نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات میں فرق

نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات میں فرق Noabadiyat Aur Mabad Noabadiyat Mein Farq

تحریر: ڈاکٹر عامر سہیل

کچھ اس تحریر سے:

  1. مقصد یہ ہے کہ پانی سے زرخیزی ہوتی ہے اور جہاں زرخیزی ہو اسے غیر زرخیزیعلاقے والے لوگ اپنی نو آبادیات بناتے رہے۔۔۔
  2. رومیوں کے پاس وسط اٹلی میں زمینی قلت تھی اور ان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی تھی۔ لہٰذا انھوں نے اپنی ضرورت کے تحت ۲۰۲ ق م کے بعد سامراجیت کی صورت اختیار کی۔۔۔۔
  3. ان تمام مذکورہ علاقوں پر رومیوں کا قبضہ تھا۔ اس طرح روم سلطنت اپنے عہد کی سب سے بڑی سامراجی طاقت (Imperializtic Power) بنی۔۔۔
  4. یونان میں اس میں ایک سال میں ایک فصل ہوا کرتی تھی۔ ان پیداواری اشیاء اور زرخیزی کے باعث یونانی سپہ سالار سکندر (الیگزینڈر نے ۳۳۱ ق م میں فارس کے شہنشاہ دارا سوم کو شکست دینے کے بعد وادی سندھ کی طرف اپنی فوجی چڑھائی کی۔۔۔

نو آبادیات و ما بعد نو آبادیات

ما بعد نو آبادیاتی مطالعہ، ثقافتی مطالعہ ہے۔ یہ ایک نظریہ کی حد تک ہی اہم نہیں بلکہ سابقہ نو آبادیاتی ملکوں اور موجودہ جدید نو آبادیاتی ملکوں کے ادب کو مقامی شناخت کے اعتبار سے سمجھنے کے لیے ایک اہم تنقیدی تھیوری ہے۔

بر صغیر انیسویں صدی کے آغاز میں ہی نو آبادیاتی ملک بن چکا تھا۔ اٹھارویں صدی بھی انتشار ، سیاسی کمزور، اور اخلاقی انحطاط کی صدی تھی۔

انگریزوں نے جب ہندوستان کو کالونی (Colony) بنالیا تواس پر نو آبادیاتی تمدن مسلط کر دیا ۔

استعمار کار (Colonizer) اپنی ثقافت اپنی (Colony) پر مسلط کرتا ہے جس کے نتیجے میں مقامی باشندہ اپنی ثقافت سے دور ہو جاتا ہے

اور استعمار کار کی ثقافت کو اپنانے یا اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔

نو آبادیاتی تمدن کی محکوم اقوام تک کی منتقلی خالصتاً اختیارات ، روایات اور فوجی طاقت کا مظہر ہوتی ہے۔

غالب ثقافت کے پہلو عام طور پر زبان کے ساتھ ہی متقل ہو جاتے ہیں اس طرح دو معاشروں قوموں اور ممالک کے درمیان سیاسی اقتصادی سماجی اور ذہنی لین دین کی بنیاد عدم مساوات ، ایک طاقتور کا دوسرے کمزور فریق کے استحصال اور غلبے پر رکھی جاتی ہے۔

جس میں تمام تر فیصلے حاکم تنظیم کے اختیار میں ہوتے ہیں۔

در حقیقت نو آبادیاتی تمدن کی مغلوب معاشرے میں منتقلی کا مقصد مقامی لوگوں کی ثقافت کا استحصال کرنا ہوتا ہے۔ (۱)

نو آباد کار اس پالیسی میں کامیاب ہو گئے ۔ مقامی باشندوں نے آہستہ آہستہ غالب ثقافت کی طرف رجوع کیا۔

ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی ثقافت سے دور ہوتے گئے۔ یادر ہے مقامی باشندوں میں اکثریت ان کی ہے جن کا زیادہ واسطہ پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ تھا۔

نوآباد کار نے نو آبادیاتی تمدن مسلط کرنے کے علاوہ بھی نو آبادیاتی نظام کے رائج کرنے کے لیے کافی حکمت عملیاں ، تدبیریں اور سازشیں اپنائیں۔

مابعد نو آبادیاتی مطالعہ، ان تمام حکمت عملیوں، سازشوں اور تدبیروں سے نقاب اٹھاتا ہے جن سے نو آبادیاتی نظام (Colonialim) رائج ہوا۔

اور ساتھ سفارش کرتا ہے کہ اب دوبارہ ہمیں اپنے ادب کا ثقافتی مطالعہ کرنا چاہیے کیوں کہ نوآبادیاتی عہد میں ہمارے ادب کو بے معنی قرار دیا تھا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم دوبارہ اپنے ادب کا مطالعہ کر کے، اپنی ثقافت کی طرف رجوع اختیار کریں۔

نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات میں فرق | Noabadiyat Aur Mabad Noabadiyat Mein Farq

اپنی شناخت مل جائے گی۔ اس سے پہلے کہ ہم تفصیل میں جائیں پہلے نو آبادیات کا تاریخی پس منظر نوآبادیاتی نظام (Colonilism)، برصغیر میں نو آبادیاتی نظام کا آغاز و ارتقاء، بر صغیر میں نو آبادیاتی نظام کے قیام کے لیے استعماری حکمت عملیوں کا جائزہ،

استعمار کار (Colonizer) اور استعمار زدہ (Colonizid) میں رشتہ مابعد نو آبادیاتی مطالعہ اور مابعد نو آبادیاتی تنقید کو دیکھتے ہیں۔

انسان فطری طور پر لالچی ہے۔ انسان اپنی ضرورت اور سہولت کے تحت سب کچھ کرتا ہے۔

پہلی بار ضرورت ہے تو دوسری بار سہولت ، نو آبادیات کا پہلو تصور نظریہ ضرورت کے تحت وجود میں آیا۔

آہستہ آہستہ اب یہ نظریہ دنیا میں واحد سپر پاور بنے کی حد تک پہنچ چکا ہے۔

انسان کی اس ضرورت اور سہولت نے اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کیا۔

ضرورت کے تحت جب انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا تو دنیا کی پہلی نو آبادی وجود میں آئی۔

انسان کی پہلی ہجرت پانی اور شکار کی ضرورت کے تحت ہوئی ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے شہر دریاؤں، بحروں، اور سمندروں کے کنارے موجود تھے یہ اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ وہاں آبادی شروع سے تھی جو آہستہ آہستہ صنعتی و معاشی ترقی کرتے ترقی یافتہ شہروں میں بدل گئی۔

نیل ، دجلہ و فرات ، ٹیمز ، ہوانگ ہو اور سندھ کی وادیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وہاں انسانی آبادی کے ابتدائی نقوش پانی کی دستیابی کے سبب ابھرے ۔

وادی سندھ کی بات کریں تو قبل مسیح مختلف اقوام عالم یہاں آتی رہیں اس لیے کہ یہ خطہ اپنی زرخیزی کے ساتھ متمدن تھا۔

ٹیکسلا ( گندھارا کی تہذیب )، موہنجودڑ اور ہڑپہ کی تہذیبیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ علاقہ ( وادی سندھ ) مہذب و متمدن تھا۔

مختلف اقوام اسے اپنی کالونی (Colony) بناتی رہیں۔ یہاں کالونی کے معنی آباد کاری تک محدود سمجھے جائیں۔

مقصد یہ ہے کہ پانی سے زرخیزی ہوتی ہے اور جہاں زرخیزی ہوا سے غیر زرخیزی
علاقے والے لوگ اپنی نو آبادیات بناتے رہے۔

گیارہویں صدی ق م سے آٹھویں صدی ق م تک بحیرہ روم میں نو آبادیات کا عمل جاری رہا۔

فونیقی شام سے مغرب کی طرف نکلے اور چین کو نو آبادی بنایا۔ ایشیائے کو چک میں یونانیوں، فریگیا اور لیڈیا نے نوآبادیاں قائم کیں۔

ڈوریائی (Dorlans ) نسل کے لوگوں نے اٹلی اور سسلی کے علاقوں کو اپنی نو آبادیات بنایا۔

یوں مغرب میں اٹلی اور سپین تک اور ایشیائے کو چک کے ساحل کے ساتھ یونانی نو آبادیاں قائم ہوگئیں۔

فونیقی اور یونانیوں کو چین اور انٹی کی دھا میں چاندی اور تانبا سے غرض تھی۔

۱۳ ق م میں وادی سندھ کو دارا اول نے سائرس کی عظیم سلطنت میں شامل کر لیا جس کی وجہ سے وادی سندھ کا ہندسے تعلق ٹوٹ گیا۔ وادی سندھ اس وقت پیدا واری خطہ تھا یہاں سے پیداوار اور فوجی لڑنے کے لیے فارس میں بھیجے جاتے تھے۔

یہاں اس وقت خوفناک طویل دانت بھی سونڈ رکھنے والے ہاتھی پائے جاتے تھے۔ یہاں اونٹ ، اون ، بانس اور سفید دانت پائے جاتے تھے۔

اس خطے میں اس وقت ایک سال میں دو فصلیں ہوا کرتی تھیں۔ یونان میں اس میں ایک سال میں ایک فصل ہوا کرتی تھی۔

ان پیداواری اشیاء اور زرخیزی کے باعث یونانی سپہ سالار سکندر (الیگزینڈر نے ۳۳۱ ق م میں فارس کے شہنشاہ دارا سوم کو شکست دینے کے بعد وادی سندھ کی طرف اپنی فوجی چڑھائی کی ۔

دارا سوم کی سلطنت کی تباہی اور تخت جمشید کو نذر آتش کرتا ہو اسکندر دریائے سوات کو عبور کر کے ٹیکسلا پہنچا۔

یہاں اس وقت دولت کے انبار تھے جسے با ہمی مشاورت کے سکندر اور ابھی نامی حکمران نے آپس میں تقسیم کر لیے۔

آگے چل کر سکندر کا ٹاکرا پنجابی شہزادہ راجہ پورس سے ہوا۔

وادی سندھ اپنی زرخیزی کے باعث اقوام عالم کی توجہ کا مرکز رہی یہاں بیرونی لوگ ہجرت کر کے یا حملہ آور کی صورت میں آتے رہے اور اسے اپنی نو آبادیات بناتے رہے۔

رومیوں کے پاس وسط اٹلی میں زمینی قلت تھی اور ان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی تھی۔

لہٰذا انھوں نے اپنی ضرورت کے تحت ۲۰۲ ق م کے بعد سامراجیت کی صورت میں التیار کی۔

چناں چہ رومیوں نے وسطی اٹلی کے ساتھ ساتھ ملحقہ مالی وجنوبی اٹلی، سپین، جنوبی پرتال ، بلقان کی ریاستیں، الیریا (Illuria) (ان میں پرانے ہیوگوسلاد یہ اور البانیہ کے علاقے شامل ہیں )

شمالی افریقہ اور مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں کو اپنی نو آبادیات بنایا۔ علاوہ ازیں رومیوں ۔

مقدونیہ اور یونان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت کو وسعت بخشی ۔ ۱۴۶ رقم سے قبل پو کی جنگیں (Punic wars) ہو ئیں ۔ ۴۶ ق م کے بعد رومیوں نے نہ صرف مغربی بلکہ بحیرہ روم کے تمام ساحلی علاقوں پر قبضہ جمالیا۔

جن سسلی، سارڈینا، افریقہ کے علاقے، مقدونیہ، شمالی جنوبی بین، بلقان ریاستیں، شمام مصر اور ان کے آس پاس کے تمام علاقے شامل ہیں۔ (۲)

غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل وادی نیل، وادی دجلہ و فرات، وادی سندھ و گنگا اور وادی ہوانگ ہو ( چین ) میں نو آبادیاں قائم ہوتی رہیں۔

اس کے علاوہ بحیرہ روم کے ساحل چین کے علاقے ایشیائے کوچک، اٹلی پسلی کے علاقے نو آبادیوں میں تبدیل ہوئے ۔

ان تمام مذکورہ علاقوں پر رومیوں کا قبضہ تھا۔ اس طرح روم سلطنت اپنے عہد کی سب سے بڑی سامراجی طاقت (Imperializtic Power) بنی ۔

حضرت میسی کے عرش پر اٹھا لینے کے بعد عیسائیت پھیلنا شروع ہوئی اور انھوں نے سو سال کے عرصہ میں رومن تہذیب ختم کیا۔

عیسائیت نے قسطینہ میں ٹیکس بڑھا دیے اور غلامی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسانوں کو غلام بتایا گیا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں