ذکیہ مشہدی کی افسانہ نگاری

ذکیہ مشہدی کی افسانہ نگاری | Zakia Mashhadi ki afsana nigari

ذکیہ مشہدی کی افسانہ نگاری

ذکیہ مشہدی دور حاضر کی حساس اور سمجھدار ادیبہ ہیں۔ جن کے احاطہ تحریر میں وہ تمام موضوعات شامل ہیں جو دل کے قریب ہوتے ہیں۔ ذکیہ مشہدی کا پورا نام ذکیہ سلطانہ مشہدی ہے ۔ وہ لکھنو میں ستمبر ۱۹۴۵ء کو ایک متوسط تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جناب خلیق احمد صدیقی اور والدہ زہر ہ خاتون نے ان کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔

انہوں نے ۱۹۶۶ء میں لکھنو یو نیورسٹی سے ایم ۔ اے نفسیات مکمل کیا۔ پڑھنے میں ذہین تھیں اس لیے بچپن میں ڈبل پروموشن ملا۔ اور جلد ہی تعلیم کا سلسلہ ختم کر کے لکھنو یو نیورسٹی کے ایک ریسرچ پروجکٹ میں کام کیا پھر اور بیو کانونٹ کالج لکھنو میں نفسیات کی استادر ہیں۔

شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی کیونکہ ان کے شوہر کا تعلق بہارے تھا، ان کے شوہر جناب شفیع مشہدی ایڈ منسٹر یو سروس میں تھے اور اعلی سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ وہ حال ہی میں ممبر بہار پبلک سروس کمیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں، شفیع مشہدی مشہور ڈرامہ نویس افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔ ذکیہ مشہدی ان کے بارے میں لکھتی ہیں:


ولی میں رہنے والے بہار کے اس مشترکہ خاندان میں ادب کا خاصہ دخل تھا اوریہ ماحول میرے لیے بہت سازگار ثابت ہوا۔ میری ان صلاحیتوں کی آبیاری ہوئی جو بصورت دیگر شاید و بی ڈھکی ہی رہ جاتی ہے۔ اس ماحول کی فراہمی اور پھر بر اور است ہمت افزائی ، ان دونوں کے لیے اپنے شوہر کی ممنون ہوں۔


ذکیہ مشہدی نفیسات کی طالبہ اور استاد ہونے کی وجہ سے اس مضمون پر اچھی دسترس رکھتی ہیں ، اور اپنے افسانوں میں عموماً نفسیاتی موضوعات کی ترجمانی کرتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ سابق قدروں اور ثقافتی معیاروں پر ان کی گہری نظر ہے۔ اور مرد سماج کے وضع کردہ نظام کے خلاف اپنی قلم کا وہ بے باک استعمال کرتی ہیں۔ذکیہ مشہدی کے ایک تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں
پرائے چہرے۔ ۱۹۸۴ء

تاریک راہوں کے مسافر – ۱۹۹۳ء

صدائے بازگشت – ۲۰۰۳ء

اس کے علاوہ انہوں نے مختلف کتابوں کے تراجم بھی کئے ہیں:

  نیلا چاند

پکھیرو

پرایا گھر

ہندی ناول

تصنیف

شو پرساد سنگھ

ہندی سے اردو

اردوافسانے

تصنیف

تمام کال رام لعل اردو

سے انگریزی

اردو افسانے

تصنیف

جیلانی بانو

اردو سے انگریزی

نفسیات سے جڑی ہوئی تین کتابوں کا ترجمہ انگریزی سے اردو میں ترقی اردو بیورو کے لیے کر چکی ہیں۔ آجکل ساہتیہ اکادمی کی کتاب Shadow from Laddakh کا اردو میں ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انسانی فطرت کو بنیاد بنا کر ناول لکھنے کی خواہش مند ہیں۔
ذکیہ مشہدی دور حاضر کی وہ افسانہ نگار ہیں جو ان تمام موضوعات کو اپنے احاطہ تحریر میں لاتی ہیں۔ جن سے سماج کاہل واسطہ یا بلا واسط تعلق ہے۔
ایک کامیاب افسانہ نگار بننے کے لیے وہ تین چیزوں کو ضروری قرار دیتی ہیں ۔

حساس دل، وسیع تجربہ اور الفاظ پر قدرت۔ اپنے بارے میں وہ بتاتی ہیں:
حساس دل تو میرے پاس ہے لیکن تجربہ بہت وسیع نہیں ہے۔ جہاں تک الفاظ کا سوال ہے اس کا فیصلہ قارئین پر ہے۔ ذکیہ مشہدی کو فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں سماج کے نچلے طبقے کے افراد کی بے بسی بدحالی اور مفلسی خاص طور پر متاثر کرتی ہے اور وہ اس کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہیں۔ نوے کی دہائی میں فرقہ وارانہ فسادات کو وہ تقسیم کے دوران ہوئے فساد کے تناظر میں دیکھتی ہیں ، ہندو مسلم سماج کے بیچ دوستی اور بھائی چارے کو چند مفاد پرست اور اپنے کو دیش سیوک کہنے والوں کے ہاتھوں ٹوٹتے دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتی ہیں اور بد امری نہیں صدائے بازگشت، تاریک راہوں کے مسافر ” وغیرہ افسانے انکی قلم سے باہر نکلتے ہیں، کیونکہ ان کےمطابق: در تقسیم ہند کا المیہ ایک مخصوص دور کا المیہ نہیں تھا بلکہ ہندوستانی مسلمان آج بھی ان کا شکار ہے۔ اس کے نتائج اس قدر طویل عرصے پر محیط ہوئے کہ انہوں نے سیاست اور مسلمانوں کی حد تک سماج کو متاثر کر رکھا ہے ۔ اس لیے تقسیم کا المیہ اب بھی نئے نئے پہلوؤں کے ساتھ سامنے آسکتا ہے۔بد امری نہیں افسانے میں صفیہ اور بدا مختلف مذہب سے منسلک ہونے کے باوجود گہری سہیلیاں اور پڑون میں فلیش بیک کی مدد سے صفیہ دونوں کی دوستی کو یاد کرتی ہے۔ اور پچیس سال بعد جب وہ وطن لوٹتی ہے تو دیوالی کی رات … اسے بدا کے گھر بنائے جانے والے گھروندے کی یاد آتی ہے جس کو سجانے کی ذمہ داری صفیہ کے اوپر ہوتی تھی۔ بدا کا بھائی کا لواکثر دونوں کے بیچ رنگ میں بھنگ کرنے کا کام انجام دیتا اور وہ دونوں اسے کالو بھائو کہکر اپنے دل کا غبار نکالتیں، آج بھی اسے بدا کا ہی انتظار تھا۔ حالانکہ اب وہ سسرال میں تھی۔ابھی ہدا کہیں سے تھال پر کھیلیں بتاشے اور مٹھائی لیے برآمد ہوگی اور ایک پڑیا بھر پیڑے الگ سے صفیہ کے ہاتھ میں پکڑا ئیگی اور پھر پھلجڑیوں کی روشنی میں دونوں کے چہرے ایک ساتھ گلنار ہو انھیں گئے۔تبھی ہدا کے بجائے اس کی چھوٹی بھاوج کی آواز کانوں سے ٹکرائی ہے۔اتنے زمانے کے بعد آیا آئیں بھی تو آجکل ، خدا کا شکر ہے لڑکی کو ساتھ نہیں لائیں۔مگر وہ تو جان بوجھکر تہوار کے زمانے میں آئی تھی تاکہ پرانی یادوں کو دوبارہ تازہ کر سکے مٹی کے کھلونے … سجے سجائے گھروندے، محبت کی مٹھاس بھری اس کی معصوم پہلی جو اس قدر جاہل تھی کہ میاں کو خط بھی نہیں لکھ پاتی تھی ، ان کے گھروں کی مماثلتیں اس کو یاد آ رہی تھیں:
پچھلی بار صفیہ گھر آئی تھی تو اس کا یہ بیٹا کوئی سال بھر کا تھا اس نے بدا کے گاؤں سندیسہ بھیجوایا تھا اور وہ دوسرے ہی دن چلی آئی تھی۔ اس نے صفیہ کے بیٹے سے کہا تھا کہ ہم کا چینیولی ، ہم تمہار موسی لاگیں ، پھر پلو میں ہاتھ ڈال کر چاندی کا کڑا اس کے ہاتھ میں پہنا دیا تھا پھر کا کی آئی تھیں گھٹنوں پر ہاتھ دھرے، میلی دھوتی کے آنچل سے کھول کر مڑا تڑا پانچ روپنے کا نوٹ صفیہ کے بیٹے کو دیا تھا۔ اماں نے کہا تھا بڑے لالہ تو گزر گئے لائن کو ان کا بیٹا زیادہ پیسے نہیں دیتا ، اب ان کے دیے پانچ روپئے تبرک سمجھو۔ اےتمہارے ابا کے بعد کیا میرے پاس بھی کبھی زیادہ سے ہونے پائے ہیں۔ دو روٹی کھلا کر لڑکے سمجھتے ہیں کہ ماں کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ، اب تم آئی ہو بچوں کے کلا کراڑ ساتھ، کیا تم ہیں خالی ہاتھ بھیج دوں؟ اماں اور لائن کے دکھ ایک تھے اور ان کی اقدار بھی ایک ہی تھیں۔مگر وقت نے سب کچھ بدل دیا تھا ، بدامر چکی تھی۔ اور اس کا بھائی راجہ رام جسے وہ کالو بھالو کہتی تھی ، اس سے ملنے کو بیقرار تھی ، صفیہ راجہ رام کی بیٹی سے ملکر کہتی ہے ہم تمہار پھوالا گئیں مگر کا لواب ایک سیاسی پارٹی میں شامل اشتعال انگیز نعرے لگانے والا وہ کالو بھالو جس کے گلے لگ کر وہ رخصتی کے وقت روئی تھی اب راجہ رام تھا اب اس سے ملنے نہیں آتا تو وہ اپنے گھر والوں کے روکنے کے باوجود اس کے گھر جاتی ہے ۔ کالو بھالو بہت سرسری اور کاروباری انداز میں اس سے ملتا ہے، صفیہ مایوس ہو کر جانے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے، تبھی منجو آتی ہے اور کہتی ہے:پاپا پاپا ہو۔ ای ہمار پھولا گیں۔ ذکیہ مشہدی کا پیغام محبت ہے اور اس افسانے کا اختتام بھی ایک ایسے موڑ پر ہوتا ہے جو مایوسی کے بجائے ایک خوش آئند مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔تاریک راہوں کے مسافر ذکیہ مشہدی کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں دو فرقوں کے بیچ بڑھتی ہوئی دوری کو پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے:
” وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور چپل ملکا تیں چل دیں۔ بڑی خالہ بابری مسجد کا آدھا حصہ تمہارے نام اور آدھا وجے کے ابا بھانو پرتاب رستوگی کے نام ۔ تم ہل ہل کر نماز پڑھنا پل کرنماز اور وہ ناقوس بجائیں گے۔ لیکن آگ موتنے والے تمہیں ایسا کرنے نہیں دینگے۔ اس لیے تمہارا اور تمہارے ساتھ ہم سب کا مستقبل تاریک ہے۔ ہم سب محبت کرنے والے نفرت کی تاریک راہوں میں مارے جائیں گے۔ذکیہ مشہدی کے شروعاتی دور کے افسانے لڑکیوں کے ساتھ سماج کے دوہرے رویہ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں انہوں نے لڑکیوں کی نفسیات کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مقام اور حیثیت کو معاشرے کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ۔ اسے ہے۔
تھکے پاؤں رہنا کی ویران اور تنہا زندگی کی کہانی کو بیان کر رہا ہے جو اکثر مڈل کلاس کی لڑکیوں کا مقدر ہوتی ہے بچپن سے لیکر جوانی تک جس کے دن پابندی اور روک ٹوک کے درمیان گزرے ہیں جو دوسروں کو رومانس کرتے دیکھ کر تنہائی میں یہ سوچ کر کڑھتی ہیں کہ:
” آج کل کی لڑکیوں کو نا جانے کیا ہو گیا ہے، اتنا کہتی ، میں ایسا کرتی تو بابو جی اپنا وزنی جوتا اتار کر اتنی مرمت کرتے کہ عشق کا بھوت مرے سرے ہی نہیں شاید پورے قصبے سے بھاگ نکلتا۔یہ وہ بد قسمت لڑکیاں ہوتی ہیں جو تنہائی میں تو اکیلی ہوتی ہی ہیں محفل میں بھی تمہارہ جاتی ہیں، اپنی ہیں اسٹوڈنٹ مناکشی کی شادی میں جانے کے بعد رتنا کا احساس تنہائی کچھ اور ہی بڑھ گیا تھا، جس کا خلاصہ مصنفہ اس طرح کرتی ہیں:شادیوں میں جانا اسے سخت نا پسند تھا، وہ انہیں شرکت کرتے کرتے اکتا چکی تھی، پہلے اس نے ہم عمروں کی شادیوں میں شرکت کی پھر اس نے ان لڑکیوں کی شادیوں میں شرکت کی جو اس سے بہت چھوٹی تھیں اور اب ان کی باری تھی جو اس کے سامنے پیدا ہوئی تھیں، اب کسی شادی میں شریک ہونے کو اس کا جی نہیں چاہتا تھا، کم سن لڑکیاں اس کی ساتھی نہیں تھیں، چنچل خوش و خرم بات بے بات قبیلہ لگانے والی ، دانتوں تلے انگلی دبا کر نقلی ہیروں کا ذکر کرنے والی۔ اور شادی شدہ عورتوں میں وہ مد فاضل بن جاتی تھی ۔ چرالیتی رتنا کی عزیز سہیلی صوفیہ بھی اسی کی طرح غیر شادی شدہ تھی۔ دونوں ساتھی رہتیں اور خوش کے چند لمحے تی ۔ پھر صوفیہ بمبئی چلی گئی اور اسی بیچ رتنا کی ملاقات مانک نامی ایک آدمی سے ہوتی ہے ، جس کی بیوی مرچکی ہے اور وہ دو جوان لڑکیوں کا باپ ہے، اتنا کے سامنے وہ شادی کا آفر رکھتا ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کی شادی خفیہ ہوگی اور ان کے یہاں بچے نہیں ہونگے ، ما تک کہتا ہے۔
لوگ کیا کہیں گے لڑکیاں بڑی ہوگئی ہیں ، ان کے رشتے بھی آ رہے ہیں، سال دو برس میں دونوں کو ساتھ بیاہ دونگا پھر اب با قاعدہ بیوی کا جھنجھٹ پالنے کی عادت بھی نہیں رہی ہم کان پور میں رہنا نوکری کی ضرورت نہیں ہے گزارا پورا دونگا۔رتنا غصے میں اس سے آئندہ نا ملنے کی بات کرتی ہے مگر وہ اسے خط لکھتا رہتا ہے، ہر مرتبہ ایک نیامبنی مون کے بہانے پورا ہندستان گھمالا ؤنگا۔کان پور والا مکان تمہارے نام کر دونگا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔رتنا ہر بار خط پھاڑ دیتی مگر ساتھ ہی وہ خط اس کا اعتماد بھی بڑھاتے تھے لیکن میناکشی کی شادی کے بعد مانک کا جو خط اسے ملا اس سے رتن کو دھکالگا، کیونکہ ما تک کا ابتک کا خوشامدی لہجہ اس کے اندر کہیں غرور اور اپنی اہمیت کا احساس بھی دلا جاتا تھا، مگر اس میں مالک نے لکھا تھا:یہ میرا آخری خط ہے ، اس کا جواب پندرہ دن کے اندر مل جانا چاہئے ورنہ میں کوئی دوسرا ٹھکانا ڈھونڈ نا شروع کر دونگا، دنیا میں عورتوں کی کمی نہیں ہے دو ہفتے میں فیصلہ کرلو ۔ پھر چاہے خط لکھ دینا چاہے فون کر دینا، ایک بار پھر دہرا دوں کہ کان پور کامکان … رتنا چھٹیوں میں گھر آتی ہے اور صفیہ کے اندر واضح مثبت تبدیلی محسوس کر کے اس کی وجہ پوچھتی ہے تو وہ اسے آصف کے بارے میں بتاتی ہے جو اس سے چار پانچ سال چھوٹا ہے مگر اس پر بری طرح عاشق ، رسم و رواج کے بندھنوں کو نبھانے والی رتنا اس سے شادی کے بارے میں پوچھتی ہے تو صفیہ کہتی ہے:شادی ؟ اس پر تو میں نے غور ہی نہیں کیا۔ وہ بھی ہو جائیگی شاید نہ ہو، نہ ہوئی تو کیا فرق پڑیگا، زندگی جینے کے لیے ہے، میں اچھی طرح جی رہی ہوں ، آصف نے برش لیکر خالی کینوس پرست رنگی دھنک بنائی ہے۔رہنا کو اچانک محسوس ہوا وہ ایک درخت کی نصف کئی ہوئی شاخ ہے جو دھم سے نیچے آنے والی ہے یا وہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا نشیمن جل جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے یا کچھ نہیں تو ایک ایسی بچا رن ہے جس کا آخری بت بھی ٹوٹ چکا ہے۔ یکا یک رتنا کو مانک کے خط کا دھیان آتا ہے اور وہ واپس ہوٹل جا کر اسے فون کرنے کا ارادہ کرتی ہے ہے۔آدرش اور اصول مصنفہ نے اس افسانے میں دونوں باتوں کا مذاق اڑایا ہے۔ رتنا ایک خاص وقت تک ان اصولوں سے چپک کر رہتی ہے، اور آخر کار اپنی تنہائی سے تھک کر فرار کا راستہ مانک کی شکل میں ڈھونڈ لیتی ہے، کیا اس کا یہ قدم لغلط ہے؟ یہ سوال قاری کے سامنے ہے۔ خواہشوں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ کر جینا ہی کیا اصولی زندگی ہے۔ مصنفہ نے ایسے سوالوں کا جواب اس افسانے میں پوشیدہ رکھا ہے۔
جگنو بھی ایک تنہا لڑ کی ڈاکٹر شیمہ اسلم کی کہانی ہے ۔ جس نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی تعلیم ہوٹل میں رہ کر کی اور فزکس اور میتھس جسے مضامین پڑھے مگر اس بغاوت کے باوجود وہ اس روایتی لڑکی کی طرح تھی جو محبت کا اظہار اپنی زبان سے کرنا ایک گناہ بجھتی ہیں اور کسی ایک لڑکے کو دل میں بٹھا کر اپنے دل کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیتی ہیں، ایسا ہی ایک لڑکا شیمہ کی زندگی میں آیا اور آگے کی تعلیم کے لیے یو کے چلا گیا۔ اس کا خط آتا رہا اور شیعہ اپنے دل کی دنیا بساتی رہی ، اور پھر ایک خط آیا جس میں اس لڑکے نے اپنی شادی کی خبر شیمہ کو دی تھی:تم سمجھدار پڑھی لکھی اڑ کی ہو، برا نہیں مانو گی بچپن کے یہ Crushes کچھ زیادہ اہم نہیں ہوتے ہم اعلی تعلیم یافتہ ہو اور خوبصورت تو لوگوں نے تمہیں ہمیشہ ہی کہا ہے. تمہیں وہاں کوئی اچھا سالڑ کامل جائیگا ، ہو سکتا ہے تمہارے ابو نے کسی کو پسند بھی کر رکھا ہو۔چند دن اس خط کا سوگ منانے کے بعد شیمہ نے کتابوں سے دوستی کر لی اور تعلیم کے مراحل طے کرتی رہی ، ایم ایس سی کیا ، ریسرچ آفیسر رہی اور پھر ایک اسکیم کی ڈائرکٹر اور بقول مصنفہ:لڑکے اس کے موٹے چشمے اور سونے کے تمغوں کی تعداد سے گھبرا کر دور بھاگ جاتے ، ابھی مردوں کو بہت ذہین عورتوں کی عادت نہیں پڑی تھی انہیں مزید بھگانے کےلیے اس نے پی۔ ایچ۔ ڈی بھی کرلی۔خوابوں اور تمناؤں کو مادہ پرستی اور حالات کے ہاتھوں اجڑتے ہوئے مصنفہ نے خود دیکھا ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک کا نہیں بلکہ پورا سماج اس سے دو چار ہے ” بالما کی مسکراہٹ” کی ” بالما ” اور ” اے موج حوادث کی صبا” ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔ذکیہ مشہدی کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ہے اور ناہی کوئی سبجیکٹ ان کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں، تانیثی ادب کی پہچان بھی یہی ہے، ان کا افسانہ چرایا ہو اسکھ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہا ہے مگر اپنے نئے کرائے دار کی بیوی کا حسن اسے سدھا سے بیوفائی کرنے کے لیے اکساتا رہتا ہے اور آخر کار وہ ایک دن اسے حاصل کر لیتا ہے، مگر فورا ہی اسے اپنی بھول کا احساس ہو جاتا ہے جس کا اظہار وہ یوں کرتا ہے:بڑی حیرت سے آنکھیں پیپٹا کر اجیت نے سوچا کہ یہ عورت اسے اس قدر انوکھی ، اچھوتی ، آسمان سے اتری ہوئی مخلوق کیوں معلوم ہوئی تھی، یہ عورت جو کسی بھی عام عورت سے الگ نہیں ہے، کیا یہ چرایا ہو ا سکھ امیتا سے ملنے والے سکھ سے کچھ الگ تھا؟ حساب لگایا تو سارے جمع خرچ ، ضرب تقسیم کا جواب ایک ہی آیا ، پھر چھ مہینوں سے اس نے اپنی نیندیں کیوں حرام کر رکھی تھیں محض بند لفافے کو کھولنے کے لیے؟ ایک بیمار سے تجس کی تسکین کے لیے؟ یا اس لیے کہ وہ ایک نا قابل حصول شئے محسوس ہوتی تھی اور اجیت کے لیے ایک چیلنج ؟ اسے امیتا یاد آئی جواب آتی ہی ہوگی ۔ ایک سیدھی سادی معصوم سی گھر یلو بیوی جیسے وہ پچھلے چھ ماہ سے تھکتا چلا آ رہا تھا۔ ایک اور موضوع جو مصنفہ کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس کے بارے میں وہ بہت فکر مند بھی ہیں ، وہ ہے اردو زبان کا مسئلہ زبان اور بیان کا وہ ایسا انداز اپناتی ہیں کہ پڑھنے والے پر طنز کا بھر پور تیر چل جائے اور شاید … ان کی بات کسی دل میں اتر جائے … اور اردو زندہ رہے ، ان کی دو کہانیاں پرسش …. اور فدا علی کریلے اور اردو ، اس موضوع پر لکھی بہترین کہانی ہے۔پرسش ضلع کے SDO کے گھر کی کہانی ہے ۔ جن کے دو بچے پانچویں اور تیسری کلاس میں پڑھتے ہیں، مگر اردو زبان اور مذہب سے قطعی نا واقف ، بیگم صاحبہ ان کے لیے اردو ٹیوٹر کی تلاش میں ہیں اور عبد الخالق انصاری کو تلاش کے بعد بچوں کو پڑھانے کے لیے لایا جاتا ہے۔
انکا حلیہ ملاحظہ ہو: کوئی میں اکیس برس کی عمر، کالی رنگت ، بہت چھوٹا قد منحنی سا جسم ، اسکے اوپر گول چھوٹا چہرہ، زرا از راسی آنکھیں ، زراز راسی داڑھی ، چپٹی ناک نہ ہونے کے برابر ۔ دو پلی ٹوپی ، بغل میں کچھ رجسٹر جیسا دبا ہوا۔ بیگم صاحبہ کو ایکا ایک اپنی طرف پلٹتے دیکھ کر ایسا مرعوب ہوا کہ ہلنے کی سکت بھی نہیں رہی شاید ۔بیگم صاحبہ سور و پنے پر عبد الخالق کو کچھ ہمدری اور کچھ خوف خدا کے ڈر سے اردو اور عربی پڑھانے کے لیے رکھ لیتی ہیں، مگر جلد ہی بچوں پر پڑھائی کا زیادہ بوجھ آجانے کی وجہ سے اور کچھ گھریلو بجٹ کے گڑ بڑ ہو جانے کیوجہ سے اردو ٹیوٹر کو نکال دینے کا فیصلہ کرتی ہیں۔… ماسٹر صاحب اگلے ماہ سے آپ … میرا مطلب ہے آپ پڑھانے نہیں آئے گا۔ اس درمیان کوئی اور ٹیوشن ڈھونڈ لیجئے ، ہم بھی کوشش کرینگے کہ آپ کی مدد کریں۔ وہ بات یہ ہے کہ بچوں کو میتھس میں کو چنگ کی سخت ضرورت ہے اور انگریزی میں بھی ہمیںایسا آدمی مل گیا ہے جو یہ دونوں مضامین پڑھا سکے ۔ ایسا ہی ایک افسانہ فدا علی کریلے اور اردو ہے۔ جو اردو زبان کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ سید افضل حسین اور ان کی بیگم زینت اردو کی بقا اور ترویح کے لیے کام کر رہے ہیں، جس میں ایک انجمن کی سر پرستی کے علاوہ ایک سنڈے اسکول بھی ہے۔ جس میں پانچ سات طلبہ ضرور رہتے ہیں، مگر ان کی بیٹی اور اسکے بچے اردو سے قطعی نابلد ہیں ، اور اسے بیکار سمجھتے ہیں ۔ بلکہ ان کے خان ساماں فدا علی کے مطابق :فدا علی کو معلوم ہے بچے کر میلے قطعی نہیں کھاتے ، بالکل ایسے ہی جیسے وہ ارد و قطعی نہیں پڑھنا چاہتے ، لاکھ بیگم صاحبہ کہیں یوں تو سمیرہ بی بی نے ہی کون سی اردو پڑھ کےدی زینت بیگم کو اردو زبان سے واقعی لگاؤ ہے جس کا ثبوت ہے ان کے ذریعے خریدے جانے والے اردو کے وہ دو اخبار جن کو وہ قیمت خریدتی ہیں اور ان کے بیٹے ان کی اس فضول خرچی پر اکثر ناراض ہوتے ہیں، یہاں پر مصنفہ نے خود ایک سوال اٹھایا ہے جو ہے تو نفصل حسین سے مگر مخاطب کیا ہے انہوں نے تمام محبان اردو اور اردو داں طبقے کو
ان کے نوجوان بیٹوں میں اپنی قوم اور زبان کے معاملات میں دلچسپی کا فقدان کیوں ہے، اس کا تجزیہ فضل حسین نے نہیں کیا تھا، زبان اور قوم لازم و ملزوم کیوں ہو گئیں تھیں، اس پر غور کرنے سے تو کچھ حاصل بھی نہیں تھا اس لیے اب تو ہو ہی چکی تھی ، محبان اردو خواہ کتنے ہی لوگوں کو بلا کر تقریریں کروادیں ۔اس طنز کا تناظر اتنا گہرا ہے کہ چند لفظوں میں مصنفہ تمام اردو داں طبقہ کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتی ہیں۔ اردو زبان جاننے والوں کی گھٹتی تعداد کا ذکر اس طرح کرتی ہیں:ارے بیگم صاحبہ آپ نے پرزہ دیا تھا اردو میں لکھ کے ۔ کافی دیر وہ اس پھیرے میں رہے کہ کوئی اردو جاننے والا نکلے تو پڑھوائیں۔ بیسیوں گا ہک آن کے نکل گئے آخر خود ٹوٹو کے پڑھا۔ کچھ تو اندازے سے ہم نے بتایا کہ کیا لکھا ہو گا اور کتا۔زینت سخت حیران ہوئیں۔ پرچہ تو ہمیشہ اردو میں ہی جاتا تھا۔ دوکان پر بڑھو بیٹھتےتھے نہ وہ ہل گئے وہی پڑھتے تھے اردو کا پرچہ، سلمان میاں نے کہلوایا ہے اگلی بار ہندی میں لکھ کر بھیجیں بیگم صاحب۔ نہیں تو پھر فون پر لکھواد میں دوکان میں فون لگ گیا ہے۔ یہ لیجئے نمبر۔ انہوں نے تھیلے کو دھم سے پٹختے ہوئے نمبر کا پرزہ زینت کو تھمایا۔زینت بیگم بہت دل برداشتہ ہوتی ہیں۔ اپنے نواسی تو اسے کو اردو پڑھانے کی وہ بہت کوشش کرتیہیں۔ مگر بے سود … بچے اپنی ہی زبان بولنے پر مصر ہیں۔ اور نانی کے بہت اصرار پر انکو Senile کا خطاب دے دیتے ہیں۔ ان کی بیٹی سمیرہ سوچتی ہیں:”… اب ایسی ادب بے زار بھی نہیں ہوں، مشاعروں میں جاتی ہوں مہدی حسین، غلام علی ، نصرت فتح علی اور جگجیت سنگھ کے سارے کیسٹ میرے پاس موجود ہیں۔ ہاں اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانی تو فری لانسنگ کر کے کیا اتنا کما سکتی تھی ؟ آج شوہر سے الگ میری بھی کچھ ہستی ہے اور آمدنی بھی۔ ویسے یہ سارا کچھ دیکھا جائے تو میں پاپا کا ہی دیا ہوا ہے بڑے روایتی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اعلی درجے کے انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلوائی ہے ۔ بڑے دور اندیش میں دونوں کےاس پیراگراف میں مصنفہ نے خود ہی اردو کی پست حالت کی وجہ بیان کر دی ہے۔ اردو سے پیار تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے زریعہ معاش نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ عقلمند اور دور اندیش لوگ اپنے بچوں کو زندگی میں کامیاب بنانے کے لیے انگریزی میڈیم اسکولوں کا سہارا لیتے ہیں۔افسانے کے آخر میں اردو کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان انہوں نے پھر لگایا ہے۔ زینت بیگم اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں جاتی ہیں اور وہیں ان کی ملاقات فدا علی کے پوتے سے ہوتی ہے جو آٹھویں درجے میں گاؤں کے مدرسے میں پڑھ رہا ہے۔ زینت بیگم کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ اردو بہت اچھی طرح پڑھ سکتا ہے وہ اسے اردو کے رسالے اور کتا بیں دینے کا وعدہ کرتی ہیں، یہاں پر زینت بیگم اور فدا علی کے خوابوں کو بہت ہی پر اثر انداز میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ بیگم صاحبہ ابھی لڑکا ہے عقل کہاں سے آئیگی ، وہ بھی گاؤں کا لڑکا۔ میٹرک کر دیگا پھر ہم اسے شہر لے آئیں گے، بچ گئے تو اسے آگے پڑھائیں گے۔ بی۔ اے کر یگا تب تو نوکری ملیکی ، ورنہ یہ بھی ہماری طرح قیمہ بھرے کریلے پکائی گایا اپنے باپ کی طرح کلکتے میں مزدوری
کریگا۔ اور بیگم صاحبہ .. انہوں نے آگے کی بات کی نہیں صرف دل میں سوچی … اور جو کہیں واقعی ہمارے بھاگ جگے اور ہمارا پوتا شہر میں نوکر ہو گیا تو اس کے بچوں کو ہم شہر کے اچھے اسکول میں پڑھا ئینگے ۔ وادمیاں فدا علی واہ تم بچو گے یہ سب دیکھنے کو ٹھیک ہے نہ کچھیں ، ہمارے خواب ہمارے پوتے کی آنکھوں میں تو ہو نگے ۔ ہماری چوتھی پشت تو سدھرے گی سمیرہ بی بی اور علی بھیا کی طرح … ان کے بچوں کی طرح ، زینت لڑکے سے مسرور لہجے میں کہہ رہی تھیں… میرے پاس اردو کی اور بہت سی کتابیں ہیں وہ میں تمہیں دونگی۔ مبارک ہو ہمارے گاؤں کے مدرسے جنہوں نے اردو کا چراغ روشن کر رکھا ہے۔کریلوں کو کڑھائی میں جماتے ہوئے فدا علی مستقبل میں ان اسکولوں کے خواب بن رہے تھے جمیں اردو شاید کبھی نہیں پڑھائی جائے گی۔زکیہ مشہدی بہت حساس ہیں ۔ وہ طبقاتی فرق کو شدت سے محسوس کرتی ہی سماج کے نچلے طبقے یا پھر ان کے ٹوٹتے خوابوں کو وہ بہت صفائی سے پیش کرتے ہیں ، جسے بھر ا سمندر میں جگت سنگھ کے خواب ۔ ذکیہ مشہدی کے شوہر آفیسر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسی وجہ سے اس ماحول کی عکاسی وہ بہت بہترین ڈھنگ سے کرتی ہیں ۔ جگت سنگھ جو کلکٹر صاحب کا اردلی ہے۔ اپنے بیٹے کو بڑے ارمان سے اس اسکول میں داخل کرتا ہے جس میں صاحب کا لڑکا پڑھ رہا ہے۔ مگر وقت نے اسے بتادیا کہ وہ اپنے بیٹے چندر بھان کو اسکول کے دنوں میں تو اپنی سب جمع پونجی خرچ کر کے اچھے اسکول میں داخلہ کروایا جا سکتا ہے مگر آگے کا راستہ واقعی مشکل ہے:افسروں کے ساتھ رہتے ہوئے ہمارا دماغ خراب ہو گیا تھا۔ ہم سوچتے تھے، ان کے بچوں میں ایسی کیا بات ہے جو چندر بھان میں نہیں ہو سکتی، تب ہمارا تجربہ ادھورا تھا اور محبت پوری اور آگے بہت بڑی زندگی پڑی تھی اور بہت فصلیں کاٹنی باقی تھیں، ہو تجر بہ پوراہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ قصبہ جہان آباد کے پھٹیچر سے ہندی مادھیم کے اسکول اور کالج کے دیہاتی ماسٹروں سے پڑھ کر نکلنے والا لڑ کا افسر نہیں بن سکتا۔ اور دو بیگہ زمین کی ایج اور چپراسی گیری کی آمدنی سے اسے ہم بڑے شہر میں بھیج کر نہیں پڑھا سکتے۔ ذکیہ مشہدی کا پیغام انسان اور انسانیت کے لیے ہے۔ وہ اپنے قلم سے قوم کو جھنجھوڑتی ہیں:جھگیوں میں ، چالوں میں جھونپڑیوں میں انتہائی درجے کی غربت اور غلاظت کے درمیان رہتے انسان ، سڑک سے کچلے جانے ، بارش میں بھیگنے ، دھوپ میں جلنے کے باوجو دفٹ پاتھوں پر ہتے انسان دوسروں کے لیے غلہ اگا کر خود بھو کے مرتے انسان ، قحط میں بھوک سے بلبلا کر بچوں کو دو مٹھی اناج کے بدلے بیچتے انسان ، اپنے ایسے پیاروں کو، جنکے بغیر زندگی کا تصور محال تھا ، اپنے ہاتھوں جلا کر اور دفنا کر زندہ رہتے انسان، کوڑے کے ڈھیر پر جھوٹے پتوں کے لیے کتوں سے لڑتے انسان ، بقا کی جدو جہد میں فنا کے گھاٹ اترتے انسان –
ذکیہ مشہدی حالات حاضر و پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ آزاد ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات اور چھ دسمبر کے بعد پھیلی نفرت اور ہندو مسلمان کے بیچ پھیلی کشیدگی کو وہ تقسیم کے بعد ہوئے فسادات کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ ان فساد دوئی میں سماج کے بے گناہ اور معصوم لوگوں کے بہتے ہوئے خون کو دیکھکر چیخ پڑتی ہیں اور بار بار وہ سوال کرتی ہیں:” اس نے اسے کیوں مارا؟ کیا مارنے والا جلا تھا اور مقتول کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی ؟نہیں کیا مارنے والا سپاہی تھا اور مقتول میدان جنگ میں دشمن کی فوج کا کوئی آدمی؟ نہیں مارنے والا اگر نہ مارتا تو کیا خود مارا جاتا کہ مقتول اسکے گھر میں گھس آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں ہتھیار تھے اور نیت میں فساد؟
نہیں کیا مارنے والا قصاب تھا اور مقتول ایک جانور جس کا ذبح کیا جانا جائز اور مستعمل ہے کہ انسانوں کی غذا بنا کر اتارا گیا ہے؟نہیں نہیں ۔ اور نہیں۔ان موضوعات کو بحث میں لاتے ہوئے ان کا انداز اکثر ناصحانہ ہو جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ تقریر کر رہی ہوں ۔ ”اجن ماموں کا بیٹھ کے افعی اور صدائے بازگشت فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں لکھا ہوا افسانہ ہے۔ جس میں وہ بار بار یہی سوال دہراتی ہے صدائے بازگشت کی پہلی لائن ہی افسانے کی فضا کو بیان کر دیتی ہے:مہیب صورت ٹرک سارے سامان کو یوں نگل گیا تھا جیسے ایسے خاندانوں کو نگل جایا کرتے ہیں ۔ ذکیہ مشہدی کا مایہ ناز افسانہ ” قصہ جانکی رمن پانڈے کا ہے۔ جس میں کہانی کے کے ماما کی زبان سے سنائی گئی ہے۔ جانکی رمن پانڈے کو ماں کے مرنے کے بعد ان کی بہن ( جسے وہ دوا کہتے ہیں ) پالتی ہیں اور وہ پڑھکر وکیل بن جاتے ہیں۔ دوا اپنی پسند سے ان کی شادی کرتی ہیں۔ ان کے یہاں دو بیٹیاں ہو جاتی ہیں۔ جانکی رمن پانڈے اپنے جیجا کے پرانے وکیل رجب علی کے گھر پر سہ دینے جاتے ہیں وہیں ان کی خوبصورت حسین اور طلاق شدہ بھانجی روشن آرا سے ان کی ملاقات ہوتی ہے اور دھیرے دھیرے محبت کی شکل لے لیتی ہے۔ اور جانکی رمن پانڈے کلمہ پڑھکر مسلمان ہو جاتے ہیں اور روشن سے نکاح کر لیتے ہیں، دوا ناراضگی ظاہر کرتی ہیں، مگر وہ بڑے رسان سے ان کو سمجھاتے ہیں : ” دوا آپ ماں سمان ہیں ۔ اماں زندہ ہو تیں تو اس سے زیادہ احترام ہم ان کا بھی نہ کر پاتے ۔ ہم نے آپ کی لاج رکھی ، آپ ہم سے پوچھے بغیر ہمارے زندگی کا فیصلہ کر آئیں ، ہم نے سر آنکھوں پہ بٹھایا ۔ وہ پٹ رانی ہے۔ رہے گی لیکن یہ ہماری محبت ہے وہ بھی رہے گی۔روشن آرا دو بیٹوں کی ماں بن جاتی ہیں ۔ دوا جذبات میں آکر وہاں جاتیں ہیں بھاوج کو خاندانی جھومک پہناتی ہیں۔ بھتیجوں کو پیار کرتی ہیں ، مصنفہ نے پورے افسانے میں مذہب اور محبت دونوں کا موازنہ کیا ہے۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا اس فلسفہ پر سوچا ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:” ابھی صبح ہونے میں کچھ دیر باقی تھی کہ وہ کرسی سے اٹھ کر دوا کی طرف چل پڑے۔ ایک طرف سفید مسنڈے کے بڑے بڑے جھاڑ کھڑے تھا ۔ سنا ہے گو تم بدھ اپنے کسی جنم میں سری لنکا کے جنگلوں میں بھٹک گئے تھے۔ اماوس کی رات تھی بولتے بولتے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک قطار در قطار سفید مسنڈے کے جھاڑوں میں چاندی جیسے پھول کھل اٹھے ، سارا جنگل روشن ہو گیا، یہاں سے وہاں تک چاندنی بکھر گئی ۔ چاند کی نہیں ، پھولوں کی چاندنی ، تب گوتم بدھ نے مسنڈے کو دعادی ۔ وہ آج تک برقرار ہے اور سارے سال کھلتا ہے۔ پتہ نہیں اس کہانی کا نفسیاتی اثر تھا یا ان پھولوں میں واقعی ایسا کوئی وصف تھا کہ دیکھو تو دل و دماغ میں ٹھنڈک کی اتر جائے ۔ کیا یہ گوتم بدھ کی دعا تھی ؟ اور کیا گوتم بدھ نے نسل انسان کے لیے دعا نہیں کی تھی ؟ عقل سلیم کی دعا ؟ دلوں سے کثافت دور ہونے کی دعا، پیدائشی خباثت سے نجات کی دعاء بڑھا پے بیماری اور موت کے چکر سے آزاد ہونے کی دعا ؟ یہ تو آج بھی اس طرح انسان کو خوف زدہ کر رہے ہیں ، اس طرح دلوں میں دہشت بھر رہے ہیں ۔ اماں … پیاری اماں … پانڈے اپنی جواں مرگ خوبصورت ماں کو یاد کر کے آب دیدہ ہو گئے … رات کے اس پہر میں ان کے دل میں ہوک سی اٹھی ، اماں مر کے کہاں گئی ہوں گی؟ کیا واقعی ویتر نی پار کرنی پڑی ہوگی؟ کیا اس جہاں سے آگے اور بھی جہاں ہیں ؟ کیا مرنے کے بعد پانڈے اماں سے مل سکیں گے ۔ زندہ رہنے کے دوران ہر وقت ننھے جانگی رمن کو کلیجے سے لگا کر رکھنے والی اماں کیا ان کے لیے بے چین ہوتی ہوں گی ؟ ہر سال گیا جا کے پنڈ دان کرنے سے کیا واقعی اماں کی آتما کو شانتی ملتی ہوگی ؟ آتما ؟ آتما کیا ہے؟۔روشن آرا بھی منشی رجب علی کے نام سے فاتحہ پڑھکر کہتی ہے کہ اس سے ان کی روح کو سکون ملتا ہوگا ۔ اور ثواب بھی گناہ اور ثواب کیا ہیں ؟ کس نے بنائے ہیں یہ گناہ و ثواب کے معیار … اگر وہ کلمہ پڑھ کے کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں تو بھی وہ جانگی رمن پانڈے ہی رہیں گے یا کچھ اور ہو جائیں گے؟ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہیں۔ رہیں گے تو دو وی … اپنے سارے علم وآگہی ، وکالت کی موشگافیوں، اپنے جسم ، اپنے رنگ وروپ، اپنے جذبات و احساسات ، اپنے خیالات ، اپنی کمینگیوں ، خامیوں ، اپنی تمام محبتوں کے ساتھ …”۔
جانگی رمن پانڈے مذہب سے جڑے پچیدہ سوالوں کا جواب پانے کے کوشاں ہیں ، مذہب کیا ہے؟ مختلف مذاہب میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال ہر ذہین انسان کی طرح ان کو بھی پریشان کرتا ہے۔ اور وہ خود لکھتے ہیں:
یہ دنیا کس نے بنائی ۔ لوگ مرتے کیوں ہیں، مرنے کے بعد کہاں جاتے ہیں۔
کیا ہوتا ہے کیا دنیا میں جو نا انصافیاں اور دکھ ہیں انکا کہیں صلہ نہیں ہے؟ جنہیں قانون سزا نہیں دے پاتا ان گنہگاروں کو کیا کہیں سزا ملیگی ؟ کیا نیکو کاروں کے لیے کوئی اجر ہے؟ یوں ہی بڑے ظلم اور گنا ہیں دنیا میں ہیں را میں روشن بیگم مذہب نہ ہوتا تو ان کی باڑھ آجاتی ، مذہب انسانوں میں کھلے شیطانوں کے گرد کشمن ریکھا ئیں کیھتا ہے … تمہارا اللہ رحمن ورحیم ہے، پالن ہار ہے۔ زندگی کا ضامن ہے اور موت کا بھی ۔ میرا وشنو بھی ان سارے خواص سے آراستا ہے ۔ بس ہم نے اسے تین الگ الگ صورتوں میں دیکھا ہے ۔ وہ جو تخلیق کرتا ہے، وہ جو پالتا ہے اور وہ جوفنا کرتا ہے۔ یہ تینوں ایک ہی ہستی کے روپ ہیں ملے دو اگزرگئیں ، بچے بڑے ہو گئے ، جانکی رمن پانڈے روشن آرا کے پاس آتے ہیں اور وہیں انتقال کر جاتے ہیں۔ ان کو دفن کر دیا جاتا ہے ۔ جانکی رمن پانڈے کے گھر میں قیامت آجاتی ہے۔ ان کے داماد اور رشتہ دار رسول پور آتے ہیں۔ مگر عین وقت پر اونکار ناتھ کی مداخلت سے معاملہ مار پیٹ سے بیچ جاتا ہے اور پانڈے کی لاش کو قبر سے اکھاڑ کر واپس لے جایا جاتا ہے۔ اونکار نا تھ روشن آرا کو سمجھاتے ہیں :چھوٹی بہو ۔ مرا ہوا انسان سڑنے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا۔ نہ گھر میں نہ سڑک پر ۔تتو یہ سب جانتے ہیں۔ اب اسے جلا ڈ یا دفن کرو۔ وہ تو دنیا سے گیا، پیچ توپیچ میں مل جاتے ہیں مٹی مٹی میں ، آکاش آکاش میں ، آگ آگ میں، پانی پانی میں اور ہوا ہوا میں ، جل کے یہی ہوتا ہے اور دفن ہو کےبھی ہی ہوتا ہے ، فرق اتناہی ہے کہ دفن ہونے پر یہ عمل بہت
سست رفتاری کے ساتھ ہوتا ہے۔ذکیہ مشہدی اپنے کردار آس پاس رہنے والوں کے بیچ سے کرتی ہیں ، وہ خود اعتراف کرتی ہیں کہ کردار میں اپنے گردو پیش سے اٹھاتی ہوں تخیلاتی کرداروں پر لکھنا مجھے پسند نہیں یا شاید ان لوگوں پر لکھ نہیں پاتی جنہیں دیکھا نہ ہو۔ اس لئے ان کے افسانوں میں وہ کردار ہوتے ہیں جو چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اور زیادہ تر ان کے کردار نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اور زندگی کی نا انصافیوں کو جھیلتے نظر آتے ہیں۔ اپنے کرداروں کی شکل وصورت عادت و اطوار وہ اتنی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں کہ وہ کردار سامنے نظر آتے ہیں مثلا ان کی کہانی ” جو کے جھو”۔

اجن ماموں کا بیٹھکہ کے انوکھے لال بھیڑئے کی انجورانی ارکر ملی پرسش کے عبد الخالق انصاری : ” بھر سمندر کے جگت سنگھ ” بالما کی مسکراہٹ کی بالماء ” ہر ہر گنگے کی رام دھنی کی مائے وغیرہ ذکیہ مشہدی کے افسانے عام طور پر بیانیہ انداز میں لکھے ہوئے حقیقی زندگی سے قریب تر ہوتے ہیں ، وہ خو لکھتی ہیں:ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث اب ختم ہونی چاہیئے آج بھی لوگ ادیبوں سے یہ سوال پوچھتے ہیں، ادب برائے ادب داستان پارینہ ہے۔ آج کا ادیب نہ زندگی سے آنکھیں چرا رہا ہے اور نہ چرا سکتا ہے۔ جس ادیب نے زندگی کو نظر انداز کیا اس کی تخلیقات اپنی طرف توجہ مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہونگی ۔

ذکیہ مشہدی کے افسانوں کی خامی یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں کا محور بہار کے آس پاس کے لوگوں تک محدود رکھتے ہیں جو زبان اور بیان دونوں پر حاوی رہتا ہے اور ان کے افسانوی کینوس کو بہت حد تک محدود کر دیتا ہے۔ذکیہ مشہدی کے افسانے زندگی کی کڑواہٹوں اور تلخیوں سے پر ہوتے ہیں انہیں انسانی فطرت بہت پر کشش لگتی ہے۔ اور اس کی تہوں کو کھولنا اور قارئین کے ھ سامنے پیش کرنا وہ اپنا فریضہ سمجھتی ہیں ۔ قاری … جسے وہ ادیب کا سب سے بڑا نج تصور کرتی ہیں۔ اور اپنے فن پاروں کو انہیں کی عدالت میں رکھنا پسند کرتی ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں