مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری: جب الفاظ نے تصویریں بنانا سیکھا

اردو خاکہ نگاری کی روایت جب بھی مرتب کی جائے گی، اس میں فرحت اللہ بیگ، مولوی عبدالحق، سعادت حسن منٹو اور شوکت تھانوی جیسے بڑے ناموں کے ساتھ ایک نام پوری آب و تاب سے چمکے گا، اور وہ نام ہے رشید احمد صدیقی کا۔

انہوں نے نہ صرف اس صنفِ ادب(خاکہ نگاری ) کو اپنی مستقل توجہ کا مرکز بنایا بلکہ اپنے منفرد اسلوب سے اردو کی تخلیقی نثر کو ایسے یادگار خاکے عطا کیے جو آج بھی زندہ ہیں۔

آئیے رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے فن کی گہرائی کو سمجھتے ہیں۔

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کا منفرد اسلوب

رشید احمد صدیقی کے بیشتر خاکے مشہور شخصیات کے بارے میں ہیں، جو اکثر ان کی وفات کے بعد لکھے گئے یا ریڈیو پر پڑھے گئے۔ ایسے میں یہ خطرہ موجود تھا کہ یہ خاکے محض رسمی اور تعریفی بن کر رہ جائیں گے۔

لیکن رشید صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ محبت، عقیدت اور احترام کے اظہار کے ساتھ ساتھ، بین السطور ان شخصیات کی کمزوریوں کا ذکر بھی اس ہنر مندی سے کر جاتے تھے کہ تحریر کی جان بن جاتا تھا۔

ان کا اندازِ بیان ایسا تھا کہ "گنج ہائے گراں مایہ” اور "ہم نفسانِ رفتہ” کے بیشتر خاکے محض تحریر نہیں رہتے، بلکہ جیتے جاگتے کرداروں کی تصویر بن جاتے ہیں۔

الفاظ کے مصور: چند لازوال مثالیں

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کی اصل طاقت ان کے الفاظ کے انتخاب اور تشبیہات میں پوشیدہ ہے:

  • مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں: ”بولتے تو معلوم ہوتا تھا ابوالہول کی آواز اہرامِ مصر سے ٹکرا رہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کرب کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج محل کا نقشہ مرتب ہو رہا ہے۔“
  • پطرس بخاری کے بارے میں: ”اتنا محسوس اکثر کیا کہ اس حلقے کے افراد جتنے بخاری کے شیدائی تھے، بخاری ان کے نہ تھے۔۔۔ بخاری بڑے بت شکن تھے، جینیس کا تقاضا بھی یہی ہے، لیکن جہاں وہ خداؤں میں مسلمانوں کے خدا کے قائل تھے وہاں بتوں میں صرف اپنے بت کے۔“
  • سید سلیمان ندوی کے بارے میں: ”آواز میں اتار چڑھاؤ نہ ہوتا، چہرے پر جذبات کی دھوپ چھاؤں نہ طاری ہونے دیتے، ہاتھ پاؤں نہ ہلاتے بھٹکاتے… باتیں بڑی واضح کہتے، الفاظ و عبارت کی دھوم دھام نہ ہوتی۔“
  • ڈاکٹر ذاکر حسین کے بارے میں:
    ”وہ ہر منصب پر فائز ہونے سے پہلے اس پر فائز ہو چکے تھے یعنی اس عہدے کے لئے جیسے اخلاقی، علمی اور تہذیبی اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے، اسے مدتوں کے ریاض سے اپنا چکے ہوتے تھے۔“

عام آدمیوں کے شاہکار خاکے: کندن کا کردار

جس طرح مولوی عبدالحق کے ہاں "نام دیو مالی” کا خاکہ ایک عام آدمی کا لازوال کردار ہے، اسی طرح رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مشاہیر کے ساتھ ساتھ "ایوب” اور "کندن” جیسے عام آدمیوں کے ایسے خاکے لکھے جو زیادہ مؤثر اور کامیاب ثابت ہوئے۔

کندن، جو کالج کا گھنٹہ بجاتا تھا، اس کا خاکہ اردو ادب کا شاہکار ہے۔ ایک طویل اقتباس دیکھئے:

کندن مر گیا اور گھنٹے بجتے رہے۔
کندن کالج کا گھنٹہ بجاتا تھا۔ معلوم نہیں کب سے، کم و بیش میں پینتیس سال سے۔ اتنے دنوں سے اتنی پابندی کہ اس طرف خیال جانا بھی بند ہو گیا کہ وہ مر جائے گا یا گھنٹہ بجانے سے باز آجائے گا… یونیورسٹی سے رخصت ہوا تو اسے گھنٹہ بجاتے چھوڑا… کئی دن بعد کسی نے بتایا کندن مر گیا، ایک دھوکا سا لگا، اسے کندن مر گیا۔ اتنے دنوں سے گھنٹوں کی آواز آتی رہی اور حسب معمول یہی سمجھتا رہا کہ کندن بجا رہا ہے۔ بتائے بغیر کیوں نہ معلوم ہو گیا کہ کندن مر گیا…

یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ رشید صاحب کس طرح ایک عام واقعے میں گہری فلسفیانہ اور انسانی حسیت پیدا کر دیتے تھے۔

رشید شناسی: دیگر ادیبوں کی نظر میں

رشید احمد صدیقی کے فن کو دیگر بڑے ادیبوں نے بھی سراہا ہے، جو ان کے مقام کا تعین کرتا ہے:

  • عبدالماجد دریابادی نے کہا تھا: ”رشیدیات سے لطف اٹھانے کے لئے خود بھی اچھا خاصا پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔“
  • سلیمان اطہر جاوید نے لکھا: ”رشید احمد صدیقی اپنے وقت کے الفاظ کے بہت بڑے پارکھ تھے… ان جیسے الفاظ کے پارکھ اور مزاج دان اردو ہی نہیں کسی اور زبان میں بھی کم ہی ہیں۔“
  • لطیف الزماں خان کے مطابق: ”انہیں افراد کے دل و دماغ سے کدورت دور کرنے کا فن آتا تھا۔“

بلاشبہ، رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری اردو نثر کا وہ سرمایہ ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔


SEO پیرامیٹرز

رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری کا فنی مطالعہ

اسالیب نثر اردو 2 | pdf

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں