اردو میں مکتوب نگاری کا فن تحریر از ڈاکٹر شاداب تبسّم
مکتوب نگاری کا فن
موضوعات کی فہرست
مکتوب نگاری کا فن پس منظر
اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں صرف انسان کو ہی یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔
اس لئے اسے حیوان ناطق کہتے ہیں۔ اس کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ زبان ہے اور چونکہ ہر علاقے کا وسیلہ اظہار الگ ہوتا ہے اس لئے دنیا میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔
زبانی اظہار کے علاوہ انسان کچھ علامتوں کے ذریعہ بھی اپنے خیالات دوسروں پر ظاہر کرتا ہے۔ اور دوسرے انہیں دیکھ کر یہ جان لیتے ہیں کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ زبان کی تحریری شکل ہے۔
مختلف زبانوں میں لفظوں کی سیکڑوں آوازوں کی طرح دنیا میں تحریر کی بھی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں۔
تحریر کی مختلف شکلوں کے علاوہ تحریر کی کئی قسمیں بھی ہیں۔
دو اشخاص کے درمیان باہمی گفتگو ایک سماجی ضرورت ہے ۔
اور جب یہ عمل رو برو ممکن نہ ہو تو ہم اپنے خیالات کا اظہار تحریر کے ذریعے یعنی لکھ کر کرتے ہیں۔ یہ تحریر خط کہلاتی ہے۔ خط نگاری تحریری شکل میں باتیں کرتا ہے۔
اس لئے خط کو عرف عام میں آدھی ملاقات بھی کہا جاتا ہے۔
خط میں مکتوب نگار ( خط لکھنے والا ) اپنے خیالات و جذبات کو قلم بند کر کے مکتوب الیہ (جسے خط لکھا گیا ہو ) کو بھیجتا ہے۔
اردو ادب میں مکتوب نگاری کا فن
ادب میں خط نگاری با قاعدہ ایک صنف ہے۔ جس کے حدود قواعد مقرر ہیں جس کی اپنی ایک الگ پہچان ہے۔
احساسات، جذبات اور خیالات کو قلم کی مدد سے کاغذ پر اتارنے اور انہیں دوسروں تک پہچانے کا عمل خط نگاری کہلایا۔
اس عمل میں پیغام رسانی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
محض ذاتی تسکین کے لئے وقت گزاری کی خاطر کچھ لکھنا اور اسے اپنے پاس ہی رکھ لینا خط نگاری نہیں ہے۔
خط نگاری دراصل ترسیل خیالات و اظہار کا بہترین وسیلہ ہے۔ خط نگاری نثر نگاری کی ایک مستعمل صنف ہے۔ اسے ادب لطیف کا ایک حصہ بھی کہتے ہیں ۔
خطوط نہ صرف کاتب و مکتوب الیہ کے راز ہائے دروں کو اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں بلکہ خطوط کے ذریعہ شخصیت و کردار کی مکمل عکاسی ہوتی ہے۔
قول و عمل کی نشاندہی خطوط ہی کرتے ہیں۔ خط نگاری کو باضابطہ ادبی صنف کا درجہ دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق اختلافات ہیں۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ کی رائے ہے کہ:
"خط نگاری تو بذات خود ایک بڑا فن ہے اور اس میں کامیاب وہی شخص ہو سکتا ہے جو قدرت کی طرف سے اس فن کا فیضان لے کر آیا ہو۔”
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خط نگاری کو صنف ادب بنانے کا کام فن شیشہ گری سے کم نہیں ہے۔
جو ایک آئینہ ساز کو تمام زندگی محنت کے بعد بھی مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔
ایک فنکار ایک ہی وقت میں نقاد، افسانہ نگار شاعر ڈرامہ نگار ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک اچھا مکتوب نگار بھی ہو۔
غلام امام شہید اور غلام غوث بے خبر سے لے کر اب تک بہت کم مکتوب نگار ایسے ہیں جن کے خطوط کو ادبی حیثیت حاصل ہے۔
مکتوب نگاری کو ادبی صنف کا درجہ دینے کے لئے اس کے اصول و ضوابط کا تعین کرتا ہوگا۔
کیونکہ ادب زندگی کے دل نشین اظہار کا نام ہے۔ اس لئے زندگی کے تمام معاملات و مسائل ادب کے زمرے میں آجاتے ہیں۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ ان میں جذبات، احساسات، مشاہدات و تجربات اور خیالات کی رنگینی اس نوعیت کی ہونی چاہئیے کہ وہ جمالیاتی تسکین کا سبب بن سکے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کا لکھا ہوا خط اہم ہو اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہر عظیم مکتوب نگار کے خطوط ایک ہی درجے کے ہوں یہی وجہ ہے کہ بہت کم مکتوب نگار ایسے ہیں
جن کے خطوط کو ادب میں جگہ حاصل ہو پائی ہے۔
خط دو قسم کے ہوتے ہیں ایک نجی یا ذاتی دوسرے کاروباری یا دفتری خط ۔
خط لکھنا آسان ضرور ہے لیکن جو سرکاری دفتری یا کاروباری خطوط ہوتے ہیں ان کا ڈھانچہ متعین ہوتا ہے۔
اس طرح کے خطوط آزادی کے ساتھ نہیں لکھے جاسکتے یعنی مخصوص القاب و آداب ابتدائیہ اور مطلب و متن کے لئے مخصوص مروجہ الفاظ اور انداز بیان کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں اور مقصد کو جامع اور مختصر جملوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔
مکتوب نگاری کا فن ایک نظر میں
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خط نگاری کے کوئی مقررہ اصول وضوابط نہیں ہیں ۔
نہ کوئی خاص موضوع اور نہ ہی کوئی ہیئت متعین کی جاسکتی ہے۔
بلکہ شخصیتوں کے رجحانات مزاج معیار و میلان کے مطابق ان کی خصوصیات و ہیئت میں برابر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔
جو خط کے اسلوب پر اپنے اثرات مرتب کراتے رہتے ہیں۔
اس طرح مکتوبات اپنی مختلف بیئتوں اور گونا گوں صورتوں میں ایک صنف ادب کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ماخذ و حوالہ جات
کتاب کا نام: اردو میں مکتوب نگاری
مصنفہ : شاداب تبسم
صفحہ نمبر: 19 تا 26
مکتوب نگاری کا فن اور اس کی روایت pdf
ماخذ پی ڈی ایف : پی ایچ ڈی مقالہ Urdu mein adbi maktoob nigari ka tajziyati tanqeedi mutala