مثنوی زہر عشق کا تنقیدی جائزہ

کتاب کا نام ۔۔۔۔تاریخ ادب اردو 2
کوڈ۔۔۔۔5602
صفحہ نمبر ۔۔۔85سے83
موضوع ۔۔۔ مثنوی زہر عشق کا تنقیدی جائزہ
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ۔

نواب مرزا شوق کی زہر عشق کا تنقیدی جائزہ

مافوق الفطرت پر مبنی تخیل کی اونچی اڑان والی مشیویوں کے بعد جب حکیم تصدق حسین المعروف نواب مرزا شوق (1780-1871) کی مثنوی زہر عشق (1862) کا مطالعہ کریں تو حرمان نصیب عشق کا المیہ ہمارے جانے پہچانے ماحول اور حقیقی کرداروں پر مبنی ہونے کی وجہ سے دل پر عجب اثر کرتا ہے۔

نواب مرزا شوق لکھنو کے تھے مگر زہر عشق کی سادہ زبان اور رواں اسلوب گلزار نسیم کی مصنوعی فضا سے یکسر مختلف ہے حالانکہ شوق بھی آتش ہی کے شاگر د تھے۔

نواب مرزا شوق کی اگر چہ دو اور مثنویاں ” فریب عشق (1847) اور بیہار عشق “ (1851) بھی ہیں۔ لیکن جو شهرت بالمعهہ زیادہ بہتر تو یه که بد نامی آخری مثنوی زہر عشق ” کو ملی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مولانا حالی سے لے کر عبد الماجد دریا آبادی اور کلیم الدین احمد جیسے ناقدین نے اس پر عریانی اور فحاشی کا الزام دھرا۔

لیکن ناقدین اور معلمین کے بر عکس عوام میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ گداز قلب والے نوجوان ” زہر عشق “ کو پڑھ کر روتے تھے۔ روایت ہے کہ "زہر عشق پر مبنی ڈرامے کے آخری منظر کی شدید جذباتی کیفیات نے بعض افراد کو جنونی بنا دیا جبکہ اس کے پیدا کر وہ الم کی شدت کی وجہ سے ایک دو نے تو خود کشی بھی کر لی اسی لئے حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی” تذکرہ شوق از عطا اللہ پالوی میں اس ضمن میں تفصیلات درج ہیں۔

زہر عشق کی انفرادیت اور تاثیر اس باعث ہے کہ اس مثنوی میں پہلی مرتبہ شہزادوں شہزادیوں اور پری زادیوں کے برعکس جسم اور اعصاب کے حامل مرد عورت کے عشق کی تصویر کشی کی گئی ایسا عشق جو مرد اور عورت ہی کر سکتے ہیں۔

جہاں تک طرز ادا کا تعلق ہے تو اسے ہر نقاد نے سراہا ہے۔ شوق کی سادہ بیانی سہل ممتنع کی خوبصورتی کی حامل ہے۔ مولانا حالی نے اگر چہ عریانی کی وجہ سے اسے نا پسند کیا لیکن اسلوب کے وہ بھی معترف ہیں۔ مقدمہ شعر و

شاعری میں لکھتے ہیں۔

میر حسن کے بعد نواب مرزا شوق لکھنوی کی مثنویاں سب سے زیادہ لحاظ کے قابل ہیں اگر شاعری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک خاص حد تک ان کو بدر منیر پر ترجیح دی جاسکتی ہے ۔ وہ قدیم الفاظ اور محاوروں سے جواب متروک ہو گئے
ہیں اور حشو اور پھرتی کے الفاظ سے بالکل پاک ہیں۔ ان میں ایک قسم کا بیان ، زبان کی ھلاوٹ روز مرہ کی صفائی قافیوں کی نشست اور مصرعوں کی بر جستگی کے لحاظ سے مقابلہ بدر منیر کے بہت بڑھا ہوا ہے ان میں مردانے اور زنانے محاوروں کو اس طرح برتا ہے کہ نثر میں بھی ایسی بے تکلفی سے آج تک کسی نے نہیں پر تا”
اردو کے تین بڑے مثنوی نگاروں کے حالات فن اور مثنویوں کے بارے میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری اردو کی بہترین مثنویاں لاہور ، نذیر سنز 1993اء

منتخب اشعار :

ذیل میں تینوں مثنویوں کے چند اشعار درج ہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ چار پانچ اشعار کے مطالعہ سے ان مثنویوں کے اسلوب کی جمالیات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لہذا اطلبہ کو اصل مثنویوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

مثنوی سحر البیان :

چین آتش گل سے دہرکا ہوا

ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا

گلوں کا لب نہر پر جھومنا

وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر

اسی اپنے عالم میں منہ چومنا

نٹے کا سا عالم گلستان پر

کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال
رہیں ہاتھ جوں مست گردن میں ڈال

خراماں صبح صحن میں چار سو
دماغوں کو دیتی ہے ہر ایک گل کی بو

مثنوق گلزار نسیم


سایہ کو پتا نہ تھا شجر کا مرغان ہوا تھے ہوش راہی وه دشت کہ جس میں پر تگ و دو نرگس کی کھلی نہ آنکھ یک چند خوش قد وہ چلا گل و سمن میں

مثنوی زہر عشق

یاد اپنی تمہیں دلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں

ہو چکا آج جو کہ تھا ہونا
کل بسائیں گے قبر کا کونا

خاک میں ملتی ہے یہ صورت عشق دپھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت عشق

دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے ختم ہوتی زندگانی آج ہے
کوئ آتا نہیں پھر مر کے

ختم ہوتی ہے پھر یہ زندگانی آج
خاک میں ملتی ہے جوانی آج ۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں