کتاب کا نام۔۔۔۔اردو شاعری 2
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5608
صفحہ نمبر۔ 38 تا 43
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
ذوق کے قصائد کا فکری جائزہ
ذوق نے اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کا زمانہ دیکھا تھا ۔ انہوں نے اپنا پہلا قصیدہ بھی اکبر شاہ کے دربار میں پڑھا تھا بعد میں جب بہادر شاہ ظفر مند اقتدار پر بیٹھے تو وہ ان کے دربار سے وابستہ ہو گئے ۔ وہ بادشاہ کے استاد بھی تھے۔ ذوق کی قصیدہ نگاری کی اصل وجہ بھی در بارداری تھی۔ وہ بادشاہ کے ملازم تھے اس طرح مختلف مواقع پر قصیدہ لکھ کر پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ ان کی قصیدہ نگاری در بار شاہی تک محدود تھی اس لئے ان کے موضوعات و مضامین میں بھی تنوع نہیں ہے۔ اسکے تمام قصائد میں بادشاہوں کی مدح ہے صرف ایک نظم قصیدے کی طرز پر ایک دینی شخصیت سید عاشق نہال کی شان میں دستیاب ہے۔ انہوں نے ہجویات کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی۔
فکری اعتبار سے ذوق کے قصائد میں ان کے عہد کے گہرے اثرات موجود نہیں ہیں ۔ البتہ حکیمانہ خیالات اور ناصحانہ افکار ضرور دستیاب ہوتے ہیں۔ جن سے ایک طرف تو ان کی ملی شخصیت کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف ان کے مزاج کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوق کے ہاں سودا کی طرح طئر وظرافت کا پہلو بھی موجود نہیں ہے۔
ذوق کو مختلف علوم سے گہری دلچسپی تھی اس لئے ان کے قصائد میں علمی اصطلاحات اور مباحث داخل ہوئے ہیں مثلا شہزادہ ابو ظفر جب ولی عہد تھے تو ان کی صحت یابی پر انہوں نے جو قصیدہ لکھا اس میں حکمت و طب کی اصطلا حلت سے فائدہ اٹھایا ۔ دو شعر ملاحظہ کیجئے:
ہر مزاج بلغمی میں ہوتی ہے تولید خون
چاندنی کا پھول ہو اگر ارغوانی ہے بجا
نام کو اشیاء میں نہ تلخی رہی نہ سمیت
بن گئی تریاک افیوں زہر میٹھا ہو گیا
اسی طرح ایک قصیدے میں جو عید کے موقع پر بہادر شاہ ظفر کے حضور پڑھا گیا ذوق نے علم اور عالم کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس طرح اپنی فکر عالمی کا پتہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ اکبر شاہ ثانی کی مدح میں لکھے گئے قصیدے کی تقریب میں قلم اور اس کے متعلقات کا موضوع ہے۔ یہ بھی ان کے علمی انداز سے سوچنے کا مظہر ہے ۔ ان کے ہاں ناصحانہ باتیں بھی موجود ہیں جن پر ان کا روایتی حراج پوری طرح غالب ہے ۔ دو شعر ملاحظہ کیجئے ۔
ہستی کا اپنے کر نہ بھروسا حباب دار
تعمیر بے بنا ہے اور خیمہ بے ملناب
آئی ہے جب سے قالب خاکی میں تیری جان
غافل پىٔے سفر ہے اس دن سے پاتراب
ذوق اس زمانے کے شاعر ہیں جو سیاسی اعتبار سے پر امن اور پر سکون زمانہ تھا۔ سیاسی افراتفری اور لوٹ مار کا عہد گزر چکا تھا۔ اس امن وسکون کو نقیمت جانتے ہوئے اہل سخن کی ایک کثیر تعداد اس عہد میں روایتی موضوعات اور لفظیات سے نئے نئے نقوش ابھارنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ ذوق کا شمار بھی ان شاعروں میں ہوتا ہے جو فنی چابکدستی اور لفظ کے استعمال کے شعور کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ذوق کے قصائد میں نہ ہی اپنے عہد کا اور اک ہے اور نہ ہی کسی نئی فکر کے ابھرنے کے آثار ہیں ۔ البتہ وہ قصیدے کے فن سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس کی جزئیات کو سمجھتے تھے اس لئے ایک ہی دربار میں بیٹھ کر قصیدے کی نوک پلک سنوارتے رہے اور محض اپنی مشاقی اور تخیل کی بلندی سے اس فن میں اپنا لوہا منوانے کے قابل ہوئے۔
ذوق کے قصائد کا فنی جائزہ
ذوق کے قصائد کے فنی جائزے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ بھی دیکھیں کہ وہ قصیدے کے اصولوں کو کس قدر سمجھتے تھے اور ان کی کسی حد تک پیروی کرتے تھے۔ اگر ہم قصیدے کے الگ الگ پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو سب سے پہلے مطلع کا ذکر آئے گا۔۔۔ذوق بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل میں ان کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ ان کے مطلعے صاف اور زور دار ہوتے ہیں۔ یہی مہارت ان کے قصیدے کی بھی پہچان ہے۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کا بیان ہے:۔ ذوق کے اکثر مطلع حسن بیان ، شگفتگی خیال، برجستگی ادا اور جودت معانی کے آئینہ دار ہیں”
(ذوق ص (23)
چند مثالیں ملاحظہ کیجئے :
ہیں مری آنکھ میں اشکوں کے تماشا گوہر
اک گوہر دیکھو تو ہوں کتنے ہی پیدا گوہر
ساون میں دیا پھرمہ شوال دکھائی
برسات میں عید آئی قدح کش کی بن آئی
ہے آج جو یوں خوشنما نور سحر رنگ شفق
پر تو ہے کس خورشید کا نور سحر رنگ شفق
ذوق کی تشبیہیں اکثر متوازن ہوتی ہیں۔ تعداد اشعار کے لحاظ سے بھی ان کی تشویب مدح سے آگے نہیں بڑھتی ۔ تشبیب میں ذوق صورت گری اور پیکر تراشی کی بہت مہارت رکھتے ہیں۔ بہار یہ تشبیہوں میں ان کے جوہر خوب کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ اگر چہ پیکر تراشی اور حسن آفرینی میں تصنع اور تخلف کا رنگ صاف جھلکنے لگتا ہے مگر چونکہ قصیدے میں مبالغہ آرائی سے اکثر کام لیا جاتا ہے لہذا ایسا کرتے ہوئے تصنع یا تکلف کا آجانا کسی بہت بڑی خرابی کا پیش خیمہ نہیں ہوتا ۔ ذوق کی ایک بہار یہ تقریب سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
پہنچا کمک لشکر باراں سے ہے یہ زور
نار نالہ کی ہے دشت میں دریا پر چڑھائی
عالم یہ ہوا کا ہے کہ تاثیر ہوا سے
گردوں پر ہے خورشید کا بھی دیدہ ہوائی
حیرت کی نہیں جائے کہ دیوار چمن پر
ہر طائر تصویر کرے نغمہ سرائی
تشریب میں ذوق نے لفظوں کے رکھ رکھاؤ صنائع بدائع کے استعمال اور صوت و صدا کے اتار چڑھاؤ میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ علاوہ ازیں : وق کے تخیل میں عالمانہ رنگ بھی موجود ہے۔ حکیمانہ اور ناصحانہ باتیں رتے ہیں اس لئے اس حصہ شاعری میں ان کے ہاں متانت اور استادانہ وقار بھی موجود ہے۔ بھی گریز میں تشویب سے مدح کی طرف آنے کے لئے جس مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ذوق نے اکثر اس سے کام لیا ہے۔ وہ بات سے بات نکالنے کا فن جانتے تھے۔ اور اس طرح غیر محسوس انداز سے مدح کی طرف آتے تھے۔قصیدے میں مدح کے حصے کی اہمیت یہ ہے کہ اسی مقام پر شاعر اپنے ممدوح کی تعریف و ستائش کرتا ہے۔ ہے۔ اگر یہ حصہ کمزور ہو تو تمام تر قصیدہ کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ ذوق کے قصائد میں مدح کا حصہ بہت زور دار ہوتا ۔ مدح خوانی میں انہوں نے ان تمام روایتی معیارات کو سامنے رکھا ہے جن کا رواج فارسی قصیدہ نگاری میں موجود تھا۔ذوق نے اپنے قصائد میں اپنے محمد و حسین کے شاہانہ جاہ و جلال عدل و انصاف فہم و فراست نظم و نسق سخاوت علمیت ، ساز و سامان اور لشکر وغیرہ کے بیان میں قدرت زبان کے نت نئے گل کھلائے ہیں ۔ تشبہ واستعارہ رمز و ایما اور محاکات و غیره غرض ہر جگہ ان کی چابکدستی اور فن کاری کے کمالات دیکھے جاسکتے ہیں۔ واقعہ نگاری میں ان کا زور تخیل اور مبالغہ آرائی بھی عروج پر ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال دیکھئے شہزادہ جہانگیر کی شادی پر آتش بازی کے نظارے کا منظر کسی طرح پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں :
لگے ستاروں کو جب آگ دینے آتش باز
تو بولے اہل نظر دیکھنا ہے طرفہ بہار
عجب تماشہ ہوا پتلیوں کو جب دی آگ
کہ ناپنے لگے مل کر ثوابت و سیار
ہوائی کہتی تھی جا کر شہاب ثاقب سے
کہ تو زیادہ ہے یا میں فزوں ہوں آتش بار
ذوق نے مدح میں مبالغے سے بہت کام لیا ہے اس لئے ڈاکٹر سلام سندیلوی ان پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہے :
"ذوق کی مدح میں تصنع اور مبالغہ بے حد ہے جو صداقت اور اصلیت کے درجہ سے گرا ہے ۔”
(اردو شاعری کا فنی ارتقاص :183)
اس میں شبہ نہیں کہ جن بادشاہوں کے اعلیٰ اوصاف ذوق نے اپنے قصائد میں بیان کئے ہیں وہ حقیقت میں ویسے نہیں تھے ۔ ذوق کا عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا عہد ہے۔ کہنے کو بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی پورے ہندوستان پر قائم تھی مگر حقیقت میں ان کا اقتدار محض قلعے تک محدود تھا ۔ مغل بادشاہ میں وہ شاہانہ جاہ و جلال اور بیبت باقی نہ رہی تھی جو اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح ذوق کی مدح ایک نقطہ نظر سے محض مبالغہ آرائی کے ذیل میں آتی ہے مگر یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر عہد میں مبالغہ آرائی قصیدے کے شان و شکوہ کو بڑھانے کا ذریعہ رہی ہے۔ علاوہ ازیں مدح میں شاعر کے زور بیان اور زور تخیل کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور ذوق اس معاملے میں کسی قصیدہ نگار سے پیچھے نہیں رہے۔قصیدے کا آخری حصہ دعا کی شکل میں ہوتا ہے۔ جس میں شاعر محمدوح کے حق میں یہ دعا بھی کرتا ہے ا اور اپنا احوال بیان کر کے انعام و اکرام کا طالب بھی ہوتا ہے۔ ایک اچھے قصیدہ نگار کی یہ خوبی ہوتی ہے بلکہ وہآخری اشعار اس طرح لکھے کہ وہ تمام قصیدے کے ساتھ مربوط ہوں ۔ ذوق کے قصائد میں اکثر دعا کا حصہ قصیدے کے تسلسل کو برقرا رکھتا ہے اور اس کے شان و شکوہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہونے دیتا۔ یہاں ذوق کے قصائد کی نئی خوبیوں کے بارے میں مولانا ضیا بدایونی کی رائے درج کی جاتی ہے۔قصیدے کی خوبی مطلع ، مخلص مدح اور مقطع کی خوبی پر منحصر ہے اور ذوق کے قصائد پڑھ کر ہر شخص یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان تمام لوازم سے یہ طرز امن عبدہ برآ ہوئے ہیں ۔” (نگار اصناف سخن نمبر (قصیدے کے ارکان اربعہ : ص 55)
ذوق نے جس زمانے میں قصیدہ نگاری کی اس وقت تک یہ صنف شعر ارتقاء کی کئی منزلیں طے کر چکی تھی لیکن اس فن میں جو مقام سودا نے حاصل کیا وہ تاریخ ادب میں کسی اور کو حاصل نہ ہوا ۔ ذوق کی عظمت یہ ہے کہ سودا کے بعد قصیدے میں انہی کا نام لیا جاتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ذوق نے سودا کے کلام کی پیروی کی اور ان کی زمینوں اور بحروں میں اشعار لکھے لیکن اس کے باوجود آج بھی جب ہم قصیدہ نگاری کی بات کرتے ہیں تو سودا کے ساتھ ذوق کا ذکر بھی آتا ہے بلکہ ان دونوں شاعروں کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے اور تقابلی جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔سودا کی طرح ذوق کے موضوعات متنوع نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کے کلام میں ان کے عبد کے سیاسی و اشرتی حالات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے بزرگان دین کی شان میں بھی ( ایک کے سوا ) قصائد نہیں لکھے ان کے تمام ترانک بادشاہ کی مدح میں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی فنی چابکدستی عالمانہ تخیل اور قدرت الفاظ کی بنیاد پر ذوق نے اس فن میں بلند رتبہ حاصل کیا۔ ذوق نے اپنے قصائد میں نبی مزارات کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ علاوہ ازیں وہ معیار کے علاوہ مقدار میں بھی پیچھے دکھائی نہیں دیتے ۔ ان کے کلیات میں انتیس (29) قصائد دستیاب ہیں جب کہ سر شاہ محمد سلیمان نے قصائد ذوق میں 33 قصیدوں کا ذکر کیا ہے جب کہ ایک مثنوی سہرا اور چند قطعات اس کے علاوہ ہیں۔ ذوق کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے کے لئے درج ذیل آرا بھی پیش نظر رکھی جائیں۔
نظم اردو کی نقاشی میں مرزائے موصوف (سودا) نے قصیدے پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے ان کے بعد شیخ موصوف ( ذوق ) کے سوا کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا اور انہوں نے کہ جہاں تک کسی ہاتھ نہیں پہنچتا ۔
(آزاد آب حیات : ص (485)
یہ بات ذوق کی شاعری اور شعور دونوں کے اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنے موضوع کی عدم وسعت کے باوجود اپنی قوت فکر، علو تخیل، وسعت مطالعہ عبارت زبان اور قدرت بیان کے سہارے اپنے قصیدوں میں بڑی جدت طرازی اختراع پسندی اور ندرت کاری کا مظاہرہ کیا ۔ (داکتر تنویر احمد علوی ۔ ذوق سوانح و انتقاد مجلس ترقی ادب 1963 مص 266) ان کے ( ذوق ) کے قصائد میں عالمانہ شان متانت فنکاری چابک دستی خلاقی اور فکر عالی پائی جاتی ہے۔و اکثر ملک حسن اختر تاریخ ادب اردو یونیورسٹی بک ایجنسی انار کلی لاہور 1979 )
منتخب اشعار کی تشریح
ذوق کے ایک قصیدے در مدح ابوظفر بہادر شاہ کی تشریب سے ابتدائی چند اشعار کی تشریح پیش کی
پہلا شعر:
ساون میں دیا پھر مہ شوال دکھائی
برسات میں عید آئی قدح کش کی بن آئی
قدح کش : شراب پینے والا
مہ شوال : عید الفطر کا چاند
یہ قصیدے کا مطلع ہے۔ اس شعر میں ذوق کہتے ہیں کہ برسات کے موسم میں عید کا چاند نظر آیا تو شراب پینے والوں کی خوشی دو بالا ہوگئی۔ ایک طرف سادن کی بہار ہے تو دوسری طرف عید کی شادمانی ہے ۔ گو یا شراب پینے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہو سکتا ۔ اس شعر میں لفظ ” پھر “ کو اگر پیش نظر رکھیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ۔ ہے کہ چونکہ یہ قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھا گیا ہے اس لئے یوں لگتا ہے کہ جیسے ذوق یہ کہہ رہے ہوں کہ برسات کے اس خوبصورت موسم میں عید کے موقع پر ایک مرتبہ پھر بادشاہ کا دیدار میسر آیا ہے جو مہ شوال دیکھنے سے کم نہیں ۔
@Nihal Khan
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں