخص کی پہچان ہوا کرتی ہے کہ وہ جب بھی اپنے حال کے تلخ حقائق سےاکتا جاتا ہے تو اُس کا واحد سہارا اُس کی ماضی کے وہ خوشگوار لمحات ہوتے ہیں جس میں کھو کر چند لمحوں کے لیے وہ ذہنی سکون محسوس کرنے لگتا ہے۔ ثمینہ گلؔ کی نظم ” دستان جیسی” مکمل طور پر زمانی ناسٹلجیا کی حامل ہے۔ نظم پر شروع سے آخر تک ماضی کا غبار چھایا ہوا ہے اور گزرے ہوئے ایام کی کسک صاف سنائی دے رہی ہیں۔ یہاں مثال کے لیے نظم کی ابتدا اور اختتام کے دو دو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں جس سے صورتحال واضح ہو جائے گی:
اسے کہنا کہ اکثر اب وہ راتوں کو نہیں سوتی
اسے کہنا کہ خوابوں کو وہ آنکھوں میں نہیں بوتی
اسے کہنا کہ یخ بستہ ہواؤں کی وہ زد میں ہے
اسے کہنا کہ اس کی شام بھی اب وہ نہیں ہوتی
اسے کہنا کہ پہلے تھی کبھی وہ گلستاں جیسی
اسے کہنا بنی ہے وہ تو اب ایک داستاں جیسی
اسے کہنا بنا پھولوں کے جیسے باس ہوتی ہے
اسے کہنا اداسی ہی اب اس کے پاس ہوتی ہے (٢٦)
مذکورہ اشعار میں پہلے دو اشعار نظم کے آغاز سے لیے گئے ہیں جبکہ آخری دو اشعار پر نظم کا اختتام ہو رہا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو تمام اشعار کی فضا ایک ہی ہے اور گزرے ہوئے وقت کی حسرت کی جا رہی ہے۔ اس طرح ان کی نظم ” بولتی چڑیا ” بھی ناسٹلجیاتی کیفیت کی حامل نظم ہے جس میں شاعرہ اپنے بچپن کے زمانے اور اس کے حسین یادوں کو حسرت ناکی سے دیکھ رہی ہے۔ اس نظم میں شاعرہ کی سوچوں کا محور اس کے والد ہیں اس لیے نظم کو شخصی ناسٹلجیا کا حامل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
مثال ملاحظہ ہو :
مرے بابل
تیرے آنگن کی میں
اک بولتی چڑیا
تری آغوش میں آکر
میں اکثر گنگناتی تھی
بڑا ہی مسکراتی تھی
تری بانہوں کے جھولے میں
تحفظ کا ،محبت کا
بڑا احساس پاتی تھی (۲٧)
اس نظم میں آگے بھی لاشعوری طور پر خیالات کا دھارا تھما نہیں بلکہ رواں دواں ہے اور گزرے ہوئے لمحات ایک ایک کرکے شاعرہ کے ذہن کے پردے پر نمودار ہو رہے ہیں جیسے :
تری انگلی پکڑ کر جب
بھی میں بازار جاتی تھی
تو اپنے ساتھ بابا میں
کئی گڑیاں بھی لاتی تھی (۲۸)
جس سے نظم کی ناسٹلجیاتی کیفیت واضح ہو رہی ہے۔ اس نظم کے علاوہ بھی ثمینہ گلؔ کی اکثر نظمیں ناسٹلجیاتی کیفیت لیے ہوئے ہیں جس میں ایک مثال ان کی نظم "سوچ نگر” کی دی جا سکتی ہے جس کے عنوان سے ہی ماضی پرستی جھلک رہی ہے۔ ثمینہ کی یہ نظم بھی زمانی ناسٹلجیا کی حامل ہے۔
جب بھی میں نے کھولا ہے
سوچ نگر کا دروازہ
میں اکثر
ان سے ملتی ہوں
جو ساتھی مجھ کو چھوڑ گئے
جو ساتھی مجھ سے روٹھ گئے
میں اکثر ان سے ملتی ہوں (۲۹)

ان چیدہ چیدہ مثالوں کے علاوہ بھی ثمینہ گلؔ کی اکثر نظموں پر ماضی کی دھند چھائی ہوئی ہے جس کا ذکر طوالت کے خوف سے یہاں ممکن نہیں بہرحال دی گئی مثالوں سے ان کی نظموں کی ناسٹلجیاتی جہت کچھ نہ کچھ واضح ضرور ہو جاتی ہے۔
ایک عورت ہونے کے ناطے ثمینہ کی شاعری میں عورتوں کے حقوق اور مسائل کی بازگشت بھی صاف سنائی دیتی ہے اس لیے ان کی نظموں پر تانیثیت کے بھی ہلکے پھلکے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں تاہم یہ اشارے تانیثیت کےعام تصور سے یکسر مختلف ہیں۔ ثمینہ مرد اور عورت کے باہمی حقوق کی بات ضرور کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ انہیں اپنی معاشرتی اقدار کا بھی احساس ہیں، اس لیے وہ حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے بغاوت پر اتر نہیں آتی بلکہ ان کے سامنے دونوں کے حقوق و فرائض مختلف ہیں جن کی انجام دہی سے ہی معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
ثمینہ کے یہاں عورت اور مرد کے جو حقوق و فرائض ہیں اس کا واضح تصور اُن کی نظم "آخری خطبہ ﷺ ” میں یوں سامنے آتا ہے۔
سنو لوگو !
تمہاری عورتوں کے اور تمہارے
حق برابر ہیں
لازم ہے یہی تم پر
تمہارے دامن میں رب نے جو یہ دولت زن دی
یہ نعمت ہے، یہ راحت ہے
ترے رب کی امانت ہے
خیال ان کا بڑا رکھنا
سنبھال ان کو ذرا رکھنا (۳۰)

آگے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں :
سنو اے بیویو تم بھی
یہی لازم ہے تم پر بھی
تم عورت ہو، محبت کی علامت ہو
وفا سے اور محبت سے تمہیں رب نے بنایا ہے
خُدا کے بعد سجدے کا حکم ہوتا تو تم کرتیں
یہاں سجدہ بھی شوہر کو (۳۱)
اس نظم سے عورتوں اور مردوں سے متعلق شاعرہ کی فکری سمت متعین ہو جاتی ہیں جس سے ان کے تصورِ عورت پر بات کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ثمینہ کا مزاج مشرقیت کا حامل ہے اس لیے ان کے یہاں عورت کا جو تصور ملتا ہے وہ مغربی تانیثیت کی بجائے مشرقی تصورِعورت کے ذیاده قریب ہے۔ ان کے یہاں عورت مصائب دیکھ کر ردِ عمل کے طور پر احتجاج اور بغاوت پر اُتر نہیں آتی بلکہ پوری ہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کے یہاں عورت کا یہ روپ مشرقیت کا حامل ہے۔ عورت سے متعلق ان کے خیالات کچھ یوں سامنے آتے ہیں:
عورت اگر بہن ہیں تو بھائی کا مان ہے
عورت ہے ماں تو قابلِ صد احترام ہے
عورت اگر ہے بیوی ثمینہ خُدا گواہ
عورت کے دم سے مرد سدا شاد گام ہے (۳۲)

یہاں شاعرہ عورت کے تمام معاشرتی رشتوں کو واضح کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس کے طفیل کسی بھی معاشرے میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ثمینہ کی نظم "پیا کے دیس” میں بھی عورت کا تصور خالص مشرقیت کا حامل ہے :
خوشیوں میں کھل کھلائے تو جا کے پیا کے دیس
ہر پل ہی مسکرائے تو جا کے پیا کے دیس
بابل کے گھر کو چھوڑا نئے دیس ہیں چلیں
اک پیارا گھر بسائے تو جا کے پیا کے دیس (۳۳)

مشرقی معاشرے میں ایک عورت کا اصل گھر اُس کا سسرال ہی سمجھا جاتا ہے۔ والدین چاہے کتنے بھی ثروت مند کیوں نہ ہو ان کے لیے یہ بات معیوب ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی شادی کے بعد بھی ان کے گھر رہے۔ انہی معاشرتی تصورات کی عکاسی مذکورہ اشعار میں ملتی ہیں۔ اس طرح ان کی نظم "ساون” میں بھی مشرقی عورت کی جھلک نظر آتی ہے :

چھپ چھپ آنکھیں آنچل میں
جب چھپ چھپ کے روتی ہیں
اور اکثر ایسا سوچتی ہوں
پھر ملن رُت کا موسم ہوگا
پھر چاہت کے سونے آنگن میں
پیار بھرا اک موسم ہوگا
پھر دیس پرائے جاؤ گے
تو کانچ کا یہ دل ٹوٹے گا
پھر ساون مجھ سے روٹھے گا
مری لمحہ لمحہ خوشیوں میں
دردِ جدائی پھوٹے گا (٣۴)

مشرقی معاشرے میں ایک عورت کی پوری زندگی ایک ہی شخص کو محور مان کر گزرتی ہے اور اس کی غیر موجودگی میں تمام حالات کا مقابلہ وہ خود ہی کرتی ہے بلکہ وہ تو اُس کی چاہت میں اس قدر مخلص ہوتی ہے کہ اُس کی یاد میں بہائے گئے آنسوؤں کو بھی وہ سب سے چھپا کر رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ مشرقی عورت آگے جاکر معاشرتی اقدار کے ٹھیکیداروں پر ہلکی پھلکی تنقید سے بھی کام لیتی ہے۔ یہاں پہنچ کر عورت کا یہ تصور تانیثیت کے عام تصور کے قریب ہو جاتا ہے لیکن ان کے یہاں تانیثیت پھر بھی ابتدائی صورت میں ہی نظر آتی ہے ۔
میں عورت ہوں جہاں والو
مرے قدموں میں جنت ہے
نہ روندو تم مجھے ایسے
کہ جس کی چاہ کی خاطر
کرو سجدوں پہ تم سجدے
دکھانے کو زمانے میں
بنے پھرتے ہو تم واعظ
تمہاری باتیں سب جھوٹی
تمہارے وعدے سب جھوٹے (٣٥)

یہاں پہنچ کر ثمینہ کی یہ عورت اتنی سمجھدار بن چکی ہے کہ اب وہ معاشرتی رویوں کا ادراک کر سکتی ہے اور کسی فریب کا شکار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی نظم "ہجرت” بھی اہمیت کی حامل ہے جس کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے :
مرا شیشے کو وہ گلدان ٹوٹا میں نہیں روئی
مرا گڑیوں بھرا سامان ٹوٹا
میں نہیں روئی
بڑا ہی خوبصورت تھا مرے گھر کا
میرا دالان چھوٹا میں نہیں روئی
مرے کانوں سے بالی
اور پھر ایسے
کسی نے زور سے آکر میرا کنگن اتارا
میں نہیں روئی (٣٦)
نظم کا یہ ابتدائی حصہ تانیثی نقطۂ نظر کا حامل ہے جہاں موجود عورت پورے صبر اور استقامت سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ نظم ایک حد تک شاعرہ کی شخصی زندگی کا منظر نامہ بھی پیش کر رہی ہے ۔
شاعری کسی بھی سماج میں تخلیق کی جائے۔ اس سماج کی اگر مکمل نہیں تو دھندلی سی تصویر وہاں کی شاعری میں ضرور ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ثمینہ گلؔ نے اگرچہ اکثر اپنی شاعری میں ذاتی دکھوں اور الجھنوں کو پیش کیا ہے تاہم ان سب کے باوجود ان کی نظموں کو عصری شعور سے مکمل طور پر مبرا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے اپنی نظموں میں عصری شعور کا بھی ثبوت دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے سینے میں ایک حساس دل دھڑکتا ہے۔ سماجی شعور کے حوالے سے ان کی نظم "احساس” بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ نظم کے آغاز میں ہی شاعرہ رائج الوقت نظام پر یوں تنقید کرتی ہیں :
یاں کون کسی کی بات سنے
یہ بستی ظلم کی بستی ہے
مجبوریوں میں جکڑے انساں کی
بن مول شرافت بکتی ہے
یاں دولت کی سب شہرت ہے
غربا سے سب کو نفرت ہے (٣٧)
یہاں شاعرہ نہ صرف موجودہ نظام سے بے اعتنائی کا اظہار کر رہی ہیں بلکہ معاشرے میں موجود طبقاتی نظام پر بھی شدید تنقید کر رہی ہیں۔
انسانی سماج میں موجود مختلف طبقات کے درمیان خلیج ہی ہمیشہ معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ جس معاشرے کے افراد میں احساس ختم ہو جائے، تباہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ اس روشن حقیقت کے پیش نظر ہی ثمینہ نے اپنی اس نظم کا عنوان احساس رکھا جس کے ذريعے وہ احساس سے عاری اس معاشرے کو اُن کے فرائض کا احساس دلا رہی ہے۔
اسے حق نہیں کیا جینے کا
یا سکھ کی سانس بھی لینے کا
جو ۔۔۔۔۔۔۔
سچ بول کے سولی چڑھتا ہے
یاں موت ہی سب سے سستی ہے
یاں کون کسی کی بات سنے
یہ بستی ظلم کی بستی ہے (٣٨)

یہ نظم شاعرہ نے کسی بھی کیفیت کے پیش نظر ہی کیوں نہ لکھی ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پوری نظم موجودہ دور کے نظام اور آج کل کے خود غرض معاشرے کا المیہ بیان کر رہی ہے، جہاں چند ٹکوں کے لیے لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آج کا انسان اپنی ذات کے خول میں قید ہے۔ باہر کیا ہو رہا ہے؟ ، کون جی رہا ہے؟، کون مر رہا ہے؟، کسے اس کی مدد کی ضرورت ہے؟ اور وہ کس کی زندگی بچا سکتا ہے؟، ان تمام باتوں سے آج کے انسان کو کوئی سروکار نہیں، اس کے لیے اس کی "میں” ہی سب کچھ ہے اور اس "میں” کی واحد اور بنیادی وجہ احساس کا فقدان ہے جسے اجاگر کرنے کی کوشش ثمینہ نے اس نظم کے ذریعے کی ہے۔ اسی طرح ان کی نظموں میں اپنوں کی بے اعتنائی کا گلہ بھی ملتا ہے نظم "آس” میں یوں ان کی رویوں پرخفگی کا اظہار کرتی ہیں :
اپنوں سے توقع کیا رکھوں
اپنوں سے امیدیں کیا باندھوں
یہ کانٹے بچھاتے ہیں رستوں میں
یہ پھول اٹھاتے ہیں راہوں سے (٣٩)
ثمینہ گلؔ کی نظمیں ان کے مثبت انداز فکر کو ظاہر کرتی ہیں۔ وہ معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کی متمنی ہیں اور معاشرے سے نفرت اور کدورت مٹانے کی خواہاں ہیں۔ اپنی نظم "سوہنی کے مٹکے” میں یوں اپنی خواہشات پیش کرتی ہیں :

چلو آؤ مل کے یہ نفرت مٹا دیں
جو گھر کو جلا دے وہ شمع بجھا دیں
محبت کے گل ہر جگہ ہی کھلا دیں
اُجالے اُجالے میں پھیلا رہی ہوں (۴٠)

اپنی نظم "میرے گاؤں” میں ثمینہ اپنے احساسات کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں:
کبھی تم نے
درختوں کو
گلے ملتے ہوئے دیکھا
نہیں ناں؛
کبھی آؤ میرے گاؤں
دکھاؤں تم کو ہر جانب
شجر
گلے آپس میں ملتے ہیں (۴١)
ثمینہ گلؔ آج کے اس سماجی انحطاط کے دور میں بھی پیار و محبت کی بات کرتی ہیں۔ اس دور میں جہاں لوگ ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ثمینہ ایسے حالات میں بھی ایک ایسی دنیا بسانا چاہتی ہے جہاں اپنائیت ہو، چاہت ہو، ایک دوسرے کا احترام ہو، یقینا ایسے لوگ اعلیٰ ظرفی کے حامل ہوتے ہیں۔
ثمینہ گلؔ کی نظموں میں فطری مناظر کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے جس سے ان کی نظمیں فطرت کے حسن و رعنائی کا حسین مرقع بن جاتی ہیں، جو پڑھنے والوں کے ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ خوشی اور انبساط کی کیفیت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ فطری منظر کشی کے حوالے سے ان کی گیت کا یہ حصہ ملاحظہ ہو :
شوخ نظارے چنچل دھارے
دیکھ دیکھ دل تجھے پکارے
برکھا بن کے چھا بھی جاؤ
پیتم اب تم آ بھی جاؤ (۴٢)
فطری مناظر کی ایک اور جھلک ان کے حمد کے اس بند میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے :
جب سورج جلتا بجھتا ہو
اور شام کا سایہ ڈھلتا ہو
جب ندیا ساگر ملتے ہوں
اور چاند دیا سا جلتا ہو
تب دیکھ خُدا یاد آئے گا (۴٣)

اس کے علاوه ثمینہ گلؔ کی نظم "محبت آنکھ رکھتی ہے” میں بھی فطری مناظر کی جلوہ گری سامنے آتی ہے:
کبھی بارش کے موسم میں یہ رم جھم سی برستی ہے
کبھی صحرا کی بستی میں ہوا بن کر گزرتی ہے
کبھی ساحل کی گیلی ریت پر اک نام لکھتی ہے
محبت ہی کے دم سے تو گلابی شام ہوتی ہے (۴۴)
ان کی نظم "پیار کی خوشبو” بھی فطری مناظر کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے:
تمہیں کس نے کہا ہے یہ
وہاں سبزہ نہیں اُگتا
وہاں نہ پھول کھلتے ہیں
ذرا آ کر تو دیکھو ناں
یہاں چاندی برستی ہے
یہاں سونا نکلتا ہے
یہاں بھی پھول کھلتے ہیں
یہاں سبزہ بھی اُگتا ہے
وطن کی پیار کی خوشبو
ہمیں مہکائے رکھتی ہے (۴٥)

ثمینہ گلؔ کی نظموں میں فطری مناظر کے مطالعے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کو فطرت کے حقیقی رنگوں سے مزین کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ فطری مناظر کے ایسے مرقعے تخلیق کیے ہیں جو انسانی حواس پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں اور انسان کو ایک ناقابلِ بیان کیف و سرور سے ہمکنار کرتے ہیں:

حوالہ جات ۔
حوالہ جات
١۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ١۴
٢۔ ایضًا، ص ١٦
٣۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ١٩
۴۔ ایضًا، ص ٢١۔٢٢
٥۔ ۔ محمد مولانا خطیب الہند جوناگڑھی )مترجم ( ،تفسیر ابن کثیر ،جلد اول، سورۃ نساء ، پارہ ٥ ، ص ٦۴١
٦۔ایضًا، ص ۴٥٠
٧۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ١٧
٨۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٢١
٩۔ایضًا، ص ٣٠
١٠۔ ایضًا، ص ٢٢
١١۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٢١
١٢۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ١٣۴
١٣۔ ایضًا، ص ٣٣
۱۴۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٢١۔٢٢
١٥۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ١٣۴
١٦۔ ایضًا، ص ١٣٣
١٧۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص١٩
١٨۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٣٦
١٩۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٢٠
٢٠۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٣٨
٢١۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ١١٥
٢٢۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ۴٥
٢٣۔ ایضًا، ص ۴٣
٢۴۔ ایضًا، ص ۴۴
٢٥۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٩٥
٢٦۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٨١۔٨٢
٢٧۔ ایضًا، ص ١١۴۔ ١١٥
٢٨۔ ایضًا، ص ١١٥
٢٩۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٩٢
٣٠۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٢۴
٣١۔ ایضًا، ص ٢۴۔٢٥
٣٢۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٦١
٣٣۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ١١١
٣۴۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ١١٨۔١١٩
٣٥۔ ایضًا، ص ١٢٨
٣٦۔ ایضًا، ص ٩٣
٣٧۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ١٢١
٣٨۔ ایضًا، ص ١٢٢
٣٩۔ ایضًا، ص ١٢٠
۴٠۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ١٠۴
۴١۔ ایضًا، ص ١٠٥
۴٢۔ ثمینہ گلؔ، آنچل کی اوٹ سے، ص ٨٧
۴٣۔ ثمینہ گلؔ، محبت آنکھ رکھتی ہے، ص ٢٠
۴۴۔ ایضًا، ص ٧٣
۴٥۔ ایضًا، ص ١٣٩

اگلا موضوع: ثمینہ گل کی غزل گوئی

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں