ثمینہ گلؔ کی غزل گوئی کے فکری عناصر :
؎ ڈھلنے لگتی ہے میری سوچ حسیں لفظوں میں
اشک پلکوں پہ سجائے تو غزل ہوتی ہے
اُردو کی شعری تاریخ میں غزل کو ایک ایسی صنف سخن کا درجہ حاصل رہا ہے جس نے نہ صرف اُردو زبان کے فنی تقاضوں کا ساتھ دیا بلکہ ہر عہد کے سیاسی، سماجی اور معاشی تقاضوں تک کو ملحوظ رکھا یہی وجہ ہے کہ یہ صنف ہر دور اور ہر طرح کی ادبی فضا میں اپنی منفرد شناخت قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس صنف کی ترقی میں ہر دور کے نامور شعراء نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ عصر حاضر کے غزل گو شعراء میں سے ایک اہم نام سرگودھا سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ثمینہ گلؔ کا ہے۔
ثمینہ کے شعری سرمائے کے مطالعے سے اگرچہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے یہاں ہر صنفِ سخن پر قلم آرائی ملتی ہے البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے قلم سے نکلی ہوئی غزلیں ہی ہیں۔ جن میں سے اکثرغزلوں میں کئی گلوکار اپنی آواز کا جادو جگا چکے ہیں، جس سے ان کی غزلوں کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اُردو غزل کا عام اور مقبول ترین موضوع عشق و محبت اور ان سے متعلقات کا بیان ہے جن پر تقریباً ہر شاعر نے اپنے مزاج اور بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ رقم ضرور کیا ہے۔ یہ ایسے آفاقی موضوعات ہیں جن پر ہر زبان کے شعر و ادب میں اظہارخیال ملتا ہے۔ ثمینہ گلؔ کی غزل میں عشق و محبت پر بھر پور خیال آرائی ملتی ہے۔ ثمینہ کی شاعری میں محبت کا جو تصور پایا جا رہا ہے وہ اُردو کی شعری روایت سے بہت حد تک قربت رکھتا ہے۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں محبوب کی بے اعتنائی اور راہِ محبت کی تمام تر مشکلات کو اعزاز سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا عزم ملتا ہے اور حرف شکایت تک زبان پر نہیں لایا جاتا :
؎ ملیں راہِ محبت میں جو کانٹے گل سمجھ کر تم
انہیں دل میں سجا رکھنا ذرا سی اک گزارش ہے (۴٦)
محبت میں سب سے بڑا کربناک وقت ہجرِ محبوب ہوتا ہے جس کا بیان اُردو شاعری میں پورے شدومد کے ساتھ ملتا ہے۔ اُردو کے اکثر شعراء کے یہاں ہجر کے ان لمحات میں کافی یاس و نا اُمیدی کی کیفیت پاتی جاتی ہے لیکن ثمینہ کے یہاں ایسی صورت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں ہجر کے لمحات کو پوری جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن ان کے یہاں ان مشکلات سے ہی زندگی کی اصل معنویت سمجھنے کا رجحان ملتا ہے جس کا اعتراف خود شاعرہ کو بھی ہے :
؎ جینا سکھا دیا ہے جدائی کی آگ نے
کُندن بنا دیا ہے جدائی کی آگ نے (۴٧)
شاعری کے ابتدائی دور میں ان کی امیدوں کا محور ایک ہی شخص نظر آتا ہے جس کی یاد تک کو بھلانا اُن کی نظر میں بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں ان کا تصور محبت ایک مشرقی عورت کا حامل ہے جو اگر کسی کو ایک مرتبہ دل دے بیٹھے تو عمر بھر خود کو اس سے منسوب رکھنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتی ہے۔
؎ یہ مانا تو میرے دل میں بسا ہے پیار کی صورت
تجھے میں بھول جاؤں یہ کہاں میری دیانت ہے (۴٨)
ثمینہ گلؔ کے پہلے شعری مجموعے کی اکثر غزلوں میں محبت کا یہی روایتی انداز ملتا ہے جس میں ایک مرتبہ اگر کسی سے محبت کی جائے تو عمر بھر اسے نبھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ثمینہ گلؔ کا خیال ہے کہ :
؎ محبت زندگی میں گو بڑی مشکل سے ملتی ہے
مگر اس کو نبھانے میں زمانے بیت جاتے ہیں (۴٩ )
محبت کرنے والوں کے یہاں یہ ایک نفسیاتی الجھن پائی جاتی ہے کہ انہیں ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کے محبوب کے دل میں بھی ان کے لیے اتنی ہی محبت موجود ہے یا نہیں۔ اس کشمکش سے وہ ایک لمبے عرصے تک دوچار رہتے ہیں اور گومگو کا شکار ہوتے ہیں۔ ثمینہ اپنے ایک شعر میں اس کیفیت کی بہت عمدہ عکاسی کرتی ہیں :
؎ وہ میرا ہو کے میرا نہیں ہو سکا
گلؔ کے دل میں یہی روگ پلتا رہا (٥٠)
ثمینہ کے یہاں ابتدائی دور کی غزلوں میں محبت کا جو تصور سامنے آتا ہے اس میں ساری برتری محبوب کی ذات کو حاصل ہے، وہ مختارِ کُل ہے اور سب کچھ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اس کے کسی بھی کام میں محب کو کوئی دخل نہیں ہوتا جس کا اظہار ثمینہ کے ان اشعار میں بھی ملتا ہیں :
؎ اس بار وہ وفا کے معانی بدل گیا
لفظوں سے کھیل کر وہ کہانی بدل گیا (٥١)
؎ اپنی شکست جان یا اپنی فتح سمجھ
میں تیرا اختیار ہوں اے جانِ آرزو (٥٢)
اسی تصور محبت کی نشاندہی احمد فرازؔ کے یہاں یوں ملتی ہے:
؎ یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے (٥٣)
ثمینہ گلؔ کے اس تصور محبت کے بارے میں اُردو کے نامور شاعر فرحت عباس شاہ لکھتے ہیں :
"ثمینہ گلؔ کی شاعری بنیادی طور پر محبت کی شاعری ہے یہ محبت ہی ہے جو زندگی
کی تصویر لفظوں سے بناتی ہے ” (٥۴)
ثمینہ کے یہاں اس دور کی شاعری میں زندگی کی تمام دلکشی اور رعنائی محبوب کے طفیل ہی نظر آتی ہے اور وہی ان کی ذات کا محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔
جب زندگی میں تو مری شامل نہیں رہا
کچھ بھی تو پیار کا مجھے حاصل نہیں رہا
میرے لیے ہے آج بھی وہ محترم بہت
جو شخص میری ذات کا قائل نہیں رہا (۵۵)
تاہم پہلے مجموعے سے ہی ان کی غزلوں سے کہیں کہیں ایسے اشارے مل جاتے ہیں جو ان کے اس روایتی انداز سے انحراف کا پتہ دیتے ہیں ۔
اردو شاعری میں محبوب کے کسی فعل پر اعتراض بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمیشہ سے اس کے ہر طرح کی بے اعتنائی اور لائقِ سرزنش فعل کو بھی قابل ستائش تصور کیا جاتا رہا، ایسے میں ثمینہ کا یہ کہنا :
؎ بے خیالی میں کوئی بات جو کہہ دی میں نے
میرے محبوب یہ غیروں سے شکایت کیسی (٥٦)
واقعی ان کے بدلتے ہوئے تصور محبت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی شاعری میں محبت کا یہ تصور جو ایک عورت کی طرف سے ہیں شعور و بلوغت کی منزل تک جیسے جیسے پہنچتا ہے ان پر دنیا کے نئے راز آشکار ہوتے ہیں اور اب ان کی شاعری میں محبوب کے رویے پر کھل کر اعتراض بلکہ تنقید کی کیفیت پائی جاتی ہے جیسے وہ ایک جگہ کہتی ہیں :
؎ میرے لہو سے کر کے وضو دل کو توڑ کر
وہ جا رہا ہے دل کا سمندر نچوڑ کر (۵٧)
ثمینہ کے یہاں کہیں کہیں احتجاج کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے گو کہ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اب وہ خود کو دعووں اور جھوٹی تسلیوں سے نہیں بہلاتی بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ دنیا کا سامنا کرتی ہیں۔
؎ چاک کرنا ہے گریباں سرِ محفل اُس کا
جو بھی ہونا ہے سر بزم وہ ہو جانے دو (۵۸)
یہاں پہنچ کر ان کا تصور محبت اور تانیثیت ان کی شاعری میں ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ثمینہ کی شاعری میں محبت کی حقیقت کے بارے میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا خیال ہے :
"ثمینہ گلؔ نے پانی کے گھر میں مقید رہ کر اب اس انداز سے
آنکھ کھولی ہے کہ محبت اس کے سامنے ایک فسانے کی
صورت نظر آتی ہے” (۵۹)
ثمینہ کے یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شخصی محبت کے اس رویے سے بیزاری کا احساس ملتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب ان کا نقطۂ نظر آہستہ آہستہ حقیقت شناسی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اب ان کے لیے نہ تو محبوب کے وعدے اس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اُس کی بے رخی ان پر اس قدر گراں گزرتی ہے۔ بلکہ وہ کہتی ہیں :
؎ اس نے جو پہلے پیار کی توقیر بیچ دی
ہم نے بھی اپنے خواب کی تعبیر بیچ دی (٦٠)
؎ اگر میں مسترد کر دوں تمہاری ان دلیلوں کو بتا پھر کون آئے گا میرے انکار کے پیچھے (٦١)
محبت کا یہ نیا رویہ جدید شاعری کی دین ہے۔ اب ساری زندگی کوئی ایک شخص کسی کا محور نہیں رہتا بلکہ اب جس طرح ہر بات میں برابری کے تقاضے ہونے لگے ہیں محبت جیسے آفاقی جذبے نے بھی معاشرتی رویوں کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی صورت اور مطالب میں تبدیلی پیدا کی ہیں۔ اب قربانی صرف ایک فریق نہیں دیتا بلکہ سائنسی نقطۂ نظر کے حامل دونوں طرف سے قربانی دینی پڑتی ہے ورنہ یہ رشتہ قائم نہیں رہتا اسی برابرکی بات ثمینہ گلؔ یہاں ان الفاظ میں کرتی ہیں :
؎ راہ ہستی میں نئی رسم یہ ڈالی جائے
تیری چاہت دلِ ناداں سے نکالی جائے
رابطے رکھنے ہیں اب مجھ کو بھی تیرے جیسے
اب تیری جیسی ہی خو اپنی بنا لی جائے (٦٢)
یہاں ثمینہ گلؔ جدید غزل گو شعراء کی نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان کا انداز روایت سے ہٹ کے ہیں جو نئے دور کے نئے رویوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ ثمینہ گلؔ کے تیسرے شعری مجموعے میں ان کا انداز اور بھی حقیقت سے قریب تر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اب اس کے لیے محبوب کا ہجراور اس کا ملن دونوں کوئی معنی نہیں رکھتےاور اس کے ملنے کی خوشی بھی صرف لمحاتی ثابت ہوتی ہے اسی لیے وہ کہتی ہیں :
؎ وہ ملا تھا اور بس کچھ بھی نہیں
واہمہ تھا اور بس کچھ بھی نہیں (٦٣)
ثمینہ کے یہاں محبت کا یہ تصور جب ایک فرد سے ہٹتا ہے تو پورے سماج کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور وہ فرد واحد کی جگہ پوری مخلوق خُدا سے پیار کرنے لگتی ہیں۔ پھر ان کی نظر پورے معاشرے کو محبت کے جذبوں سے مزین کرنے پر مرکوز رہتی ہے جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں یوں کرتی ہیں:
؎ جہاں پر چاہتیں ہی چاہتیں ہو
جہاں ایسا بسانا چاہتی ہوں (٦۴)
ثمینہ کی غزل میں ایک مشرقی عورت کا تصور پوری جزئیات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اُردو شاعری میں عورت کا یہ مشرقی تصور شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے قبل اُردو شاعری کی فضا پر جو عورت چھائی ہوئی تھی وہ یا تو مرد شعراء کی تخلیق کردہ تھی جو ان کے جنسی جذبات کی تسکین کرسکے یا اگر بعد کے ادوار میں خواتین شاعرات نے اس تصور کو بدل بھی دیا تو تانیثیت کی زد میں وہ اتنی بہ گئیں کہ بعض اوقات ان کی تخلیق کردہ عورت کی نسوانیت پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی نظم کی طرح ان کی غزل میں بھی جو عورت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ اسی دھرتی میں پلی بڑھی ہے۔ ان کے یہاں عورت کا جو تصور ملتا ہے وہ حقیقت کے بہت قریب ہیں اور چاہنا اور چاہا جانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ ایک مشرقی عورت ہونے کے ناطے وہ جسے جاہ لیتی ہے وہی ایک شخص اس کی زندگی کا کُل سرمایہ بن جاتا ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کے نام کرنا چاہتی ہے۔ اس قسم کے جذبات کا اظہار ثمینہ کی ایک غزل میں یوں ملتا ہے :
سجایا ہے جنہیں میں نے محبت کے گلابوں سے
تر ہ تازہ وہ گلدستے تمہارے نام کرتی ہوں
تمہیں جی میں بسایا ہے تمھیں اپنا بنایا ہے
میں اپنی ذات کے حصے تمہارے نام کرتی ہوں (٦٥)
ثمینہ کی غزل میں عورت کا جو مشرقی تصور سامنے آتا ہے وہ بہت حد تک ان کی شخصیت اور مزاج سے قریب تر ہے، زندگی نے انہیں جو سکھایا ہیں ان تجربات کا پتہ اُن کا تصورِعورت دیتا ہے۔ جس طرح ان کے مزاج میں بغاوت کا عنصر ناپید ہے بالکل اسی طرح اُن کی تخلیق کردہ شاعری میں جو عورت سامنے آتی ہیں اس میں بھی بغاوت اور احتجاج کے عناصر نہیں پائے جاتے۔ اس بات سے ہر گز یہ مطلب اخذ نہیں ہونا چاہیے کہ ثمینہ کی یہ عورت بزدل ہے یا اپنے حق کے لیے بولنا نہیں جانتی بلکہ یہ عورت جب کہنے پہ آتی ہے تو یہاں تک کہہ جاتی ہے کہ :
؎ میں نے تو دار پر بھی تیرا نام لے لیا
یہ منکروں کے شہر میں جرأت کی بات ہے (٦٦)
جس سے اس کی جرات اور حوصلہ مندی کا اندازہ لگانا کوئی دشوار عمل نہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے مزاج سے مشرقیت جھلک رہی ہے اور یہی اس کا اصل حسن ہے۔
ایک مشرقی معاشرے میں رشتے نبھانا سب سے مقدم فعل سمجھا جاتا ہے۔ ثمینہ کی یہ عورت بھی سماجی تعلقات کو ہر چیز پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان کے آگے اظہار سے ذیاده مقدم چیز تعلقات کو نبھانا ٹھہرتا ہے جس کا اندازہ ان کے اس شعر سے بھی ہو جاتا ہے :
؎ میں کروں اظہارِ الفت یہ ضروری تو نہیں
جب تعلق بن چکا ہو تو نبھانا سیکھئے (٦٧)
اسی طرح ان کے ان اشعار سے بھی ایک مشرقی عورت کی پوری شخصیت سامنے آتی ہیں :
؎ اُس کو مٹا کے اپنی میں تحقیر کیوں کروں
دل میں چھپائے رکھوں گی میں دل کے داغ کو (٦٨)
؎ دل میں اپنا درد چھپایا میں نے ساری دنیا سے
چپکے چپکے اشک بہانہ مجھ کو اچھا لگتا ہے
میری کسی بھی بات پہ مجھ سے جیون ساتھی روٹھے جو
پاؤں پکڑ کر اس کو منانا مجھ کو اچھا لگتا ہے ( ٦٩)
؎ یہ ہے کسی کے پیار کی زنجیر کا کمال
اب دل میں کچھ بھی خوف سلاسل نہیں رہا (٧٠)
ثمینہ کے یہاں جس عورت کا تصور ملتا ہے وہ ہمارے عام گھروں میں بیٹھی پردہ پوش خاتون کی ایک جھلک ہے جس کے مزاج میں شوخی اور بے باکی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، جو زندگی کے ہنگاموں سے دور اپنے گھر کے چولہے کے قریب بیٹھی نہایت بے فکری سے اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ جسے زندگی کے سنگین مسائل سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ اس کے سب سے بڑے مسائل گھر داری اور امورِ خانہ داری ہے۔ چونکہ اس عورت نے دنیا کی مکاریاں اور چالبازیاں نہیں دیکھیں اس لیے اس کے مزاج میں وہ فطری معصومیت اور حیا جیسی صفات بدرجہ اتم موجود ہیں جسے کسی بھی عورت کا فطری حسن تصور کیا جاتا ہے۔
ثمینہ کی اس عورت کی ایک اور جہت ملاحظہ ہو :
؎ چپکے سے بہانے سے ملنے کو چلی گوری
پائل جو بچی اُس کی پھر ساری فضا گونجی (٧١)
یہاں ثمینہ نے ایک ایسی مشرقی عورت کی جھلک پیش کی ہے جو اپنے محبوب سے ملنا تو چاہتی ہے لیکن اسے معاشرتی روایات کا بھی خیال ہے۔ شعر میں اس کی اس گھبراہٹ کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے کہ وہ راستے پر جاتے ہوئے اپنے پائل کی جھنکار سے اس قدر خوفزدہ ہوجاتی ہے کہ گویا اس کے گرد و پیش کا سارا ماحول اس جھنکار سے گونج اُٹھتا ہے۔ یہ شعر لڑکیوں کی نفسیات کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے
ثمینہ گلؔ کے بعد کی غزلوں میں بھی نظموں کی طرح مشرقی تصورِعورت سے انحراف اور نقطۂ نظر میں تانیثیت کا رجحان جھلکنے لگا۔
؎ درد نے درد کے ماروں سے بغاوت کر لی
ہم نے کمزور سہاروں سے بغاوت کر لی (٧٢)
یہاں ان کے انداز میں تانیثیت کی رنگ آمیزی نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح ان کے تیسرے مجموعے کے اس شعر میں ان کا نقطۂ نظر تانیثیت کے مزید قریب تر نظر آ رہا ہے :
؎ پائل بنا کے پیر میں جس کو پہن لیا
لائی گئی تھی قید سے زنجیر کھینچ کر (٧٣)
پائل عورت کے مشرقیت کی علامت ہے لیکن یہاں اس مشرقی عورت کے پیر میں پہنائے گئے پائل کو زنجیر سے تعبیر کیا جا رہا ہے جس کا واضح مطلب عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف اشارہ ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ اب شاعرہ کے یہاں عورت کا وہ تصور نہیں رہا جو ہر طرح کے ظلم سہ کر بھی خاموش رہتی ہے اور اپنے حق کے لیے نہیں بول سکتی۔ اب اس عورت میں صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کا شعور آ گیا ہے اور اسے حرفِ تسلی سے بہلانا ممکن نہیں رہا۔
ثمینہ گلؔ نے رزم گاہِ حیات میں سخت حالات کا مقابلہ کیا اور عمر کا ایک بڑا حصہ مختلف قسم کے حالات سے برسرِ پیکار رہیں۔ جب شاعر ایسے کربناک مراحل سے گزر رہا ہو تو نتیجے کے طور پر اُس کی شاعری ذاتی کرب کا ایک مرثیہ بن جاتی ہے جس کی مثال اُردو شاعری میں میرؔ اور فانیؔ کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ انسان کے اندر کا ماحول جس قسم کا ہوتا ہے اُس کی تحریروں میں بھی وہی رنگ جھلک رہا ہوتا ہے۔ ثمینہ گلؔ کے معاملے میں اس نقطۂ نظر میں تھوڑی سی تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ ذاتی طور پر انہوں نے کیسے ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کیا ہو اُن کی شاعری پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ ان کی شاعری پڑھ کر قاری کو ایک نئی امید اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ خود کہتی ہیں :
رہِ حیات پہ چلنا تمہیں سکھا دیں گی
یہ لغزشیں ہی سنبھلنا تمہیں سکھا دیں گی
یہ بہرِ رنج و الم شور کر رہا ہے تو کیا
یہ تُند موجیں اُبھرنا تمہیں سکھا دیں گی (٧۴)
اگرچہ شاعری کے ابتدائی نمونوں میں کہیں کہیں اُن کے شعری اُفق پر یاس و نا اُمیدی کے بادل منڈلاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس دور کی شاعری میں رات کا ذکر بکثرت ملتا ہے جو دکھ، درد اور نا اُمیدی کے لیے استعارے کا کام دے رہا ہے لیکن یہ رات مکمل طور پر سیاہی کی حامل نہیں ہے بلکہ اس میں چاند، تارے اور چراغ کا پایا جانا اُمید کو ظاہر کر رہا ہے تاہم کہیں کہیں نا اُمیدی اور زندگی سے بیزاری کا احساس بھی ملتا ہے۔
؎ ذرا بھی اور جینے کو مرا اب جی نہیں کرتا
برو کا زہر پینے کو میرا اب جی نہیں کرتا (٧٥)
ان سب کے باوجود مایوسی اور نااُمیدی کی یہ کیفیت اُن کے یہاں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی اور چند ہی لمحوں میں اُن کے یہاں صورتحال کچھ یوں تبدیل ہوتی ہے کہ:
؎ بستی میں جب چاند نہ اُترے راہوں میں تاریکی ہو
خونِ جگر سے دیپ جلانا مجھ کو اچھا لگتا ہے (٧٦) ثمینہ کی غزل میں خود اعتمادی اور رجائیت کے پہلو بہت نمایاں ہیں۔ اُن کے نزدیک حالات کی ستم ظریفی دیکھ کر ایک جگہ بیٹھ جانا اور مسائل سے منہ موڑنا بڑی بات نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنا ہی انسان کا اصل جہاد ہے۔ اس بات کا اظہار اُن کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں طور پر سامنے آتا ہے جو اگر ایک طرف شاعرہ کی حوصلہ مندی اور جرأت کا پتہ دیتی ہے۔تو دوسری طرف ان لوگوں کے لیے بھی اُمید کی ایک علامت بن جاتی ہے جو وقت کی تیز رو کا ساتھ نہ دے پا رہے ہو اور ماحول کی مخالف چال سے گھبرا رہے ہوتے ہیں ان کے نام ثمینہ کا پیغام ہے کہ :
؎ جسے موسم کی سختی نے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا
اسی گل کو ہرا دیکھو دوبارہ کر لیا میں نے (٧٧)
لہذا یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری پڑھنے والے کے لیے ایک محرک کا کام کرتی ہے جو انہیں ایک قسم کی آس دلاتی ہے اور انہیں عمل پر ابھارتی ہے۔ رجائیت ہی کے حوالے سے ان کا یہ شعر بھی قابل غور ہے :
؎ درد کی دہلیز پہ رکھا دیا دیکھا کیے
پھر ہوا کے ساتھ ہوتا رابطہ دیکھا کیے (٧٨)
یہاں دو چیزیں قابل غور ہیں، دیا اور ہوا۔ عام طور پر یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تصور کی جاتی ہیں۔ ہوا کے چلتے ہوئے دیا جلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں دیا جلاتے ہوئے بھی ہوا سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے یعنی شاعرہ زندگی کو مشکلات کا دوسرا نام تصور کر رہی ہے اور ان مشکلات کا مقابلہ ہی حیات انسانی کا نصب العین ہے۔ اسی طرح ان کے اس شعر میں بھی رجائیت کا پہلو نمایاں ہے :
؎ ہر اک جگہ فصیلِ غمِ جاں کو کاٹ دے
دیپک ہوا کے ہاتھ پہ رکھ کر جلا یہ رات (٧٩)
یہاں چراغ اُمید کی ایک علامت کے طور پر مستعمل ہے جبکہ رات کی اصطلاح کرب اور مسائل زیست کے طور پر لائی گئی ہے۔ شعر میں پچھلے شعر کی طرح شاعرہ کا انداز حد درجہ پُراُمید اور رجائیت کا حامل نظر آ رہا ہے جس میں مصائب کا سامنا کرنے کی قوت موجود ہے۔ ثمینہ گلؔ کی شاعری کی اسی جہت کا ذکر کرتے ہوئے سید عارف بخاری صاحب فرماتے ہیں :
” آج کے اس پُرآشوب دور میں جہاں نفرت، حقارت، درندگی اور وحشت نے انسانیت کو
اپنے مضبوط حصار میں لے رکھا ہے وہاں محترمہ ثمینہ گلؔ کی شاعری ہمیں نئی اُمید،
نئی روشنی اورنئی تمازت کی نوید سناتی ہے یہی وجہ ہے کہ محترمہ ثمینہ گلؔ صاحبہ
نے شاعری سے ایک مضبوط رشتہ اُستوار کر رکھا ہے۔“ (٨٠)
شعر و ادب چاہے کسی بھی زبان کا ہو، اپنے عہد کے فکری تقاضوں اور عام زاویئہ نظر کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔ عہد حاضر میں سائنسی ترقی اور استدلالی انداز نے جس قدر زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اسی قدر اس کے اثرات ادب اور خاص طور پر شاعری پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اکثر شعراء کے یہاں سائنسی شعور کے حامل اشعار مل جاتے ہیں جس سے ان کی فکر پر سائنسی اثرات بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
اُردو زبان کے دیگر معروف شعراء کی طرح ثمینہ گلؔ کی شاعری میں بھی سائنسی انکشافات کی جھلک صاف نظر آتی ہیں جس سے ان کی سائنسی اپروچ کا بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ ان کی غزل میں سائنسی شعور کے حامل اشعار میں سائنس کے بڑے بڑے انکشافات انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں جو اُن کی شاعری کی افادیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
چاند کرۂ ارض سے لگ بھگ دو لاکھ چالیس ہزار کلو میٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی زمین پتھریلی ہے اور ہوا اور پانی جیسے بنیادی عوامل جو زندگی کے لیے لازمی ہوتے ہیں چاند پر ناپید ہیں جس کے باعث یہاں زندگی کے آثار دریافت نہ ہو سکے لیکن ان سب کے باوجود انسان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ چاند پر پہنچ سکیں۔ اس خواہش کے پیش نظر کئی مشن چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم آج بھی انسان کے چاند پر پہنچنے کی کوششوں میں کمی واقع نہیں ہوئیں، اس سائنسی حقیقت کی طرف ثمینہ یوں اشارہ کرتی ہیں :
؎ شوق جنوں کی شاخ سے جگنو سمیٹ لے
چل چاند کی زمین پر چل کے بنا یہ رات (٨١)
جگنو کا تعلق اگر ایک طرف رات سے ہے تو دوسری طرف اُمید کی ایک کرن بھی ہے۔ دوسرے مصرعے میں چاند کی زمین کی بات ہو رہی ہے اور وہاں پر رات بنانے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چاند کی سطح کا ایک دن ہماری زمین کے پندرہ دنوں کے برابر ہیں۔ غالباً اسی لیے شاعرہ یہاں رات لانے کا تذکرہ چھیڑ رہی ہے۔ اسی طرح ان کا یہ شعر بھی سائنسی نقطۂ نظر سے غور طلب ہے :
؎ زمیں کی آنکھ میں ٹھہرا ہوا ہے آسماں سارا
زمیں جیسا زمانے میں سیارہ ہو نہیں سکتا (٨٢)
سائنسی نقطۂ نظر سے آسمان درحقیقت نیلے رنگ کا حامل نہیں ہے۔ اس کا یہ رنگ دراصل سورج کی روشنی کے باعث ہے۔ سورج کی روشنی قوسِ قزح کے رنگوں کی مانند سات مختلف رنگوں پر مشتمل ہیں۔ ان تمام رنگوں کی فریکوینسیز آپس میں مختلف ہیں۔ سورج کی روشنی جب زمین کی طرف آتی ہے تو اس میں موجود مختلف رنگوں میں سے جن رنگوں کی فریکیونسی ذیاده ہوتی ہے وہ فضا میں موجود اوزون لہر کے مختلف کیسوں سے گزر جاتی ہے جبکہ نیلا رنگ اس لہر سے گزر نہ سکنے کے باعث فضا میں پھیل جاتا ہے جس کے سبب آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے جبکہ زمین کے مقابلے میں نظام شمسی کے باقی سیاروں سے آسمان کا رنگ کالا دکھائی دیتا ہے۔ ان حقائق کے بعد شعر کی اصل معنویت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
چاند کے بارے میں یہ ایک روشن سائنسی حقیقت ہے کہ اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی روشنی ہوتی ہے جو چاند پر پڑنے کے باعث چاند روشن نظر آتا ہے۔ اس طرح جب اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی لہذا چاند کی سطح پر درجہ حرارت بھی نہایت کم ہوتا ہے۔ اس کیفیت کی نشاندہی ثمینہ گلؔ اپنے ایک شعر میں یوں کرتی ہیں :
؎ سورج کے ساتھ اس کا تعلق ہے اس لیے
ٹھنڈک کے باوجود پگھلتا رہا ہے چاند (٨٣)
یہاں بہت خوبصورتی سے چاند کے گھٹنے کے عمل کو شاعرہ نے چاند کا پگھلنا قرار دیا ہے جو کہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ سائنسدانوں کے نزدیک دنیا کی ہر چیز یہاں تک کہ خود سورج بھی پگھل رہا ہے اور بالآخر ایک دن ختم ہو جائے گا۔ اس نظریے کی گونج مذکورہ شعر میں صاف سنائی دے رہی ہیں۔
سائنسی اعتبار سے ایٹم کی ساخت پر ثمینہ گلؔ کچھ یوں اظہار خیال کرتی ہیں:
؎ دائروں کے بیچ میں ہے ایک اور دائرہ
نیوکلس اک مرکزہ ہے مرکزے پر دائرے (٨۴)
بنیادی طور پر ہر ایٹم میں موجود پروٹان اور الیکٹران اپنے مخصوص مدار میں گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایٹم میں سب سے چھوٹا ایٹم ہائیڈروجن کا ہے جس کے مداروں میں ایک پروٹان اور ایک الیکٹران ہوتا ہے۔ ایٹم کے وسط کو نیوکلس یا مرکزہ کہتے ہیں جو کہ دائرے کی صورت میں ہوتا ہے اس طرح اس کے گرد چکر لگانے والے پروٹان اور الیکٹران بھی دائرے کی شکل میں گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ہر حرکت اور کردش کسی مخصوص مدار کے گرد ہوتی ہے اور یہی انسان کا مقصدِ حیات ہے۔ جس حرکت کے لیے اُس کے پاس محور نہ ہو وہ فقط وقت کا ضیاع ہے۔
بادلوں کی تخلیق کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بادلوں کے بننے کا تعلق ہوا کے چلنے سے ہے۔ ہوا کے چلنے سے فضا میں موجود چھوٹے ذرات اور آبی بخارات اس کے ساتھ اوپر اٹھتے ہیں اور درجہ حرارت کی کمی کے باعث بھاری ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہی ہوا بادلوں کے بننے کا وسیلہ بنتی ہے اور یہی بادل بارش لانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس سائنسی عمل کو ثمینہ اپنے ایک شعر میں یوں بیان کرتی ہیں :
؎ مستیاں ہوا کی تھیں دھوپ کے ارادے تھے
بارشوں میں بھیگے تھے قافلے محبت کے (٨٥)
شاعری معاشرے کے مجموعی رویوں کی عکاسی کرتی ہے اور معاشرہ جن حالات و حوادث سے گزرتا ہے اس کی اصل جھلک اُس عہد کی شاعری میں بآسانی مل جاتی ہے۔ کوئی بھی شاعر چاہے وہ کس قدر انفرادیت پسند ہی کیوں نہ ہو، وہ سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اس طرح اس کی شاعری بھی معاشرتی مسائل سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتی۔
ثمینہ گلؔ کی شاعری اگرچہ بہت حد تک ان کے باطن کی آواز ہے اور داخلیت کی حامل ہے تاہم یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ انہوں نے معاشرتی مسائل اور عصری جبر سے بھی پہلو تہی نہیں کی۔ ان کی شاعری میں معاشرے کے تلخ حقائق کی نقاب کشائی کی گئی ہے جس سے ان کے عصری شعور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
؎ موسم کی بے رخی نے یوں مجبور کر دیا
مالی نے اپنے باغ کی تقدیر بیچ دی (٨٦)
عصرِ حاضر کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرہ ایک قسم کی افراتفری کا شکار ہے۔ آج کل نہ تو مسائل کا اصل حل کسی کے پاس ہے اور نہ ہی کوئی اس کے سلجھاؤ کی طرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ سب کی اپنی اپنی منطق ہے اور سب اپنے طور پر خوش فہمیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ کسی کو دوا کی تلاش ہے تو کوئی دُعا کے پیچھے سرگرداں دکھائی دیتا ہے اور یہی الجھن دراصل آج کے جدید انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ سماج کی اس اجتماعی پریشان حالی اور بے راہ روی کی نشاندہی ثمینہ یوں کرتی ہیں :
؎ میری ہی طرح سب تھے تمناؤں کے اسیر
کوئی دُعا تو کوئی دوا ڈھونڈتی رہی (٨٧)
آج کے جدید انسان کا ایک اور المیہ محبت کی ناپائیداری بھی خیال کی جاتی ہے۔ موجودہ عہد کا یہ انسان ترقی کی دوڑ میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اس کے لیے محبت، وفا، خلوص جیسی صفات کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور یہی محبت کی ناپائیداری ہے جس کے باعث جدید انسان کی زندگی کا سارا حسن ختم ہو چکا ہے۔ اس المیے کا شکار خود شاعره بھی ہیں۔ محبت کی اسی بے ثباتی کا ذکر وہ مختلف مقامات پر کرتی ہیں:
؎ چاہت ،وفا ،خلوص سب کہنے کی بات ہے
جو حسن زندگی تھا وہ کس نے چُرا لیا (٨٨)
؎ محبت کے سبھی جذبے لیے بیکار بیٹھے ہیں
کہ جیسے زندگی سے اپنی وہ بیزار بیٹھے ہیں
بڑا ہی زعم تھا جن کو محبت کی صداقت پر
لیے آنکھوں میں نفرت کے بڑے انبار بیٹھے ہیں (٨٩ )
؎ لہجوں کی جب برف پڑی تو ہجر کا کمبل اوڑھ لیا
آگ اگلتی یادوں میں بس ٹھنڈی راکھ سی باتیں تھیں (٩٠)
؎ سرد جذبوں کی نمائش سی لگی ہو جیسے
کس نے یہ برف میں لپٹے ہوئے گالے بیچے (٩١)
؎ دل میں نفرت ہے تو ہونٹوں پہ محبت کیسی
ایک ہی گھر کے مکینوں میں عداوت کیسی (٩٢)
مذکورہ اشعار عصرِ حاضر کے انسان کی حالت زار بیان کر رہے ہیں اور موجودہ عہد کے اجتماعی دکھ کو لیے ہوئے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ثمینہ کے نزدیک آج کے اس جدید انسان کا واحد المیہ اقدار کی شکست و ریخت اور محبت جیسے عالمگیر جذبے پر سے اس کا یقین اُٹھ جانا اور اس کی بے وقعتی ہی ہے جس کے باعث آج کا معاشرہ مسلسل انتشار کا شکار ہے .
اس کے علاوہ ثمینہ کی شاعری میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی بھی ملتی ہے وہ اپنی شاعری کے ذریعے ان افراد کی زبان بنتی ہے جو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے یا اپنے سماجی اور معاشی حالات کے پیش نظر اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ ثمینہ اپنی شاعری میں معاشرے کے ایسے افراد کی بھرپور نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایسے مقامات پر ان کا انداز ہمدردانہ اور غیرجانبدارانہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود وہ معاشرتی جبر کو بے نقاب کرتے ہوئے احتجاج اور نعرہ بازی سے کام نہیں لیتی بلکہ اپنے مخصوص اور مدھم انداز میں ان مسائل کو اُجاگر کرتے ہوئے صرف معاشرے کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے۔ معاشرتی مسائل کے حامل ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہو جس سے ثمینہ گلؔ کے سماجی شعور کی وضاحت ہوجاتی ہے :
؎ چُنتی رہی ہے رزق جو بچوں کے واسطے
کل وہ گلہری مر گئی گھر لوٹتے ہوئے (٩٣)
؎ کوئی پوچھے تو آ کر بے کسی تنخواہ داروں کی
مکاں جن کو بنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں (٩۴)
؎ سستائے جس کے سائے میں کچھ دیر بیٹھ کر
ایسا شجر بھی ہو کوئی مزدور کے لیے ( ٩٥)
؎ موسم کی بے رخی نے یوں مجبور کر دیا
مالی نے اپنے باغ کی تقدیر بیچ دی (٩٦ )
؎ تھک ہار کے جو شام کو لوٹی تھیں بیبیاں
بچے لپٹ کے رو پڑے ماؤں سے دوڑ کے (۹٧)
؎ زمیں کی کوکھ میں جس نے کپاس بوئی تھی
اسی کی آنکھ میں دیکھی نہیں خوشی میں نے (٩٨)
ثمینہ کی غزل میں زندگی اور اس کی تلخیاں باقاعدہ ایک رجحان کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ ان کے یہاں زندگی اپنی مکمل جزئیات کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ثمینہ کے نزدیک زندگی ہنسنے مسکرانے، عیش و عشرت اور خوشیوں کے شادیانے بجانے کا نام نہیں بلکہ مصائب و تکالیف کو خنده پیشانی سے برداشت کرنا ہی اصل زندگی ہے :
؎ زندگی کی ڈوریاں مجھ کو ملی الجھی ہوئیں
زندگی کی ڈوریوں کو کھولنا اچھا لگا ( ٩٩)
ان کی غزلوں میں زندگی کی تمام تر جہتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ اپنی غزلوں میں وہ ایک عام انسان ہونے کے ناطے تلخیٔ زیست کا گلہ بھی کرتی ہیں اور کبھی کبھار زندگی کی الجھنوں سے تنگ آکر اس سے بیزار بھی ہونے لگتی ہیں۔ لیکن جلد ہی وہ اس اکتاہٹ پر قابو پا کر زندگی کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ ثمینہ کے یہاں تلخیٔ زیست کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہو:
؎ سخت کڑوی اور کسیلی زندگی
گھونٹ بھر میں میں نے پی لی زندگی (١٠٠)
؎ چاند نگر کی کرنوں نے کب دیکھا تھا
جلتا جیون جلتا جائے ساری رات (١٠١)
؎ اس قدر ہیں خون میں لپٹے ہوئے
آنسوؤں پر زندگی کا رقص ہے(١٠٢)
؎ تمہارے بنا یوں ہی گزری ہماری
کھڑے امتحاں لے لیے زندگی نے(١٠٣)
اندھیرے اوڑھے اجل زمین پر برس رہی ہے
اداس آنکھوں میں زندگی اب ترس رہی ہے
حیات اب شام غم کے نوحے سنا رہی ہے
کہ سانس سینے میں آکے کب سے رکی ہوئی ہے (۱۰۴)
؎ زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر میں نے
دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرہ دیکھا (١٠٥)
زندگی کی تلخی اور بے رخی کو بہت سے شعرا نے اجاگر کیا ہے تاہم ان میں سے اکثر کے انداز سے اس قدر مایوسی جھلک رہی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا زندگی سے بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔ مذکورہ اشعار میں بھی زندگی کی کربناکی کو پورے حقائق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاہم شاعرہ کا انداز کہیں بھی یاس و ناامیدی کا حامل نہیں ٹھہرتا جس کے باعث قاری زندگی کی رعنائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر جائے بلکہ ان کی شاعری میں زندگی کی اتنی تلخی دیکھ کر بھی قاری کے دل میں جینے کی ایک نئی لگن اور امنگ پیدا ہونے لگتی ہے اور اس کے پیشِ نظر زندگی مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
حوالہ جات ۔
ثمینہ گلؔ کی غزل گوئی کے فکری عناصر :
؎ ڈھلنے لگتی ہے میری سوچ حسیں لفظوں میں
اشک پلکوں پہ سجائے تو غزل ہوتی ہے
اُردو کی شعری تاریخ میں غزل کو ایک ایسی صنف سخن کا درجہ حاصل رہا ہے جس نے نہ صرف اُردو زبان کے فنی تقاضوں کا ساتھ دیا بلکہ ہر عہد کے سیاسی، سماجی اور معاشی تقاضوں تک کو ملحوظ رکھا یہی وجہ ہے کہ یہ صنف ہر دور اور ہر طرح کی ادبی فضا میں اپنی منفرد شناخت قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس صنف کی ترقی میں ہر دور کے نامور شعراء نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ عصر حاضر کے غزل گو شعراء میں سے ایک اہم نام سرگودھا سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ثمینہ گلؔ کا ہے۔
ثمینہ کے شعری سرمائے کے مطالعے سے اگرچہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے یہاں ہر صنفِ سخن پر قلم آرائی ملتی ہے البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے قلم سے نکلی ہوئی غزلیں ہی ہیں۔ جن میں سے اکثرغزلوں میں کئی گلوکار اپنی آواز کا جادو جگا چکے ہیں، جس سے ان کی غزلوں کی قدر و قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
اُردو غزل کا عام اور مقبول ترین موضوع عشق و محبت اور ان سے متعلقات کا بیان ہے جن پر تقریباً ہر شاعر نے اپنے مزاج اور بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ رقم ضرور کیا ہے۔ یہ ایسے آفاقی موضوعات ہیں جن پر ہر زبان کے شعر و ادب میں اظہارخیال ملتا ہے۔ ثمینہ گلؔ کی غزل میں عشق و محبت پر بھر پور خیال آرائی ملتی ہے۔ ثمینہ کی شاعری میں محبت کا جو تصور پایا جا رہا ہے وہ اُردو کی شعری روایت سے بہت حد تک قربت رکھتا ہے۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں محبوب کی بے اعتنائی اور راہِ محبت کی تمام تر مشکلات کو اعزاز سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا عزم ملتا ہے اور حرف شکایت تک زبان پر نہیں لایا جاتا :
؎ ملیں راہِ محبت میں جو کانٹے گل سمجھ کر تم
انہیں دل میں سجا رکھنا ذرا سی اک گزارش ہے (۴٦)
محبت میں سب سے بڑا کربناک وقت ہجرِ محبوب ہوتا ہے جس کا بیان اُردو شاعری میں پورے شدومد کے ساتھ ملتا ہے۔ اُردو کے اکثر شعراء کے یہاں ہجر کے ان لمحات میں کافی یاس و نا اُمیدی کی کیفیت پاتی جاتی ہے لیکن ثمینہ کے یہاں ایسی صورت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں ہجر کے لمحات کو پوری جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن ان کے یہاں ان مشکلات سے ہی زندگی کی اصل معنویت سمجھنے کا رجحان ملتا ہے جس کا اعتراف خود شاعرہ کو بھی ہے :
؎ جینا سکھا دیا ہے جدائی کی آگ نے
کُندن بنا دیا ہے جدائی کی آگ نے (۴٧)
شاعری کے ابتدائی دور میں ان کی امیدوں کا محور ایک ہی شخص نظر آتا ہے جس کی یاد تک کو بھلانا اُن کی نظر میں بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں ان کا تصور محبت ایک مشرقی عورت کا حامل ہے جو اگر کسی کو ایک مرتبہ دل دے بیٹھے تو عمر بھر خود کو اس سے منسوب رکھنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتی ہے۔
؎ یہ مانا تو میرے دل میں بسا ہے پیار کی صورت
تجھے میں بھول جاؤں یہ کہاں میری دیانت ہے (۴٨)
ثمینہ گلؔ کے پہلے شعری مجموعے کی اکثر غزلوں میں محبت کا یہی روایتی انداز ملتا ہے جس میں ایک مرتبہ اگر کسی سے محبت کی جائے تو عمر بھر اسے نبھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ثمینہ گلؔ کا خیال ہے کہ : ؎ محبت زندگی میں گو بڑی مشکل سے ملتی ہے
مگر اس کو نبھانے میں زمانے بیت جاتے ہیں (۴٩ )
محبت کرنے والوں کے یہاں یہ ایک نفسیاتی الجھن پائی جاتی ہے کہ انہیں ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کے محبوب کے دل میں بھی ان کے لیے اتنی ہی محبت موجود ہے یا نہیں۔ اس کشمکش سے وہ ایک لمبے عرصے تک دوچار رہتے ہیں اور گومگو کا شکار ہوتے ہیں۔ ثمینہ اپنے ایک شعر میں اس کیفیت کی بہت عمدہ عکاسی کرتی ہیں :
؎ وہ میرا ہو کے میرا نہیں ہو سکا
گلؔ کے دل میں یہی روگ پلتا رہا (٥٠)
ثمینہ کے یہاں ابتدائی دور کی غزلوں میں محبت کا جو تصور سامنے آتا ہے اس میں ساری برتری محبوب کی ذات کو حاصل ہے، وہ مختارِ کُل ہے اور سب کچھ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اس کے کسی بھی کام میں محب کو کوئی دخل نہیں ہوتا جس کا اظہار ثمینہ کے ان اشعار میں بھی ملتا ہیں :
؎ اس بار وہ وفا کے معانی بدل گیا
لفظوں سے کھیل کر وہ کہانی بدل گیا (٥١)
؎ اپنی شکست جان یا اپنی فتح سمجھ
میں تیرا اختیار ہوں اے جانِ آرزو (٥٢)
اسی تصور محبت کی نشاندہی احمد فرازؔ کے یہاں یوں ملتی ہے:
؎ یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے (٥٣)
ثمینہ گلؔ کے اس تصور محبت کے بارے میں اُردو کے نامور شاعر فرحت عباس شاہ لکھتے ہیں :
"ثمینہ گلؔ کی شاعری بنیادی طور پر محبت کی شاعری ہے یہ محبت ہی ہے جو زندگی
کی تصویر لفظوں سے بناتی ہے ” (٥۴)
ثمینہ کے یہاں اس دور کی شاعری میں زندگی کی تمام دلکشی اور رعنائی محبوب کے طفیل ہی نظر آتی ہے اور وہی ان کی ذات کا محور و مرکز قرار پاتا ہے ۔
جب زندگی میں تو مری شامل نہیں رہا
کچھ بھی تو پیار کا مجھے حاصل نہیں رہا
میرے لیے ہے آج بھی وہ محترم بہت
جو شخص میری ذات کا قائل نہیں رہا (۵۵)
تاہم پہلے مجموعے سے ہی ان کی غزلوں سے کہیں کہیں ایسے اشارے مل جاتے ہیں جو ان کے اس روایتی انداز سے انحراف کا پتہ دیتے ہیں ۔
اردو شاعری میں محبوب کے کسی فعل پر اعتراض بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمیشہ سے اس کے ہر طرح کی بے اعتنائی اور لائقِ سرزنش فعل کو بھی قابل ستائش تصور کیا جاتا رہا، ایسے میں ثمینہ کا یہ کہنا :
؎ بے خیالی میں کوئی بات جو کہہ دی میں نے
میرے محبوب یہ غیروں سے شکایت کیسی (٥٦)
واقعی ان کے بدلتے ہوئے تصور محبت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی شاعری میں محبت کا یہ تصور جو ایک عورت کی طرف سے ہیں شعور و بلوغت کی منزل تک جیسے جیسے پہنچتا ہے ان پر دنیا کے نئے راز آشکار ہوتے ہیں اور اب ان کی شاعری میں محبوب کے رویے پر کھل کر اعتراض بلکہ تنقید کی کیفیت پائی جاتی ہے جیسے وہ ایک جگہ کہتی ہیں :
؎ میرے لہو سے کر کے وضو دل کو توڑ کر
وہ جا رہا ہے دل کا سمندر نچوڑ کر (۵٧)
ثمینہ کے یہاں کہیں کہیں احتجاج کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے گو کہ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اب وہ خود کو دعووں اور جھوٹی تسلیوں سے نہیں بہلاتی بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ دنیا کا سامنا کرتی ہیں۔
؎ چاک کرنا ہے گریباں سرِ محفل اُس کا
جو بھی ہونا ہے سر بزم وہ ہو جانے دو (۵۸)
یہاں پہنچ کر ان کا تصور محبت اور تانیثیت ان کی شاعری میں ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ثمینہ کی شاعری میں محبت کی حقیقت کے بارے میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا خیال ہے :
"ثمینہ گلؔ نے پانی کے گھر میں مقید رہ کر اب اس انداز سے
آنکھ کھولی ہے کہ محبت اس کے سامنے ایک فسانے کی
صورت نظر آتی ہے” (۵۹)
ثمینہ کے یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شخصی محبت کے اس رویے سے بیزاری کا احساس ملتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب ان کا نقطۂ نظر آہستہ آہستہ حقیقت شناسی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اب ان کے لیے نہ تو محبوب کے وعدے اس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اُس کی بے رخی ان پر اس قدر گراں گزرتی ہے۔ بلکہ وہ کہتی ہیں :
؎ اس نے جو پہلے پیار کی توقیر بیچ دی
ہم نے بھی اپنے خواب کی تعبیر بیچ دی (٦٠)
؎ اگر میں مسترد کر دوں تمہاری ان دلیلوں کو
بتا پھر کون آئے گا میرے انکار کے پیچھے (٦١)
محبت کا یہ نیا رویہ جدید شاعری کی دین ہے۔ اب ساری زندگی کوئی ایک شخص کسی کا محور نہیں رہتا بلکہ اب جس طرح ہر بات میں برابری کے تقاضے ہونے لگے ہیں محبت جیسے آفاقی جذبے نے بھی معاشرتی رویوں کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی صورت اور مطالب میں تبدیلی پیدا کی ہیں۔ اب قربانی صرف ایک فریق نہیں دیتا بلکہ سائنسی نقطۂ نظر کے حامل دونوں طرف سے قربانی دینی پڑتی ہے ورنہ یہ رشتہ قائم نہیں رہتا اسی برابرکی بات ثمینہ گلؔ یہاں ان الفاظ میں کرتی ہیں :
؎ راہ ہستی میں نئی رسم یہ ڈالی جائے
تیری چاہت دلِ ناداں سے نکالی جائے
رابطے رکھنے ہیں اب مجھ کو بھی تیرے جیسے
اب تیری جیسی ہی خو اپنی بنا لی جائے (٦٢)
یہاں ثمینہ گلؔ جدید غزل گو شعراء کی نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان کا انداز روایت سے ہٹ کے ہیں جو نئے دور کے نئے رویوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ ثمینہ گلؔ کے تیسرے شعری مجموعے میں ان کا انداز اور بھی حقیقت سے قریب تر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اب اس کے لیے محبوب کا ہجراور اس کا ملن دونوں کوئی معنی نہیں رکھتےاور اس کے ملنے کی خوشی بھی صرف لمحاتی ثابت ہوتی ہے اسی لیے وہ کہتی ہیں :
؎ وہ ملا تھا اور بس کچھ بھی نہیں
واہمہ تھا اور بس کچھ بھی نہیں (٦٣)
ثمینہ کے یہاں محبت کا یہ تصور جب ایک فرد سے ہٹتا ہے تو پورے سماج کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے اور وہ فرد واحد کی جگہ پوری مخلوق خُدا سے پیار کرنے لگتی ہیں۔ پھر ان کی نظر پورے معاشرے کو محبت کے جذبوں سے مزین کرنے پر مرکوز رہتی ہے جس کا اظہار اپنے ایک شعر میں یوں کرتی ہیں:
؎ جہاں پر چاہتیں ہی چاہتیں ہو
جہاں ایسا بسانا چاہتی ہوں (٦۴)
ثمینہ کی غزل میں ایک مشرقی عورت کا تصور پوری جزئیات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اُردو شاعری میں عورت کا یہ مشرقی تصور شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے قبل اُردو شاعری کی فضا پر جو عورت چھائی ہوئی تھی وہ یا تو مرد شعراء کی تخلیق کردہ تھی جو ان کے جنسی جذبات کی تسکین کرسکے یا اگر بعد کے ادوار میں خواتین شاعرات نے اس تصور کو بدل بھی دیا تو تانیثیت کی زد میں وہ اتنی بہ گئیں کہ بعض اوقات ان کی تخلیق کردہ عورت کی نسوانیت پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے ۔
ثمینہ گلؔ کی نظم کی طرح ان کی غزل میں بھی جو عورت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ اسی دھرتی میں پلی بڑھی ہے۔ ان کے یہاں عورت کا جو تصور ملتا ہے وہ حقیقت کے بہت قریب ہیں اور چاہنا اور چاہا جانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ ایک مشرقی عورت ہونے کے ناطے وہ جسے جاہ لیتی ہے وہی ایک شخص اس کی زندگی کا کُل سرمایہ بن جاتا ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کے نام کرنا چاہتی ہے۔ اس قسم کے جذبات کا اظہار ثمینہ کی ایک غزل میں یوں ملتا ہے :
سجایا ہے جنہیں میں نے محبت کے گلابوں سے
تر ہ تازہ وہ گلدستے تمہارے نام کرتی ہوں
تمہیں جی میں بسایا ہے تمھیں اپنا بنایا ہے
میں اپنی ذات کے حصے تمہارے نام کرتی ہوں (٦٥)
ثمینہ کی غزل میں عورت کا جو مشرقی تصور سامنے آتا ہے وہ بہت حد تک ان کی شخصیت اور مزاج سے قریب تر ہے، زندگی نے انہیں جو سکھایا ہیں ان تجربات کا پتہ اُن کا تصورِعورت دیتا ہے۔ جس طرح ان کے مزاج میں بغاوت کا عنصر ناپید ہے بالکل اسی طرح اُن کی تخلیق کردہ شاعری میں جو عورت سامنے آتی ہیں اس میں بھی بغاوت اور احتجاج کے عناصر نہیں پائے جاتے۔ اس بات سے ہر گز یہ مطلب اخذ نہیں ہونا چاہیے کہ ثمینہ کی یہ عورت بزدل ہے یا اپنے حق کے لیے بولنا نہیں جانتی بلکہ یہ عورت جب کہنے پہ آتی ہے تو یہاں تک کہہ جاتی ہے کہ :
؎ میں نے تو دار پر بھی تیرا نام لے لیا
یہ منکروں کے شہر میں جرأت کی بات ہے (٦٦)
جس سے اس کی جرات اور حوصلہ مندی کا اندازہ لگانا کوئی دشوار عمل نہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے مزاج سے مشرقیت جھلک رہی ہے اور یہی اس کا اصل حسن ہے۔
ایک مشرقی معاشرے میں رشتے نبھانا سب سے مقدم فعل سمجھا جاتا ہے۔ ثمینہ کی یہ عورت بھی سماجی تعلقات کو ہر چیز پر فوقیت دیتی ہیں۔ ان کے آگے اظہار سے ذیاده مقدم چیز تعلقات کو نبھانا ٹھہرتا ہے جس کا اندازہ ان کے اس شعر سے بھی ہو جاتا ہے :
؎ میں کروں اظہارِ الفت یہ ضروری تو نہیں
جب تعلق بن چکا ہو تو نبھانا سیکھئے (٦٧)
اسی طرح ان کے ان اشعار سے بھی ایک مشرقی عورت کی پوری شخصیت سامنے آتی ہیں :
؎ اُس کو مٹا کے اپنی میں تحقیر کیوں کروں
دل میں چھپائے رکھوں گی میں دل کے داغ کو (٦٨)
؎ دل میں اپنا درد چھپایا میں نے ساری دنیا سے
چپکے چپکے اشک بہانہ مجھ کو اچھا لگتا ہے
میری کسی بھی بات پہ مجھ سے جیون ساتھی روٹھے جو
پاؤں پکڑ کر اس کو منانا مجھ کو اچھا لگتا ہے ( ٦٩)
؎ یہ ہے کسی کے پیار کی زنجیر کا کمال
اب دل میں کچھ بھی خوف سلاسل نہیں رہا (٧٠)
ثمینہ کے یہاں جس عورت کا تصور ملتا ہے وہ ہمارے عام گھروں میں بیٹھی پردہ پوش خاتون کی ایک جھلک ہے جس کے مزاج میں شوخی اور بے باکی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، جو زندگی کے ہنگاموں سے دور اپنے گھر کے چولہے کے قریب بیٹھی نہایت بے فکری سے اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ جسے زندگی کے سنگین مسائل سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ اس کے سب سے بڑے مسائل گھر داری اور امورِ خانہ داری ہے۔ چونکہ اس عورت نے دنیا کی مکاریاں اور چالبازیاں نہیں دیکھیں اس لیے اس کے مزاج میں وہ فطری معصومیت اور حیا جیسی صفات بدرجہ اتم موجود ہیں جسے کسی بھی عورت کا فطری حسن تصور کیا جاتا ہے۔
ثمینہ کی اس عورت کی ایک اور جہت ملاحظہ ہو :
؎ چپکے سے بہانے سے ملنے کو چلی گوری
پائل جو بچی اُس کی پھر ساری فضا گونجی (٧١)
یہاں ثمینہ نے ایک ایسی مشرقی عورت کی جھلک پیش کی ہے جو اپنے محبوب سے ملنا تو چاہتی ہے لیکن اسے معاشرتی روایات کا بھی خیال ہے۔ شعر میں اس کی اس گھبراہٹ کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے کہ وہ راستے پر جاتے ہوئے اپنے پائل کی جھنکار سے اس قدر خوفزدہ ہوجاتی ہے کہ گویا اس کے گرد و پیش کا سارا ماحول اس جھنکار سے گونج اُٹھتا ہے۔ یہ شعر لڑکیوں کی نفسیات کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے
ثمینہ گلؔ کے بعد کی غزلوں میں بھی نظموں کی طرح مشرقی تصورِعورت سے انحراف اور نقطۂ نظر میں تانیثیت کا رجحان جھلکنے لگا۔
؎ درد نے درد کے ماروں سے بغاوت کر لی
ہم نے کمزور سہاروں سے بغاوت کر لی (٧٢)
یہاں ان کے انداز میں تانیثیت کی رنگ آمیزی نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح ان کے تیسرے مجموعے کے اس شعر میں ان کا نقطۂ نظر تانیثیت کے مزید قریب تر نظر آ رہا ہے :
؎ پائل بنا کے پیر میں جس کو پہن لیا
لائی گئی تھی قید سے زنجیر کھینچ کر (٧٣)
پائل عورت کے مشرقیت کی علامت ہے لیکن یہاں اس مشرقی عورت کے پیر میں پہنائے گئے پائل کو زنجیر سے تعبیر کیا جا رہا ہے جس کا واضح مطلب عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف اشارہ ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ اب شاعرہ کے یہاں عورت کا وہ تصور نہیں رہا جو ہر طرح کے ظلم سہ کر بھی خاموش رہتی ہے اور اپنے حق کے لیے نہیں بول سکتی۔ اب اس عورت میں صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنے کا شعور آ گیا ہے اور اسے حرفِ تسلی سے بہلانا ممکن نہیں رہا۔
ثمینہ گلؔ نے رزم گاہِ حیات میں سخت حالات کا مقابلہ کیا اور عمر کا ایک بڑا حصہ مختلف قسم کے حالات سے برسرِ پیکار رہیں۔ جب شاعر ایسے کربناک مراحل سے گزر رہا ہو تو نتیجے کے طور پر اُس کی شاعری ذاتی کرب کا ایک مرثیہ بن جاتی ہے جس کی مثال اُردو شاعری میں میرؔ اور فانیؔ کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ انسان کے اندر کا ماحول جس قسم کا ہوتا ہے اُس کی تحریروں میں بھی وہی رنگ جھلک رہا ہوتا ہے۔ ثمینہ گلؔ کے معاملے میں اس نقطۂ نظر میں تھوڑی سی تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ ذاتی طور پر انہوں نے کیسے ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کیا ہو اُن کی شاعری پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ ان کی شاعری پڑھ کر قاری کو ایک نئی امید اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ خود کہتی ہیں :
رہِ حیات پہ چلنا تمہیں سکھا دیں گی
یہ لغزشیں ہی سنبھلنا تمہیں سکھا دیں گی
یہ بہرِ رنج و الم شور کر رہا ہے تو کیا
یہ تُند موجیں اُبھرنا تمہیں سکھا دیں گی (٧۴)
اگرچہ شاعری کے ابتدائی نمونوں میں کہیں کہیں اُن کے شعری اُفق پر یاس و نا اُمیدی کے بادل منڈلاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس دور کی شاعری میں رات کا ذکر بکثرت ملتا ہے جو دکھ، درد اور نا اُمیدی کے لیے استعارے کا کام دے رہا ہے لیکن یہ رات مکمل طور پر سیاہی کی حامل نہیں ہے بلکہ اس میں چاند، تارے اور چراغ کا پایا جانا اُمید کو ظاہر کر رہا ہے تاہم کہیں کہیں نا اُمیدی اور زندگی سے بیزاری کا احساس بھی ملتا ہے۔
؎ ذرا بھی اور جینے کو مرا اب جی نہیں کرتا
برو کا زہر پینے کو میرا اب جی نہیں کرتا (٧٥)
ان سب کے باوجود مایوسی اور نااُمیدی کی یہ کیفیت اُن کے یہاں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی اور چند ہی لمحوں میں اُن کے یہاں صورتحال کچھ یوں تبدیل ہوتی ہے کہ:
؎ بستی میں جب چاند نہ اُترے راہوں میں تاریکی ہو
خونِ جگر سے دیپ جلانا مجھ کو اچھا لگتا ہے (٧٦)
ثمینہ کی غزل میں خود اعتمادی اور رجائیت کے پہلو بہت نمایاں ہیں۔ اُن کے نزدیک حالات کی ستم ظریفی دیکھ کر ایک جگہ بیٹھ جانا اور مسائل سے منہ موڑنا بڑی بات نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنا ہی انسان کا اصل جہاد ہے۔ اس بات کا اظہار اُن کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں طور پر سامنے آتا ہے جو اگر ایک طرف شاعرہ کی حوصلہ مندی اور جرأت کا پتہ دیتی ہے۔تو دوسری طرف ان لوگوں کے لیے بھی اُمید کی ایک علامت بن جاتی ہے جو وقت کی تیز رو کا ساتھ نہ دے پا رہے ہو اور ماحول کی مخالف چال سے گھبرا رہے ہوتے ہیں ان کے نام ثمینہ کا پیغام ہے کہ :
؎ جسے موسم کی سختی نے کہیں کا بھی نہیں چھوڑا
اسی گل کو ہرا دیکھو دوبارہ کر لیا میں نے (٧٧)
لہذا یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری پڑھنے والے کے لیے ایک محرک کا کام کرتی ہے جو انہیں ایک قسم کی آس دلاتی ہے اور انہیں عمل پر ابھارتی ہے۔ رجائیت ہی کے حوالے سے ان کا یہ شعر بھی قابل غور ہے :
؎ درد کی دہلیز پہ رکھا دیا دیکھا کیے
پھر ہوا کے ساتھ ہوتا رابطہ دیکھا کیے (٧٨)
یہاں دو چیزیں قابل غور ہیں، دیا اور ہوا۔ عام طور پر یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تصور کی جاتی ہیں۔ ہوا کے چلتے ہوئے دیا جلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں دیا جلاتے ہوئے بھی ہوا سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے یعنی شاعرہ زندگی کو مشکلات کا دوسرا نام تصور کر رہی ہے اور ان مشکلات کا مقابلہ ہی حیات انسانی کا نصب العین ہے۔ اسی طرح ان کے اس شعر میں بھی رجائیت کا پہلو نمایاں ہے :
؎ ہر اک جگہ فصیلِ غمِ جاں کو کاٹ دے
دیپک ہوا کے ہاتھ پہ رکھ کر جلا یہ رات (٧٩)
یہاں چراغ اُمید کی ایک علامت کے طور پر مستعمل ہے جبکہ رات کی اصطلاح کرب اور مسائل زیست کے طور پر لائی گئی ہے۔ شعر میں پچھلے شعر کی طرح شاعرہ کا انداز حد درجہ پُراُمید اور رجائیت کا حامل نظر آ رہا ہے جس میں مصائب کا سامنا کرنے کی قوت موجود ہے۔ ثمینہ گلؔ کی شاعری کی اسی جہت کا ذکر کرتے ہوئے سید عارف بخاری صاحب فرماتے ہیں :
” آج کے اس پُرآشوب دور میں جہاں نفرت، حقارت، درندگی اور وحشت نے انسانیت کو
اپنے مضبوط حصار میں لے رکھا ہے وہاں محترمہ ثمینہ گلؔ کی شاعری ہمیں نئی اُمید،
نئی روشنی اورنئی تمازت کی نوید سناتی ہے یہی وجہ ہے کہ محترمہ ثمینہ گلؔ صاحبہ
نے شاعری سے ایک مضبوط رشتہ اُستوار کر رکھا ہے۔“ (٨٠)
شعر و ادب چاہے کسی بھی زبان کا ہو، اپنے عہد کے فکری تقاضوں اور عام زاویئہ نظر کی عکاسی ضرور کرتا ہے۔ عہد حاضر میں سائنسی ترقی اور استدلالی انداز نے جس قدر زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اسی قدر اس کے اثرات ادب اور خاص طور پر شاعری پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اکثر شعراء کے یہاں سائنسی شعور کے حامل اشعار مل جاتے ہیں جس سے ان کی فکر پر سائنسی اثرات بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
اُردو زبان کے دیگر معروف شعراء کی طرح ثمینہ گلؔ کی شاعری میں بھی سائنسی انکشافات کی جھلک صاف نظر آتی ہیں جس سے ان کی سائنسی اپروچ کا بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ ان کی غزل میں سائنسی شعور کے حامل اشعار میں سائنس کے بڑے بڑے انکشافات انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں جو اُن کی شاعری کی افادیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
چاند کرۂ ارض سے لگ بھگ دو لاکھ چالیس ہزار کلو میٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی زمین پتھریلی ہے اور ہوا اور پانی جیسے بنیادی عوامل جو زندگی کے لیے لازمی ہوتے ہیں چاند پر ناپید ہیں جس کے باعث یہاں زندگی کے آثار دریافت نہ ہو سکے لیکن ان سب کے باوجود انسان کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ چاند پر پہنچ سکیں۔ اس خواہش کے پیش نظر کئی مشن چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم آج بھی انسان کے چاند پر پہنچنے کی کوششوں میں کمی واقع نہیں ہوئیں، اس سائنسی حقیقت کی طرف ثمینہ یوں اشارہ کرتی ہیں :
؎ شوق جنوں کی شاخ سے جگنو سمیٹ لے
چل چاند کی زمین پر چل کے بنا یہ رات (٨١)
جگنو کا تعلق اگر ایک طرف رات سے ہے تو دوسری طرف اُمید کی ایک کرن بھی ہے۔ دوسرے مصرعے میں چاند کی زمین کی بات ہو رہی ہے اور وہاں پر رات بنانے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چاند کی سطح کا ایک دن ہماری زمین کے پندرہ دنوں کے برابر ہیں۔ غالباً اسی لیے شاعرہ یہاں رات لانے کا تذکرہ چھیڑ رہی ہے۔ اسی طرح ان کا یہ شعر بھی سائنسی نقطۂ نظر سے غور طلب ہے :
؎ زمیں کی آنکھ میں ٹھہرا ہوا ہے آسماں سارا
زمیں جیسا زمانے میں سیارہ ہو نہیں سکتا (٨٢)
سائنسی نقطۂ نظر سے آسمان درحقیقت نیلے رنگ کا حامل نہیں ہے۔ اس کا یہ رنگ دراصل سورج کی روشنی کے باعث ہے۔ سورج کی روشنی قوسِ قزح کے رنگوں کی مانند سات مختلف رنگوں پر مشتمل ہیں۔ ان تمام رنگوں کی فریکوینسیز آپس میں مختلف ہیں۔ سورج کی روشنی جب زمین کی طرف آتی ہے تو اس میں موجود مختلف رنگوں میں سے جن رنگوں کی فریکیونسی ذیاده ہوتی ہے وہ فضا میں موجود اوزون لہر کے مختلف کیسوں سے گزر جاتی ہے جبکہ نیلا رنگ اس لہر سے گزر نہ سکنے کے باعث فضا میں پھیل جاتا ہے جس کے سبب آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے جبکہ زمین کے مقابلے میں نظام شمسی کے باقی سیاروں سے آسمان کا رنگ کالا دکھائی دیتا ہے۔ ان حقائق کے بعد شعر کی اصل معنویت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
چاند کے بارے میں یہ ایک روشن سائنسی حقیقت ہے کہ اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی روشنی ہوتی ہے جو چاند پر پڑنے کے باعث چاند روشن نظر آتا ہے۔ اس طرح جب اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی لہذا چاند کی سطح پر درجہ حرارت بھی نہایت کم ہوتا ہے۔ اس کیفیت کی نشاندہی ثمینہ گلؔ اپنے ایک شعر میں یوں کرتی ہیں :
؎ سورج کے ساتھ اس کا تعلق ہے اس لیے
ٹھنڈک کے باوجود پگھلتا رہا ہے چاند (٨٣)
یہاں بہت خوبصورتی سے چاند کے گھٹنے کے عمل کو شاعرہ نے چاند کا پگھلنا قرار دیا ہے جو کہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ سائنسدانوں کے نزدیک دنیا کی ہر چیز یہاں تک کہ خود سورج بھی پگھل رہا ہے اور بالآخر ایک دن ختم ہو جائے گا۔ اس نظریے کی گونج مذکورہ شعر میں صاف سنائی دے رہی ہیں۔
سائنسی اعتبار سے ایٹم کی ساخت پر ثمینہ گلؔ کچھ یوں اظہار خیال کرتی ہیں:
؎ دائروں کے بیچ میں ہے ایک اور دائرہ
نیوکلس اک مرکزہ ہے مرکزے پر دائرے (٨۴)
بنیادی طور پر ہر ایٹم میں موجود پروٹان اور الیکٹران اپنے مخصوص مدار میں گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایٹم میں سب سے چھوٹا ایٹم ہائیڈروجن کا ہے جس کے مداروں میں ایک پروٹان اور ایک الیکٹران ہوتا ہے۔ ایٹم کے وسط کو نیوکلس یا مرکزہ کہتے ہیں جو کہ دائرے کی صورت میں ہوتا ہے اس طرح اس کے گرد چکر لگانے والے پروٹان اور الیکٹران بھی دائرے کی شکل میں گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ہر حرکت اور کردش کسی مخصوص مدار کے گرد ہوتی ہے اور یہی انسان کا مقصدِ حیات ہے۔ جس حرکت کے لیے اُس کے پاس محور نہ ہو وہ فقط وقت کا ضیاع ہے۔
بادلوں کی تخلیق کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بادلوں کے بننے کا تعلق ہوا کے چلنے سے ہے۔ ہوا کے چلنے سے فضا میں موجود چھوٹے ذرات اور آبی بخارات اس کے ساتھ اوپر اٹھتے ہیں اور درجہ حرارت کی کمی کے باعث بھاری ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہی ہوا بادلوں کے بننے کا وسیلہ بنتی ہے اور یہی بادل بارش لانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس سائنسی عمل کو ثمینہ اپنے ایک شعر میں یوں بیان کرتی ہیں :
؎ مستیاں ہوا کی تھیں دھوپ کے ارادے تھے
بارشوں میں بھیگے تھے قافلے محبت کے (٨٥)
شاعری معاشرے کے مجموعی رویوں کی عکاسی کرتی ہے اور معاشرہ جن حالات و حوادث سے گزرتا ہے اس کی اصل جھلک اُس عہد کی شاعری میں بآسانی مل جاتی ہے۔ کوئی بھی شاعر چاہے وہ کس قدر انفرادیت پسند ہی کیوں نہ ہو، وہ سماج سے کٹ کر نہیں رہ سکتا اس طرح اس کی شاعری بھی معاشرتی مسائل سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتی۔
ثمینہ گلؔ کی شاعری اگرچہ بہت حد تک ان کے باطن کی آواز ہے اور داخلیت کی حامل ہے تاہم یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ انہوں نے معاشرتی مسائل اور عصری جبر سے بھی پہلو تہی نہیں کی۔ ان کی شاعری میں معاشرے کے تلخ حقائق کی نقاب کشائی کی گئی ہے جس سے ان کے عصری شعور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
؎ موسم کی بے رخی نے یوں مجبور کر دیا
مالی نے اپنے باغ کی تقدیر بیچ دی (٨٦)
عصرِ حاضر کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ معاشرہ ایک قسم کی افراتفری کا شکار ہے۔ آج کل نہ تو مسائل کا اصل حل کسی کے پاس ہے اور نہ ہی کوئی اس کے سلجھاؤ کی طرف متوجہ ہوتا ہے بلکہ سب کی اپنی اپنی منطق ہے اور سب اپنے طور پر خوش فہمیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ کسی کو دوا کی تلاش ہے تو کوئی دُعا کے پیچھے سرگرداں دکھائی دیتا ہے اور یہی الجھن دراصل آج کے جدید انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ سماج کی اس اجتماعی پریشان حالی اور بے راہ روی کی نشاندہی ثمینہ یوں کرتی ہیں :
؎ میری ہی طرح سب تھے تمناؤں کے اسیر
کوئی دُعا تو کوئی دوا ڈھونڈتی رہی (٨٧)
آج کے جدید انسان کا ایک اور المیہ محبت کی ناپائیداری بھی خیال کی جاتی ہے۔ موجودہ عہد کا یہ انسان ترقی کی دوڑ میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اس کے لیے محبت، وفا، خلوص جیسی صفات کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور یہی محبت کی ناپائیداری ہے جس کے باعث جدید انسان کی زندگی کا سارا حسن ختم ہو چکا ہے۔ اس المیے کا شکار خود شاعره بھی ہیں۔ محبت کی اسی بے ثباتی کا ذکر وہ مختلف مقامات پر کرتی ہیں:
؎ چاہت ،وفا ،خلوص سب کہنے کی بات ہے
جو حسن زندگی تھا وہ کس نے چُرا لیا (٨٨)
؎ محبت کے سبھی جذبے لیے بیکار بیٹھے ہیں
کہ جیسے زندگی سے اپنی وہ بیزار بیٹھے ہیں
بڑا ہی زعم تھا جن کو محبت کی صداقت پر
لیے آنکھوں میں نفرت کے بڑے انبار بیٹھے ہیں (٨٩ )
؎ لہجوں کی جب برف پڑی تو ہجر کا کمبل اوڑھ لیا
آگ اگلتی یادوں میں بس ٹھنڈی راکھ سی باتیں تھیں (٩٠)
؎ سرد جذبوں کی نمائش سی لگی ہو جیسے
کس نے یہ برف میں لپٹے ہوئے گالے بیچے (٩١)
؎ دل میں نفرت ہے تو ہونٹوں پہ محبت کیسی
ایک ہی گھر کے مکینوں میں عداوت کیسی (٩٢)
مذکورہ اشعار عصرِ حاضر کے انسان کی حالت زار بیان کر رہے ہیں اور موجودہ عہد کے اجتماعی دکھ کو لیے ہوئے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ثمینہ کے نزدیک آج کے اس جدید انسان کا واحد المیہ اقدار کی شکست و ریخت اور محبت جیسے عالمگیر جذبے پر سے اس کا یقین اُٹھ جانا اور اس کی بے وقعتی ہی ہے جس کے باعث آج کا معاشرہ مسلسل انتشار کا شکار ہے .
اس کے علاوہ ثمینہ کی شاعری میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی بھی ملتی ہے وہ اپنی شاعری کے ذریعے ان افراد کی زبان بنتی ہے جو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے یا اپنے سماجی اور معاشی حالات کے پیش نظر اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ ثمینہ اپنی شاعری میں معاشرے کے ایسے افراد کی بھرپور نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایسے مقامات پر ان کا انداز ہمدردانہ اور غیرجانبدارانہ ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود وہ معاشرتی جبر کو بے نقاب کرتے ہوئے احتجاج اور نعرہ بازی سے کام نہیں لیتی بلکہ اپنے مخصوص اور مدھم انداز میں ان مسائل کو اُجاگر کرتے ہوئے صرف معاشرے کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے۔ معاشرتی مسائل کے حامل ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہو جس سے ثمینہ گلؔ کے سماجی شعور کی وضاحت ہوجاتی ہے :
؎ چُنتی رہی ہے رزق جو بچوں کے واسطے
کل وہ گلہری مر گئی گھر لوٹتے ہوئے (٩٣)
؎ کوئی پوچھے تو آ کر بے کسی تنخواہ داروں کی
مکاں جن کو بنانے میں زمانے بیت جاتے ہیں (٩۴)
؎ سستائے جس کے سائے میں کچھ دیر بیٹھ کر
ایسا شجر بھی ہو کوئی مزدور کے لیے ( ٩٥)
؎ موسم کی بے رخی نے یوں مجبور کر دیا
مالی نے اپنے باغ کی تقدیر بیچ دی (٩٦ )
؎ تھک ہار کے جو شام کو لوٹی تھیں بیبیاں
بچے لپٹ کے رو پڑے ماؤں سے دوڑ کے (۹٧)
؎ زمیں کی کوکھ میں جس نے کپاس بوئی تھی
اسی کی آنکھ میں دیکھی نہیں خوشی میں نے (٩٨)
ثمینہ کی غزل میں زندگی اور اس کی تلخیاں باقاعدہ ایک رجحان کی صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ ان کے یہاں زندگی اپنی مکمل جزئیات کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ثمینہ کے نزدیک زندگی ہنسنے مسکرانے، عیش و عشرت اور خوشیوں کے شادیانے بجانے کا نام نہیں بلکہ مصائب و تکالیف کو خنده پیشانی سے برداشت کرنا ہی اصل زندگی ہے :
؎ زندگی کی ڈوریاں مجھ کو ملی الجھی ہوئیں
زندگی کی ڈوریوں کو کھولنا اچھا لگا ( ٩٩)
ان کی غزلوں میں زندگی کی تمام تر جہتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ اپنی غزلوں میں وہ ایک عام انسان ہونے کے ناطے تلخیٔ زیست کا گلہ بھی کرتی ہیں اور کبھی کبھار زندگی کی الجھنوں سے تنگ آکر اس سے بیزار بھی ہونے لگتی ہیں۔ لیکن جلد ہی وہ اس اکتاہٹ پر قابو پا کر زندگی کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ ثمینہ کے یہاں تلخیٔ زیست کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہو:
؎ سخت کڑوی اور کسیلی زندگی
گھونٹ بھر میں میں نے پی لی زندگی (١٠٠)
؎ چاند نگر کی کرنوں نے کب دیکھا تھا
جلتا جیون جلتا جائے ساری رات (١٠١)
؎ اس قدر ہیں خون میں لپٹے ہوئے
آنسوؤں پر زندگی کا رقص ہے(١٠٢)
؎ تمہارے بنا یوں ہی گزری ہماری
کھڑے امتحاں لے لیے زندگی نے(١٠٣)
اندھیرے اوڑھے اجل زمین پر برس رہی ہے
اداس آنکھوں میں زندگی اب ترس رہی ہے
حیات اب شام غم کے نوحے سنا رہی ہے
کہ سانس سینے میں آکے کب سے رکی ہوئی ہے (۱۰۴)
؎ زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر میں نے
دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرہ دیکھا (١٠٥)
زندگی کی تلخی اور بے رخی کو بہت سے شعرا نے اجاگر کیا ہے تاہم ان میں سے اکثر کے انداز سے اس قدر مایوسی جھلک رہی ہوتی ہے کہ پڑھنے والا زندگی سے بیزاری محسوس کرنے لگتا ہے۔ مذکورہ اشعار میں بھی زندگی کی کربناکی کو پورے حقائق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاہم شاعرہ کا انداز کہیں بھی یاس و ناامیدی کا حامل نہیں ٹھہرتا جس کے باعث قاری زندگی کی رعنائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر جائے بلکہ ان کی شاعری میں زندگی کی اتنی تلخی دیکھ کر بھی قاری کے دل میں جینے کی ایک نئی لگن اور امنگ پیدا ہونے لگتی ہے اور اس کے پیشِ نظر زندگی مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
بشکریہ: مریم بی بی
یہ مقالہ مصنف کی تیار کردہ اصلی صورت میں ٹیم پروفیسر آف اردو کے ہاں محفوظ ہے مزید معلومات کے لیے ٹیم پروفیسر آف اردو سے رابطہ کریں شکریہ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں