کتاب کا نام: تحریر و انشا،کوڈ : 9008،صفحہ: 128،موضوع: ڈرامے کے فنی عناصر،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ۔
موضوعات کی فہرست
ڈرامے کے فنی عناصر
ڈرامے کے فنی عناصر درج ذیل ہیں:
ادبی کی دیگر نثری اصناف داستان ناول اور افسانے کی طرح ڈرامے میں کہانی بیان کی جاتی ہے۔ تمام ڈراما کہانی کے مطابق پروان چڑھتا ہے۔
کہانی جتنی جان دار پر پیچ اور نتیجہ خیز ہوگی، ڈراما اتناہی کامیاب تصور کیا جائے گا۔ اسی لیے ڈرامے کے تمام پہلووں اور فنی امور سے آگاہی ڈراما نگار کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ڈراما نگاری و واحد شخص ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں ڈرامے کے کرداروں کی موت اور زندگی ہوتی ہے
کس موقع پر کس کردار سے کیا کہلوانا ہے؟ یہ بھی ڈراما نگار کی صوابدید ہے۔ اس لیے ایک کامیاب ڈراما بہترین کہانی کا متقاضی ہوتا ہے اور کہانی ہی ڈرامے کی بنیاد بنتی ہے۔
پلاٹ
ڈرامے کے واقعات کو ایک فطری ترتیب اور تسلسل کے ساتھ پیش کرنے کا نام پلاٹ ہے ۔ پلاٹ ڈرامے کی بنیاد ہے۔ یہ جتنا سیدھا سادہ ہو گا، اس میں اتنی ہی غیر ضروری پیچیدگی اور الجھن کم سے کم ہو گی۔
پلاٹ کا سب سے اہم جز و واقعات ہوتے ہیں، اس لیے ایسے واقعات کا انتخاب کرنا چاہیے جو آسانی کے ساتھ صلح پر پیش کیے جاسکیں۔
عبدی پور میں ڈرامے کے بڑے ذرائع ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا ہیں، اس لیے وقت کی کوئی قید نہیں رہی اور ان چھینٹوں پر سیکڑوں اقساط کے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ۔ وقت کا خیال صرف مسٹیج ڈرامے کے لیے ضروری رہ گیا ہے۔
واقعات کی تربیت کے لحاظ سے ڈرامے کا پلاٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے:
سب سے پہلا حصہ ڈرامے کا نقطہ آغاز ہے۔ ڈرامے کا آغاز اتنا زور دار اور پر کشش ہونا چاہیے کہ تماشائی گے کیا ہو گا؟“ سے تجسس میں مبتلا ہو جائیں۔
دوسرا حصہ مسلسل ہے۔ ڈرامے کے واقعات میں تسلسل سے مراد ایسا رابطہ ہے کہ ایک کے بعد ایک واقعہ آپس میں زنجیر کی کڑیوں کی طرح مکمل طور پر جڑا ہوا ہو۔ واقعات کا یہ ربط اور تسلسل ناظرین کو ڈراما دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تیسرا مرحله کشمکش کا آتا ہے۔ واقعات کی پیشکش کے دوران میں کچھ ایسے غیر متوقع حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ ڈرامے میں ناظرین کی توجہ اور دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔
انھی غیر متوقع حالات کو کشمکش کا نام دیا جاتا ہے۔ چوتھا مرحلہ نقطۂ عروج کا ہے۔ ڈرامے کے واقعات جب مکمل طور پر تصادم کی صورت حال تک پہنچ جائیں تو اس مرحلے کو نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔ یہ ڈرامے کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی حصے میں کہانی اپنا فیصلہ کن موڑ اختیار کرتی ہے۔
ڈرامے کے پلاٹ میں واقعات کی ترتیب کے اعتبار سے آخری حصہ انجام کہلاتا ہے۔ جب ڈراما کانکس یعنی نقطہ عروج کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے اور ناظرین فیصلہ کن موڑ کے منتظر ہوتے ہیں تو ڈراما نگار ا سے انجام سے ہم کنار کردیتا ہے۔
کردار نگاری
کرداروں کے بغیر ڈرامے کا تصور ناممکن ہے۔ کردار ڈرامے کا بنیادی جزو ہوتے ہیں۔ کرداروں کی حرکات و سکنات اور گفتگو کا نام ہی ڈراما ہے۔ کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات جتنی زندگی کے قریب ہوں گی ڈراما اتناہی کامیاب سمجھا جائے گا۔
ڈراما نگار ڈرامے کا خالق ہوتا ہے، ہر کردار کی زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جس طرحکے کردار چاہتا ہے تخلیق کر سکتا ہے ۔ اس لیے ایک اچھا ڈراما نگار کردارنگاری پر اور ہدایت کار سکرپٹ کے مطابق کردار کی
تلاش پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے ۔
اگر بادشاہ کا کردار ادا کرنے والا کردار اپنی وضع قطع سے یا دشاہ دکھائی نہ دے تو وہ ڈرامے کے لیے مناسب نہیں ہوتا ، اسی طرح ایک عالم فاضل کے کردار کے لیے وہی شخص بہتر ہوگا، جو اسی طرح کا دکھائی دے۔ ایک اچھا ؤ راما، عمدہ کردار نگاری کے ذریعے ہی کامیاب ہوتا ہے۔
مکالمہ نگاری
ڈراما نگاری میں مکالمات ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ڈراما نگار کرداروں کی تخلیق کے بعد سب سے زیادہ زور اور قوت مکالمات پر صرف کرتا ہے۔ ڈرامے کے مکالمے جتنے جان وار اور حقیقی زندگی سے قریب ہوں گے، ڈراما اتناہی پسند کیا جائے گا۔ ہر کردار کی سماجی حیثیت اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق مکالمے لکھنے چاہئیں۔
پست سماجی اور دینی سطح والے کردار سے عالمانہ مکالموں کی ادائی نہیں کروانی چاہیے ۔ اس طرح ڈرامے میں بادشاہ، وزیر یا بلند رتبہ کردار سے عامیانہ مکالمے نہ کہلوائے جائیں۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک اس کے مکالمات پر ہوتا ہے۔
لہذا ڈراما نگار کو چاہیے کہ ہر کردار کی سماجی، تہذہ ہیں، معاشی اور ذہنی سطح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مکالمہ نگاری کا اہتمام کرے۔
منظر نگاری
منتظر نگاری بھی ڈرامے کا ایک اہم جز ہے۔ ایک کامیاب ڈراما نگار سکرپٹ لکھتے وقت واقعہ نگاری سے پہلے مناظر لکھنے کا پابند ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قدرتی مناظر دریا، سمندر، پہاڑ ، جنگل ، آسمان، بادل، سورج ، چاند ، ستارے، اندھیرا، بارش، طوفان وغیرہ ڈرامے میں ناظرین کی توجہ اور پیچیپی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ آج کل ما نظرین ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ڈرامے دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں،
اس طرح ڈراما ہر خاص و عام کی پہنچ میں ہے اور سلیج ڈرامے کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے۔ اس لیے ہمیں ڈرامے کے فنی عناصر بیان کرتے ہوئے جدید ترین ٹیکنا لوجی اور اس کی ضروریات کو مد نظر رکھنا چاہیے
ڈرامے کے پرانے دقیانوسی تصورات و نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کو ٹوظ خاطر رکھ کر نیا معیار اپنانا ہو گا۔ اب منظر نگاری ڈرامے کا جز ولا ٹینک ہے۔
جن ڈراموں میں منظر نگاری کا اہتمام نہیں کیا جاتا میا اس طرف واجبی سی توجہ دی جاتی ہے، وہ نا کامی سے دو چار ہوتے ہیں۔
موسیقی
اردو ڈرامے کا آغاز ہی موسیقی سے ہوا ، ڈرامے کے ابتدائی زمانے میں ناچ گانا اس کے بنیادی حصے تھے ۔ ہندو مت کی عبادات میں ناچ گانے کا وقتل ہونے کی وجہ سے جب یہی ناچ گانا ڈرامے کی بنیا دیتے تو حجت سے مقامی افراد اس میں دلچسپی لینے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈراما نچلے طبقے تک پہنچ گیا۔
جدید دور میں بھی ڈرامے میں موسیقی کو اس کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ ڈرامے کا آغاز ہی موسیقی کی دھنوں اور گلوکاروں کی سریلی آوازوں سے ہوتا ہے۔
یہی موسیقی ڈرامے کے مکالمات کے پس منظر میں بار با رسنائی دیتی رہتی ہے ۔ جدید ترین ڈرامے میں مد و جزر پیدا کرنے کے لیے بھی موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے۔