مشتاق احمد یوسفی کی فنکاری (پروفیسر اختر الواسع)

مشتاق احمد یوسفی کی فن کاری

مشتاق احمد یوسفی طنز و مزاح کے حوالے سے ہم علی گڑھ والوں کو کیا بلکہ اردو والوں کے لیے قابل فخر ہستی کا نام تھا۔ ابن انشا کے لفظوں میں جس کے زمانے کو ہماری زبان و ادب میں طنز و مزاح کا عہد یوسفی قرار دیا گیا۔ میں ان کی تحریروں کا عاشق تھا اور ہوں ۔ شروع سے رہ رہ کر یہ خواہش جاگتی تھی کہ کاش میں ان سے مل سکتا اور قدرت نے اس خواہش کو نہ صرف پورا کیا بلکہ ایک نہیں دو دفعہ ۔ پہلے اسلام آباد کی بین الاقوامی اردو کا نفرنس میں ، جس کی محرک اور منتظم محترمہ کشور ناہید تھیں ۔ یہ ملاقات سرا سر رسمی تھی۔ ان کی شخصیت کا ایک رعب بھی ہم پر طاری تھا۔ اگر چہ وہ محبت سے ملے علی گڑھ کا حال چال پوچھا اور بس ۔ بعد ازاں دو سال بعد ان سے نیو یارک کے لانگ آئی لینڈ میں تین ریاستوں کے علی گڑھ طلبائے قدیم نے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور ہمیں سرسید احمد خان ایوارڈ برائے بین المذاہبی مفاہمت سے سرفراز فرمایا۔ یہ محفل در اصل ان ہی کی مشتاق تھی ۔ ہم تو غزل میں بھرتی کے شعر کے مصداق تھے۔ اس موقع پر ہم نے جو تقریر کی اس سے یوسفی صاحب بے حد خوش تھے۔ انھوں نے نہ صرف ہمیں گلے لگایا بلکہ کہا کہ تم نے مجھے نواب بہادر یار جنگ کی یاد دلا دی ۔ یہ میرے لیے حوصلہ افزائی کے علاوہ سب سے بڑا اعزاز تھا۔

مجاز نے جب یہ کہا تھا کہ ” جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا” تو ممکن ہے کہ لوگوں نے اسے محض شاعرانہ خیال پر محمول کیا ہو لیکن سات آٹھ دہائیاں گزر جانے کے بعد اب یہ مصرع شاعری کے ساتھ ساتھ حقیقت کا خوبصورت اظہار بھی ہے۔ اسے محض عقیدت اور جذبے کے اظہار کے طور پر دیکھنے کے بجائے ایک حقیقت کی شکل میں دیکھنا چاہیے ۔ واقعہ یہ ہے کہ علیک برادری نے علم وادب کی ایک دنیا کو نہ صرف فتح کیا ہے بلکہ اس میں غیر معمولی تصرفات بھی کیے ہیں ۔ فارغین علی گڑھ کی روشن کہکشاں جن ناموں سے عبارت ہے ان میں جناب مشتاق احمد یوسفی بھی شامل ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ادبی ذوق کے لیے طنز و مزاح کا راستہ منتخب کیا اور تقریبآ نصف صدی سے زائد مدت کی سرگرم تصنیفی زندگی میں اردو دنیا کو پانچ کتابیں دیں۔ یہ ساری کتابیں اپنے موضوع پر شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔

دنیائے فکر و مزاج میں یوسفی بے مثال حیثیت کے مالک ہیں مزاح اور طنز کے جتنے بھی کارگر طریقے اور اسلوب ہو سکتے ہیں وہ یوسفی کے یہاں ملتے ہیں۔ البتہ اشعار کی برمحل تحریف اور مختصر سے مختصر جملوں میں طنزومزاح کی بے مثال کیفیت پیدا کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے اسی طرح ان کے یہاں موضوعات کا تنوع بھی دیدنی ہے۔ جہاں ایک طرف دیہی زندگی کے بعض حقائق پر طنز کرتے ہیں تو وہیں ان کے یہاں شہری زندگی پر بھی طنز کے بھر پور وار موجود ہیں۔

مشتاق احمد یوسی کے انتقال کے بعد جس طرح ان کے چھوٹے چھوٹے جملوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے عام کیا گیا شاید ہی کسی ادیب یا مزاح نگار کے جملوں کی اس قدر پذیرائی کی گئی ہو۔

یوسفی کے یہاں مزاح اور طنز کا کوئی ایک اسلوب نہیں ہے بلکہ اسے ایک ہمہ جہت طرز نگارش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے ادب، سماج ، سیاست اور اپنے عہد سب کو جانچا پرکھا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں کی طرح شہروں اور بستیوں کا بھی ذکر ان کے یہاں خوب ملتا ہے۔ کراچی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
"کراچی بھی عجب دورخا، دو دھارا شہر ہے ۔ مرزا کہتے ہیں کہ جو شخص کراچی میں رہتے ہوئے کراچی کی برائی نہ کرے اس کی بینائی اور گویائی دونوں میں شبہ ہے اور
جو کراچی چھوڑنے کے بعد اسے بے طرح یاد نہ کرے اس کی معقولیت اور احسان مندی میں کلام ہے۔ لندن جانے کے بعد مجھے اپنی بینائی اور مرزا کی دانائی دونوں پر یقین آگیا ہے”

اپنے دوست ابن حسن برنی کے بارے میں ایک مضمون ‘یاد یار طرح دار’ کے عنوان سے لکھا۔ ان کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ علی گڑھ کا ذکر بھی کیا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

‘اس دن لندن میں وہ علی گڑھ یو نیورسٹی کی یونیفارم یعنی شیروانی اور تنک موری کا پاجامہ پہن کر بینک آتے تو سب کو یاد آ جاتا کہ آج جمعہ ہے۔ ہم تو ان کے علی گڑھ کٹ پاجامے سے کلینڈر کا کام لیتے تھے۔ ایک بجے تین چار دوستوں کے ہمراہ برک لین (ایسٹ لندن ) میں بنگلا دیشیوں کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جاتے تھے۔ "

شام شعر یاراں میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
"میں سوچنے لگا کہ مرزا غالب تو ڈھلتی جوانی میں کلکتے گئے اور ہائے ہائے کرتے لوٹے۔ کرنل محمد خاں کو آفریں صد آفریں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد، جب ان کا بڑھاہا شباب پر تھا طواف کوئے سیاحت و ملامت اور میموں کی زیارت کو نکلے۔ بڑی ہمت اور حوصلے والے ہیں۔ ورنہ بقول مرزا اس عمر میں بعضا بعض تو ڈھنگ سے ہائے ہائے کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا! حسینوں کے حضور حیرت سے منہ کھولے، دھر پکڑ کرتے دل اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ٹکر ٹکر دیکھتا ہو جاتا ہے !”

اس طرح کی بے شمار مثالیں ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔ غالب کے بارے میں انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے ۔ اختر شیرانی کو انھوں نے نابالغ شاعر کہا اور یہ لکھا کہ وہ اصل کی اس طور پرفرمائش کرتا ہے گویا کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہے ۔ مشتاق یوسفی کے ان چھوٹے چھوٹے جملوں سے ان کی مہارت اور اردو ادب سے گہری وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ یقیناً مزاح لکھتے تھے لیکن اس کے پس پردہ جو کرب اور دکھ ہوتا تھا اسے محسوس کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ انھوں نے مزاح کے پیرایے میں عام انسانی مزاج کی جو ہوبہو تصویر کشی کی ہے شاید اسے مزاح کے علاوہ اگر کسی دوسرے پیراے میں لکھا یا بیان کیا جاتا تو جنگ و جدال تک کی نوبت آجاتی۔

کچھ لوگ اتنے مذہبی ہوتے ہیں کہ جوتا بھی پسند کرنے کے لیے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری جانب سے مردہ تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش ہوتی ہے ۔ "

یا ان کا یہ جملہ

مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے "
یہ محض گہرے تجربے اور ذاتی مشاہدہ سے نہیں لکھا جاسکتا ۔ ہر چند کہ درج بالا سطور میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا سماج سے بہت گہرا تعلق ہے۔ لیکن مزاح اور طنز کی طبعی مناسبت کے بغیر یہ باتیں نہیں کہی جاسکتی ہیں۔
بعض چیزوں کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انھوں نے حرف آخر لکھا گیا ہو۔ اس تناظر میں ان کے مشہور مضمون چارپائی اور کلچر کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ چار پائی کے بارے میں ان کی معلومات قابل رشک ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا وہ بیانیہ جس میں انھوں نے چار پائی کے گرد پوری دنیا اور مشرقی تہذیب کو جس طرح سمیٹ لیا ہے وہ قابل داد ہے۔ اس کو پڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسا کہ اسے دیکھنے کا حق ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کا ایک مضمون ہے موسموں کا شہر انھوں نے کراچی کو موسموں کا شہر قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہو گیا ہے "

دراصل یوسفی کے یہاں فنی ارتکاز بہت زیادہ ہے۔ اور غالباً اسی سبب وہ موضوع سے ادھر ادھر نہیں جاتے ۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ تحریر ہر طرح کے نک سک سے پاک ہو تو وہی بہتر ہوگی ۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہم بہت زیادہ لکھیں کم لکھ کر بھی شہرت اور فنی سر بلندی حاصل کی جاسکتی ہے جس کی مثال مشتاق احمد یوسفی خود ہیں۔

حوالے:

شام شعر یاران مشتاق احمد یوسفی ۱۸۴۰، ایم آر پیلی کیشنز ، دہلی ۲۰۱۵

شام شعر یاران مشتاق احمد یوسی ۲۰۳۰ ، ایم آرویلی کیشنز، دہلی ۲۰۱۵

شام شعر یاران مشتاق احمد یوسفی ۲۸۴۰، ایم آر پیلی کیشنز، دہلی ۲۰۱۵

زرگزشت، مشتاق احمد یوسفی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دیلی ۲۰۱۳، ص ۱۹۵

آب گم مشتاق احمد یوسفی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دیلی ۲۰۱۶ ، بس ۵۷

ایضاً

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں