محمد طفیل کی خاکہ نگاری تحریر از ڈاکٹر صائمہ نزیر، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد
محمد طفیل اور اردو میں خاکہ نگاری
موضوعات کی فہرست
خاکہ نگاری کا ارتقائی دور
اردو کے غیر افسانوی نثری ادب میں خاکہ نگاری سوانحی اصناف میں منفرد مقام رکھتی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد اردو رسائل کا ایک نیا دور شروع ہوا اور نئے مضامین اور موضوعات کی طرف ادیبوں کے قلم چلنے لگے تو جہاں افسانوی نثر میں تبدیلی آئی اور سوانحی ادب میں بوریت اور طوالت کو کم کرنے کی طرف ایک رجحان شروع ہوا۔
اسی دور میں اردو کی نئی اصناف نے ظہور پایا۔ رسائل و جرائد نے اپنی ضرورت کے تحت ان مختصر اصناف ادب کو فروغ دیا۔
یہی دور خاکہ نگاری کا ارتقائی دور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ﻣﺤﻤﺪ ﻃﻔﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﮮ ﺣﻤﯿد ﮐﯽ ﺧﺎﮐﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﺗﻘابلی جائزہ pdf
نقوش اور محمد طفیل کا کردار
اردو کے ادبی رسائل و جراید میں ایک منفرد اور معروف نام "نقوش” کا ہے۔ دیگر ادبی اصناف کے ساتھ ساتھ اردو میں "نقوش” کا نام خاکہ و شخصیت نگاری کے فروغ میں بھی نمایاں ہے۔
"نقوش” کے مدیر کے ساتھ محمد طفیل نے جس صنف ادب میں طبع آزمائی کی وہ خاکہ نگاری ہے۔
انھوں نے اس دور میں صنف خاکہ نگاری کا انتخاب کر کے فنی اصولوں کے مطابق برتا جب ادبیوں کی بہت کم تعداد اس طرف توجہ دے رہی تھی۔
خاکہ نگاری کی خصوصیات
شخصیت نگاری
خاکہ نگاری میں شخصیت کی خدوخال، مجلسی زندگی، کردار اور عادات و اطوار کو خاکہ نگار ایسے پیش کرتا ہے کہ اس فرد کی ایک مکمل اور متحرک تصویر قاری پر منکشف ہوتی ہے۔
مذکورہ اوصاف کا اظہار تبھی ممکن ہے، جب خاکہ نگار شخصیت سے گہرے مراسم اور تعلقات رکھتا ہو۔ سطحی تعلقات کی بنیاد پر شخصیت کا بہتر اظہار خاکے میں ممکن نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: محمد طفیل کی خاکہ نگاری چند مضامین pdf
معروضیت اور اختصار
خاکہ نگار کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ کرتا ہے اور پھر خاکے کے فنی تقاضوں کے مطابق اسے اظہار کی صورت عطا کرتا ہے۔ خاکہ نگار کی قوت مشاہدہ تیز ہوتی ہے۔ خاکہ نگار فہم و ادراک رکھتا ہے۔
خاکہ نگاری میں شخصیت کے اہم اور منفرد پہلوؤں کا ہی اظہار ممکن ہے کیوں کہ خاکہ نگاری کا اہم عنصر اختصار ہے۔ خاکہ نگار واقعات اور مکالمات کے انبار میں سے ایسے واقعات اور مکالمات کو منتخب کرتا ہے جس سے شخصیت کی تصویر کم سے کم اظہار میں ہمارے سامنے آجائے۔
فنی تقاضے
خاکہ نگاری میں شخصیت کا اجمال بیان ہوتا ہے، ایسا اجمال جو کل پر دلالت کرتا ہے۔ خاکے کے فنی لوازم میں یہ بھی شامل ہے کہ خاکے میں مزاح اور نکتہ آفرینی ہو۔ فرد کی شخصیت کا مجموعی تاثر اس کے خاکے سے بھی ابھرتا ہے۔
جیسے سنجیدہ شخصیت کا خاکہ بھی سنجیدہ ہوگا، البتہ خاکے کے فن کا تقاضا ہے کہ اس میں شگفتگی، دلچسپی اور تسلسل بھی موجود ہو۔
ابو الٰہ مجاز حفیظ صدیقی کے مطابق:
"خاکے کو دلچسپ بنانے کے لیے ہلکا مزاحیہ رنگ بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔” (1)
محمد طفیل نے طنز کو حکمت میں سمو کر پیش کیا ہے۔ جس طرح حکیم کڑوی دوا کو شہد یا شکر میں ملا کر اسے خوش ذائقتہ بنا دیتے ہیں، محمد طفیل نے ایک ادیب کی حیثیت سے معاشرے کی وہی خدمت انجام دی ہے۔
وہ تلخ رویوں، بد مزہ کر دینے والی عادتوں، ناقابل قبول کمزوریوں کو ایسے میلے طنز میں پیش کرتے ہیں کہ مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور بدمزگی بھی پیدا نہیں ہوتی۔
محمد طفیل کا اسلوب نگارش
انھوں نے اپنے اسلوب نگارش کے متعلق خود ہی لکھا ہے:
"خاکہ نگاری کو حقیقت نگاری سے آنکھیں نہیں چرانا چائیں لیکن اس کے پاس ایسا حکمت آمیز قلم ہونا چاہیے کہ وہ کہے سب کچھ، مگر اس ڈھب سے کہ ہر قدم پر سجھا سجھا کے انجان بنتا چلا جائے۔” (۲)
محمد طفیل کے خاکوں کا بنیادی وصف معروضیت ہے۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کو حقیقی رنگ میں پیش کرتا ہے اور یہی وصف محمد طفیل کے خاکوں میں موجود ہے۔
گویا خاکہ نگاری کو احوال، واقعہ یا مشاہدے کا بیان سمجھتے ہیں اور بیان میں خود اپنی شخصیت کا بے جا دخل بھی انھیں پسند نہیں۔ ان کی تحریر مبالغہ، قصیدہ گوئی، ہجو اور بے جا منظر نگاری سے پاک معلوم ہوتی ہے اور یوں وہ ادب کے اعلیٰ معیار پر دکھائی دیتی ہے۔
محتاط طرز نگارش
محتاط طرز نگارش کے باعث یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ محمد طفیل کے خاکوں میں دلچسپی اور دلکشی کی بجائے سنجیدگی غالب ہو گی اور معروضیت کی وجہ سے تحریر بوجھل ہو گی، جس وجہ سے ایک عام قاری کو محمد طفیل کی خاکہ نگاری میں وہ لطف اور چاشنی محسوس نہیں ہو سکے گی جو خاکہ نگاری کی صنف کا خاصہ ہے۔
لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد طفیل کا اسلوب نہایت لطیف اور موقع محل کے عین مطابق ہے۔
ان کے ظریفانہ جملوں میں پوشیدہ مٹھاس اور گہرا طنز بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے طنزیہ فقرے بسا اوقات دو تین الفاظ پر ہی مشتمل ہوتے ہیں لیکن وہ کسی ایسے موقعے پر برجستگی اور سادگی سے ادا کیے جاتے ہیں کہ موقع و محل اور مقام کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ بات کہہ بھی دیتے ہیں اور بات بگڑتی بھی نہیں۔
خاکہ نگاری کا منفرد اسلوب
خاکہ نگاری کی مخصوص اسلوب کے باعث دیگر اصناف سے ممتاز ہے۔ محمد طفیل کے اسلوب میں طنز کی آمیزش، اظہار مافی الضمیر کے تقاضوں، بیان احوال کی مجبوری کے باعث محسوس ہوتی ہے۔
ان کے یہاں طنز کا استعمال فن کے اظہار سے زیادہ دل کے درد کا تر جمان محسوس ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ان کے جملوں میں پوشیدہ طنز قاری کے چہرے پر مسکراہٹ کا سامان پیدا کرتا ہے تو ایک دبی دبی کسک بھی اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔
محمد طفیل طنز کو شعوری طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ طنزیہ پیرائے میں کوئی پیغام دیتے ہیں۔ وہ واقعے کے کسی خاص موڑ پر ایسا جملہ کہتے ہیں کہ جو مخصوص طنزیہ انداز کی بنا پر ان کی مراد واضح کر دیتا ہے لیکن ان کے لہجے میں کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔
الٹا یہ جملہ ایک قسم کے نشتر کا کام کر دیتا ہے، ایسا نشتر جو فرد یا معاشرے کی رگوں سے فاسد خون نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
محمد طفیل نے بعض سماجی رویوں پر ہلکا پھلکا طنز کر کے قاری کو ان سے بچنے کا پیغام بھی دیتے ہیں لیکن انھوں نے خود کو بطور واعظ پیش نہیں کیا۔ سماجی ناانصافیوں، معاشرتی رویوں، دوستوں کی بے اعتنائیوں اور زندگی کی ناہمواریوں کا اظہار وہ اس خوبی سے کرتے ہیں کہ قاری مایوس ہونے کی بجائے انھیں زندگی کا لازمی حصہ جان کر بےاختیار مسکرانے لگتا ہے۔
سیاست اور طنز
سیاست پر محمد طفیل کا طنزیہ اسلوب ملاحظہ فرمائیے:
"اس دنیا میں ہمارے لیے قدم قدم پر غم کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ کوئی آدمی بھی تو مطمئن نہیں۔
بڑوں کو قوم کا غم کھا رہا ہے اور چھوٹوں کو اپنا غم۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے قوم ہی کو کھا رہے ہیں لیکن میں یہ بات سنی ان سنی کر دیتا ہوں۔” (۳)
سیاست گو کہ محمد طفیل کا موضوع نہیں لیکن سماجی عمل کی بنا پر ایک ادیب سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق بھی نہیں رہ سکتا۔
اب اسے بد قسمتی ہی شمار کرنا چاہیے کہ مادر وطن کی سیاست ایک ادیب کے لیے کوئی خوشگوار تجربہ نہیں رہی۔ ادبیوں اور شاعروں کو سیاست اور اہل سیاست سے شکوہ ہی رہا۔
محمد طفیل اپنے خاکوں میں ایک ایسا فرضی خط بھی درج کرتے ہیں۔ منٹو کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں جہاں وہ منٹو کا طرز سامنے لاتے ہیں، وہیں ایک مقام پر سیاست پر گہرا طنز بھی کرتے ہیں۔ ان جملوں میں آج کی سیاست کا عکس بھی ملتا ہے۔
ان کے یہ الفاظ آج کی صورت حال پر بھی کہے جاسکتے ہیں، جبکہ انھیں لکھے ہوئے نصف صدی بیت چکی ہے۔
"تمھارے ہاں کے ادیب اور تمھارے پڑوسی ملک کے ادیب اپنے اپنے ناخداؤں سے جو بڑی خوشگوار قسم کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں
وہ سراسر حماقت ہے۔ ان خوشگوار قسم کی امیدوں کے پیٹ میں تو صرف بہن خوش فہمی لمبی تانے سورہی ہے۔
تمہارے ہاں سیاست تو کوئی بڑی دھڑن تختہ قسم کی ہے۔ آج کوئی وزیر ہے تو کل جیل میں ہے۔
اگر کوئی چند دن پہلے جیل میں تھا اور ساتھ ہی غدار وطن بھی، تو آنا فانا وزیر ہو جاتا ہے۔
یہاں پر میرے احباب جب تمھارے ہاں کی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو یقین جاننا، میں مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔” (۳)
مزاح اور طنز
مزاحیہ تحریر صرف حماقت کے بیان کا نام نہیں بلکہ مزاح زندگی کی ایک حقیقت کا نام ہے اور مزاحیہ تحریر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے۔
مزاح کا کمال یہ ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کو بغیر کسی جھنجلاہٹ کے قبول کرتا ہے بلکہ ان پر قہقہہ بھی لگا سکے۔
محمد طفیل گو خود نہ اہل سیاست میں شمار کیے جاتے تھے اور نہ ہی وہ معروف معنوں میں مذہبی شخصیت تھے لیکن ایک ادیب کی حیثیت سے سیاسی رویوں کے علاوہ محمد طفیل نے دین و مذہب کے حوالے سے بعض معاشرتی رویوں پر بھی بڑے لطیف انداز سے چوٹ کی ہے۔
وہ موقعے کی نزاکت کے حوالے سے لفظ کے انتخاب کی خاص رعایت رکھتے ہیں اور عام اور سادہ انداز میں گہری بات لکھنے کے فن کے ماہر ہیں۔
"چنانچہ تینوں نمازی کڑکتی دھوپ میں اللہ کا نام لے کر نکل پڑے۔ شوکت صاحب کو نماز سے زیادہ ایک اور ضروری کام تھا اس لیے وہ معذور تھے۔” (2)
مندرہ بالا جملے میں لفظ "معذور” سے پر لطف معنویت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ "نماز سے معذور ہونا” ایک شرعی اصطلاح بھی ہے اور معذور کا لفظ عام بول چال میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
نماز سے زیادہ ایک ضروری کام کے بعد معذور کے استعمال نے جملے میں دونوں معنی پیدا کر دیے۔ سمجھنے والا قاری دونوں معانی کا ادراک کر کے نماز کے حوالے سے معاشرے کے عمومی رویے پر کیے جانے والے طنز کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
محمد طفیل نے سماج میں پائے جانے والے کئی رویوں پر گہری چوٹ بھی کی ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کا طنز خنجر کی کاٹ کی بجائے زخم پر مرہم رکھنے کی خاصیت رکھتا ہے۔
وہ انسانی کمزوریوں سے نفرت کی بجائے انھیں قبول کرنے کا گر سکھاتے ہیں اور فن اور اہل فن کو تعصب سے دور رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔
"میں یہاں اس بحث میں نہ پڑوں گا کہ اچھے شعر کہنے کے لیے اچھا انسان بنے۔
ویسے اچھا انسان بننا کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ میں نے کئی اچھے آدمیوں کو دیکھا ہے کہ وہ اچھا شعر نہیں کہہ پاتے۔
برخلاف اس کے واجبی قسم کے برے انسانوں کو اچھا شعر کہتے سنتا ہے۔
میں اس بحث کو یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ میرے ہی کئی دوست مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔” (1)
مذکورہ پیرا گراف کی آخری سطر میں معاشرے کی عمومی رویے کی طرح شاعروں اور ادبیوں میں پائی جانے والی عدم برداشت اور تنگ نظری کی جانب محمد طفیل نے لطیف انداز میں چوٹ کی ہے لیکن کسی مبالغے کی بجائے اظہار واقعیت کا اسلوب اختیار کر کے ایک طنزیہ رمز میں اپنا شکوہ ظاہر کر دیا ہے۔
محمد طفیل ادب اور اہل ادب کے قدردان تھے۔ ان کی تمام زندگی ادب کی خدمت میں بسر ہوئی۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کے مزاج سے آشنا تھے۔
انھوں نے اہل فن کو بشری کمزوریوں سمیت قبول کرنے اور انسانی احترام کا درس دیا ہے۔ اہل ادب کی قدر دانی کے باوجود بسا اوقات انھوں نے ادیبوں اور شاعروں کے بعض رویوں پر گہری لیکن میٹھی اور کسی کسی مقام پر تیکھی تنقید بھی کی ہے اور کھل کر طنز بھی کیا ہے۔
تحریر ملاحظہ ہو:
"نئے لکھنے والوں نے یہ ضروری سمجھ لیا ہے کہ صاحب کردار ہونا اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا، ادب کی موت کے مترادف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تقریباً سارے لکھنے والے اپنے آپ کو عام لوگوں سے کچھ الگ سا بنا لیتے ہیں۔ میں نے انھیں بے قاعدگی۔۔۔”
محمد طفیل کی خاکہ نگاری طنز مزاح عناصر آرٹیکل pdf