اردو کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا نظریہ برج بھاشا
برج بھاشااردو کی ابتدا کے بارے میں محمد حسین آزاد (1832-1910) نے آب حیات میں جو بات کہی ہے اس کا بھی ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا ۔ وہ لکھتے ہیں:
اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے ۔ 25
اس نظریے کی کسی زمانے میں علمی حلقوں میں بہت دھوم تھی اور برج بھاشا کو عام طور پر اردو کی ماں سمجھا جانے لگا تھا۔ آزاد کا نام کچھ اس نظریے کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہوا۔ اس نظریے کی تائید اور تردید میں اس وقت سے اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو کے برج سے ماخوذ ہونے کا نظریہ سب سے پہلے ہند آریائی لسانیات کے ایک بڑے ماہر روڈولف ہیور نلے نے پیش کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
اردو مقابلتہ حال کی پیداوار ہے ۔ دہلی کے نواح میں جو مسلم اقتدار کا مرکز تھا اردو بارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئی۔ یہ علاقہ برج ، مارواڑی، پنجابی کے لئے سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔ مقامی باشندوں اور مسلمان سپاہیوں کے اختلاط اور ارتباط سے ایک ملی جلی زبان وجود میں آئی جو صرفی، نحوی اصول کی حد تک برج ہے۔ اگر چہ اس میں پنجابی اور مارواڑی کی آمیزش بھی ہے۔ اس کے کچھ الفاظ دیسی ہندی ہیں اور کچھ بدیسی یعنی فارسی و عربی – 26
محمد حسین آزاد اور ہیورنلے کے علاوہ کئی اور مصنفین بھی اردو کو برج کے ساتھ منسوب کرنے میں پیش پیش رہے ہیں ، مثلاً آزاد سے قبل میرا من ، سرسید احمد خاں اور امام بخش صہبائی ، اور آزاد کے بعد سید شمس اللہ قادری کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے ہیں۔ جن کی تحریروں میں اس نظریے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سید شمس اللہ قادری رسالہ تاج اردو کے قدیم نمبر میں لکھتے ہیں:
مسلمانوں کے اثر سے برج بھاشا میں عربی فارسی الفاظ داخل ہونے لگے جس کے باعث اس میں تغیر شروع ہوا جو روز بروز بڑھتا گیا اور ایک عرصہ کے بعد اردو زبان کی صورت اختیار کرلی -27
اردو بھاشا سے نکلنے کے نظریے کی تنقید اور تردید محمود شیرانی نے ” پنجاب میں اردو (لاہور، 1928 ) میں، پروفیسر مسعود حسین خاں نے مقدمہ تاریخ زبان اردو ( دیلی ، 1948ء) میں، اور ڈاکٹر شوکت سبزواری ہی نے داستان زبان اردو ( دہلی ، 1961 ء )
میں نہایت کھل کر کی ہے۔ ان محققین نے برج بھاشا اور اردو کے تقابلی مطالعے اور لسانیاتی تجزیے سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ ان دونوں زبانوں میں ماں بیٹی کا رشتہ نہیں، بلکہ بہنوں کا رشتہ ہے۔
اردو کے برج سے نکلنے کا لسانیاتی جواز تو کوئی نہیں ہو سکتا ، تا ہم ہیور نلے، آزاد اور اردو کے بعض دیگر مصنفین کے ذہن میں یہ خیال دو وجوہ سے پیدا ہوا ہوگا۔ اول برج بھاشا کی امتیازی حیثیت اور غیر معمولی و مقبولیت ۔ دوم آگرے کا پایہ تخت قرار پانا ۔
سنگیت اور شاعری کی زبان ہونے کی وجہ سے برج بھاشا اپنے علاقے سے باہر بھی کافی مقبول تھی ۔ امیر خسرو (1253-1325) نے اپنی پہلیوں مکرنیوں اور گیتوں میں جو زبان استعمال کی ہے اس میں کھڑی بولی کے علاوہ برج بھاشا کے عناصر بھی کافی حد تک نمایاں ہیں۔
ان کی بعض پہیلیاں خالص برج بھاشا میں ہیں، اور گیتوں کی زبان عام طور پر معیاری برج بھاشا ہے۔ نامدیو (1270-1350) کبیر داس (1398-1518) اور گرو تا تک (1270-1539) کے کلام میں بھی برج بھاشا کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سلطان بہلول لودھی ( وفات، (1480)
کے بسائے ہوئے شہر آگرہ کو جب اس کے فرزند و جانشین سکندر لودھی (وفات 1510ء) نے اپنا پایہ تخت قرار دیا تو برج بھاشا کو پھلنے پھولنے کا اور بھی موقع کے ملا۔ اکبر (وفات ، 1605ء) جہانگیر (وفات 1627ء) اور شاہ جہاں (وفات، 1666ء) کے عہد میں اسے خاص طور پر فروغ حاصل ہوا۔ ادبی اظہار کے لئے شمالی ہند کی یہ ایک اعلیٰ ترقی یافتہ زبان تصور کی جانے لگی ۔
اکبر کے دربار کا مشہور شاعر عبدالرحیم خان خاناں (1553-1626) برج بھاشا کا مشہور شاعر گزرا ہے۔ اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بھی برج بھاشا میں دو ہے لکھے ہیں۔
شاہ جہاں نے 1647 ء میں جب اپنا یا یہ تخت آگرے سے دہلی منتقل کیا تو برج بھاشا کے اثرات رفتہ رفتہ زائل ہونے لگے ، لیکن اور نگزیب (وفات، 1707ء) کے عہد میں تحفہ الہند 1646ء کے تصنیف کیے جانے سے اس دور میں دہلی میں برج بھاشا کی اہمیت اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
تحفتہ الہند برج بھاشا کی قواعد ہے جو مرزا خاں نے غالبا مغل شہزادوں کو ہندی پڑھانے کی غرض سے فارسی زبان میں لکھی تھی۔ یہ بات واضح ہے کہ برج بھاشا کو نواح دہلی کی تمام بولیوں میں ایک خاص مرتبہ حاصل تھا۔
ہر اہل علم اس کی اہمیت اور مقبولیت سے واقف تھا۔ لہذا محمد حسین آزاد (1832-1910) کا اردو کو برج کے ساتھ منسوب کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں، پروفیسر مسعود حسین خاں نے یہ بالکل درست فرمایا ہے کہ آزاد نے محض "روایتا”برج کو اردو کا ماخذ بتایا۔ 29
کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ آزادماہر لسانیات نہیں تھے۔ وہ نواح دہلی کی بولیوں کے نازک اختلافات سے بھی واقف نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں نہ تو کوئی دلیل پیش کی اور نہ ہی انسانی حقائق و شواہد سے بحث کی۔
تاریخ ادب اردو سے انتخاب، محمد سہیل بھٹی،ص 33
یہ بھی پڑھیں: اردو کے آغاز وارتقاء کے نظریےایک تنقدیدی جائزه
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں