فردوس بریں کا فنی اور فکری جائزہ
موضوعات کی فہرست
بقول سید وقار عظیم:
"فردوس بریں کے قصے کا موضوع فرقہ باطنیہ کا و طوفان بلا خیز ہے جو پانچویں صدی ہجری میں دنیائے اسلام کے لیے ایک فتہ بن کر آیا اور شباب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اسی طرح ختم ہوا ۔”
ناول فردوس بریں کا فنی جائزہ
پلاٹ
مختلف واقعات کو منطقی ربط کے ساتھ جوڑنے کا نام پاٹ ہے۔ فردوس بریں کا پلاٹ چست اور منظم ہے جو اپنے نظریاتی ارتقاء کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔
کردار نگاری
ناول کے کرداروں کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں اس میں مرکزی کردار صرف حسین اور زمرد کا نظر آتا ہے۔ تمام کہانی انہی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔
لیکن دوسرے ضمنی کرداروں میں شیخ علی وجودی کا کردار اردو ادب کا شاہکار کردار ہے اس کے علاوہ ضمنی کرداروں میں موسی، بلغان خاتون کاظم جنوبی اور طور منی وغیرہ کے توسط سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔
مرکزی کرداروں کا جائزہ:
حسین کا کردار
حسین ناول کا ہیرو ہے۔ اس کردار کا پہلا تاثر یہ ہے کہ خوبصورت ہے اور محبت کا دلدادہ ہے۔ مذہب کا شیدائی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حسین ایک بزدل کردار بھی ہے کیونکہ موسیٰ کی قبر پر جاتے وقت مرد ہونے کے باوجود زمرد کے مقابلے میں وہ نہایت خوف
محسوس کرتا ہے پر یوں کے دیکھتے ہی ڈر کے مارے بے ہوش ہو جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ آزاد اور خودمختار بھی نہیں ۔ کیونکہ وہ اپنی سادہ لوئی اور زمرد کی محبت میں اندھا ہو کر شیخ علی وجودی کے ہاتھوں بالکل بے جان آلہ بن جاتا ہے۔
اس کے اشاروں پر اپنے پیرو
مرشد کا امام الدین نیشا پور اور مام نصر بن احمد جیسے مسلمانوں کے خدا ترس علماء کا وتل کر ڈالتا ہے۔
یہ کام دلیرانہ اور حیرت انگیز ہے لیکن دوسروں کے ہاتھو کھلواڑ کا شکار رہتا ہے۔
زمرد کی قبر کے ساتھ چھ ماہ تک زندہ رہنا بھی اس کردار کی بہادری کو ظاہر کرتا ہے۔
بہر کیف حسین کا کردار خوبیوں اور خامیوں کی آمیزش سے تیار شدہ ہے۔
زمرد کا کردار
زمرد کے کردار میں دلکشی نظر آتی ہے وہ با ہمت اور دماغ میں استقلال رکھتی ہے۔
اپنی عصمت و عفت کو بچانے کے لیے وہ بڑی تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ حسین جب اسے اپنے بھائی کی قبر پر آنے سے ڈراتا ہے تو وہ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔یہ اس کے بہادری کا پہلا ثبوت ہے۔
پھر وہ جس طرح سے ایک مکمل پلان کے تحت فردوس بریں کا راز فاش کرتی ہے وہ اس کی دوائی استقبال کی نشانی ہے۔
آلہ کار زمرد بھی بنتی ہے لیکن یہ سب حسین کی زندگی کے لیے کرتی ہے۔ یہ کردار شرر کے کامیاب نسوانی کرداروں میں سے ایک ہے۔
شیخ علی وجودی کا کردار
شرر کے بعض کردار ایسے ہیں جو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ان میں ایک کردار شیخ علی وجودی کا ہے۔
جو بے شک اس ناول کا سب سے بہترین کردار ہے اور یہ قاری کے دل و دماغ پر اپنے ایسے نقش چھوڑ جاتا ہے جس کو قاری کسی صورت فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ کردار ناول کی پوری فضاء پر چھایا ہوا ہے ۔
اس کی مصنوعی تقدیس ، اس کی علمیت ، اس کا جلال سب فنکارانہ ہے۔ اس کی عیاری میں بھی ایک حسن ہے۔
فرقہ باطنیہ کے دوسرے عیار و چال باز اس کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ شیخ علی وجودی کا کردار نہایت جاندار کردار ہے۔
فردوس بریں کا فنی اور فکری جائزہ pdf
مکالمہ نگاری
مکالے بھی ناول کا ایک اہم جزو ہوتے ہیں۔ مکالمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نیم ادبی زبان ہوتی ہے۔
شرر کے یہاں نفسیات کے عین مطابق مکالمے پائے جاتے ہیں۔ فردوس بریں میں زمرد اور حسین ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ زمرد ایک دیہاتی اور شرمیلی لڑکی ہے جو اس کے مکالموں سے واضح ہو جاتا ہے۔
خود کلامی
شرر نے اس ناول میں خود کلامی کے انداز سے استفادہ کیا ہے۔ خاص طور پر خود کلامی وہاں بہت خوبصورت ہے جب حسین زمرد کی جدائی میں اپنے آپ سے سودائی کی طرح باتیں کرتا ہوا نظر آیا ہے۔
زمرد اور حسین کے درمیان بے تکلف گفتگو بھی ناقدین کے نزدیک ایک خامی ہے۔
کیونکہ مذہبی گھرانے کے لڑکے لڑکیاں شادی سے پہلے اس قسم کی گفتگو کسی صورت نہیں کر سکتے۔
شیخ علی وجودی کے منہ سے جو مکالمے نکلتے ہیں وہ شرر کے فن کا نقطہ کمال ہے۔ شیخ علی وجودی اور حسین کے درمیان شرر نے جو گفتگو پیش کی ہے اس میں ادبیت علمیت پرکاری ، شوخی اور جازبیت سب کچھ ہے۔
یہاں شرر نے نہایت موزوں زبان استعمال کی ہے۔
منظر نگاری
فردوس بریں میں شر کی منظر نگاری عروج پر ہے۔ یہ منظرنگاری رنگیں اور جاندار مناظر پر مشتمل ہوتی ہے۔
مناظر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو براہ راست موضوع سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جو براہ راست موضوع سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ اردگرد کے ماحول کو پیش کرتے ہیں۔
ناول کے آغاز میں حسین اور زمرد کے سفر پر نکلے میں جو منظر نگاری کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اس کے علاوہ فردوس بریں کی منظرکشی میں شرر اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں۔
جنت کی تباہ کا ایسا خطر ناک منظر شور ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ لڑائی کاشور اور تباہی قاری بھی محسوس کرتا ہے۔
اسلوب نگاری
جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے تو مذکورہ ناول میں دلکش اور رواں دواں انداز تحریر اپنایا گیا ہے۔ مشکل الفاظ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ سادگی و سلامت نے فردوس بریں کی عبارت کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
ناول کی فضاء میں متصوفانہ اصطلاحوں نے انوکھا رنگ پیدا کیا ہے کہ فردوس بریں کی عبارت انتہائی پرکشش، چاشنی وشیرینی سے آرائش کی گئی معلوم ہوتی ہے۔
ناول فردوس بریں کا فکری جائزہ
تجس جستجو
پلاٹ کی خوبصورتی کی وجہ سے اس ناول میں تجس اور جستجو کی کیفیت بہت زیادہ ہے۔
ناول میں شروع سے لے کر آخر تک تجسّس ہی تجسس ہے۔ جب موسیٰ کی قبر پر حسین اور زمرد جاتے ہیں پریاں دیکھ کر دونوں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
ہوش میں آنے پر موسی کی قبر پر موسی کے نام کے ساتھ زمرد کا نام لکھا ہوتا ہے یہاں تجس کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے اس ناول میں شروع سے لے کر آخر تک ایسے واقعات ذکر ہوتے ہیں جو قاری کی دلچپسی اور تجس کو مزید بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔
اور قاری بغیر اکتائے ایک ہی نشست میں ناول پڑھنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عبد الحلیم شرر کی تاریخی ناول نگاری فردوس بریں کے تناظر میں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں