یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا تشریح

کتاب کا نام :میر و غالب کا خصوصی مطالعہ

موضوع: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا تشریح

صفحہ نمبر :202تا206

مرتب کردہ : ارحم

___💐___

(غزل 2)

شعر 1

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہے یہی انتظار ہوتا

مطلب :چونکہ وصال یار ہمارے قسمت ہی میں نہیں تھا اس لیے اگر حالت فراق میں موت اگئی تو ہمیں متعلق افسوس نہیں ہے کیونکہ اگر اور جیتے رہتے تو بھی اسی حالت فراق میں ایڑیاں رگڑتے رہتے

بنیادی تصور: شکایت محرومی قسمت

شعر 2

تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

مطلب: اگر ہم تیرے وعدہ وصل کے بعد بھی زندہ رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں تیرے وعدے پر اعتبار نہیں ہے اگر اعتبار ہوتا تو فروط خوشی سے ہماری موت یقینی تھی

بنیادی تصور: قدم اعتبار وعدہ

شعر 3

تیری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

مطلب: اے محبوب اگر تو نے ہم سے عہد باندھ کر توڑ دیا تو اس میں تیرا کوئی قصور نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ عہد ہی بہت کمزور بندہ تھا اگر وہ مضبوط ہوتا تو تجھ سے کبھی نہ ٹوٹ سکتا اب رہی یہ بات کہ وہ کمزور کیوں بندھا اس کا جواب یہ ہے کہ کمزور نازک کا عہد بھی کمزوری ہوتا ہے تجھ میں اتنی طاقت ہی کہاں تھی کہ اسے مضبوط باندھتا حق یہ ہے حق یہ ہے کہ اس شعر میں غالب کی نزاکت خیال معشوق کی نزاکت سے بہت زیادہ قابل تحسین ہے

بنیادی تصور
عدم استواری عہد

شعر 4

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوئی جو جگر کے پار ہوتا

نیم کش اس تیر کو کہتے ہیں جس چلاتے وقت کمان کو آدھی قوت سے کھینچا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نشانے کے پار نہیں ہوتا تیر سے تیر مسگاں مراد ہے تیر نیم کش کنایہ ہے معشوق کی نیچی نظر سے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے کہیں زیادہ دلکش ہوتی ہے

مطلب: اے محبوب تیرے تیر نیم کش نے میرے جگر میں پیوست ہو کر خلش کا سامان مہیا کر دیا ہے اور اس خلش سے جو لذت مجھے محسوس ہو رہی ہے اسے میرا دل ہی جانتا ہے اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت ہی اچھا ہوا تیرا دیر جگر کے پار نہ ہوا اگر پار ہو جاتا تو یہ لذت کہاں سے حاصل ہوتی

بنیادی تصور: لذت خلش تیر دن کش

شعر 5

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

مطلب: افسوس ہے کہ میرے دوست چارہ سازی اور غم گساری کے بجائے مجھے ترک محبت کا مشورہ دے رہے ہیں یہ دوستی نہیں ہے بلکہ سرا سر دشمنی ہے ان کا فرض تو یہ تھا کہ میرے ساتھ ہمدردی کرتے یعنی مثال یار کی تدبیریں سمجھاتے

بنیادی تصور: شکوہ نصیحت احباب

شعر 6

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

مطلب: غم عشق کی تباہ کاری کا بیان کرتے ہیں کہ اگر پتھر میں شرر کے بجائے غم عشق پنہاں ہوتا تو اس کی شدت سے پتھر جیسے سخت چیز سے بھی اس قدر خون ٹپکتا کہ کبھی نہ تھکتا با الفاظ اگر غم عشق وہ برے بلا ہے کہ انسان کی دو حقیقت ہی کیا پتھر کا جگر بھی خون ہو کر بہہ جاتا ہے

بنیادی تصور :تاثیر غم عشق

شعر 7

غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ بچیں کہاں کے دل ہے

غم عشق اگر نہ ہوتا ہم روزگار ہوتا

مطلب :یہ سچ ہے کہ غم انسان کی روح کو تخیل کر دیتا ہے بلکہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے مگر اس سے کسی انسان کو نجات نہیں مل سکتی کیونکہ ہر انسان صاحب دل ہے اور غم دل کے ساتھ ہے یعنی دل کی فطرت یہ ہے کہ وہ جو یائے غم ہے لہذا جب تک ہمارے سینے میں دل ہے ہم غم سے بچ نہیں سکتے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ہم عشق ترک کر دیں اور اس طرح غم عشق سے نجات حاصل کر لیں تو ہمارا دل غم روزگار میں مبتلا ہو جائے گا یعنی جو لوگ عشق نہیں کرتے ہیں وہ الام وافکار میں گرفتار ہیں

بنیادی تصور: ہمہ گیر غم

شعر 8

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

مطلب اس سے کہوں کہ شب غم کیا ہے بس یہ سمجھو کہ بری بلا ہے اس کے قرب کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس کے بجائے اگر مجھے موت آ جاتی تو میں باخوشی گوارا کر لیتا ایک دفعہ مر کر رنج و الم سے تو نجات مل جاتی لیکن شب غم میں ہر لمحہ انسان پر موت کی سے اذیت طاری ہوتی ہے لیکن موت نہیں آتی

بنیادی تصور: کیفیت شب غم

شعر 9

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

مطلب: کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمارا جنازہ بھی اٹھایا گیا اور مزار بھی بنایا گیا اس طرح ہماری رسوائی کا پورا سامان مہیا کیا گیا اگر ہم دریا میں غرق ہو جاتے تو کسی کو ہمارے مرنے کی کانوں کان بھی خبر نہ ہوتی کیونکہ نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار بنتا

شعر 10

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یگانہ ہے وہ یکتا ہے مراد یہ ہے کہ حق وجود مطلق ہے یعنی اس کے علاوہ کائنات میں اور کوئی ہستی موجود نہیں ہے الفاظ موجود حق میں منحصر ہے غیر اللہ کا وجود نہیں ہے دو ہی یعنی دوسرے کا وجود دوئی کی بو بھی ہوتی ہے یعنی اگر کوئی اور موجود ہوتا یا غیر کا وجود ہوتا دو چار ہوتا یعنی دکھائی دیتا نظر آتا مطلب غالب نے اس شعر میں مسئلہ وحدت الوجود نظم کیا ہے اور الفاظ کے انتخاب کی بدولت شیر نے بڑی دلکشی پیدا کی ہے یہ گانا اور یکتا میں دو ہی اور دو چار میں مناسبت معنوی پائی جاتی ہے پہلے مصرعے کے پہلے جملہ اسے کون دیکھ سکتا ہے دوسرے جملے میں اس پر دلیل دی گئی ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجود حقیقی یکتا ہے اور اس کے سوا دوسری ہستی موجود نہیں ہے

بنیادی تصور: اسبات وحدت الوجود

شعر11

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادا خوار ہوتا

مطلب: اے غالب تصوف کے مسائل تو نے ایسے دلکش انداز میں بیان کیے ہیں کہ اگر تو دا خوار نہ ہوتا تو تیرے کلام کے پڑھنے والے یقینا تجھے ولی سمجھتے بنیادی تصور غالب نے اس شعر میں اپنی شاعری کی دو خصوصیتیں واضح کی ہیں

(1) مسائل
(2)تصوف انداز بیان

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں