سقراط جمہوریت سے نفرت کیوں کرتا تھا؟ ایک فلسفی کی وہ وارننگ جسے دنیا نے بھلا دیا
موضوعات کی فہرست
ہم جمہوریت کو ایک مقدس اور بہترین نظام کے طور پر دیکھنے کے عادی ہیں۔ قدیم ایتھنز، وہ تہذیب جس نے اسے جنم دیا، آج بھی جمہوری اقدار کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے رہنما پارتھینن کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں بنوانا پسند کرتے ہیں۔
لیکن یہ جان کر شدید حیرت ہوتی ہے کہ قدیم یونان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک، یعنی فلسفہ، اس کی دوسری بڑی کامیابی، یعنی جمہوریت، کے بارے میں شدید شکوک و شبہات رکھتا تھا۔ یونانی فلسفے کے بانی، سقراط، جمہوریت کے پورے نظام سے مایوس تھے۔ آئیے جانتے ہیں کہ سقراط جمہوریت سے نفرت کیوں کرتا تھا۔
ریاست کا جہاز: ایک جاہل ووٹر کی مثال
افلاطون کی مشہور کتاب "ریاست” میں، سقراط ایک بحری جہاز کی مثال کے ذریعے جمہوریت کی سب سے بڑی خامی کو بے نقاب کرتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے:
"اگر آپ ایک سمندری سفر پر روانہ ہو رہے ہیں، تو آپ جہاز کا کپتان کس کو بنائیں گے؟ کسی بھی عام آدمی کو، یا ان لوگوں کو جو جہاز رانی کے فن اور اصولوں سے واقف ہوں؟”
ظاہر ہے، جواب ہوگا: "ماہرین کو۔”
سقراط اسی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے، "تو پھر ہم یہ کیسے سوچ لیتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا حکمران کون ہوگا، یہ فیصلہ کرنے کے لیے ہر عام آدمی موزوں ہے؟”
سقراط کا نکتہ یہ تھا کہ ووٹ ڈالنا ایک مہارت (Skill) ہے، کوئی عام وجدان نہیں۔ اس کے لیے تعلیم اور عقلی سوچ کی ضرورت ہے۔ بغیر تعلیم کے شہریوں کو ووٹ کا حق دینا اتنا ہی غیر ذمہ دارانہ ہے جتنا ایک طوفان میں پھنسے جہاز کی کمان کسی اناڑی کو سونپ دینا۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو بتاتی ہے کہ سقراط جمہوریت سے نفرت کیوں کرتا تھا۔
ایک ذاتی المیہ: جب ہجوم نے فلسفی کو موت کی سزا دی
سقراط کو ووٹروں کی جہالت کا ذاتی اور تباہ کن تجربہ بھی ہوا۔ 399 قبل مسیح میں، اسی ایتھنز کی جمہوریت نے سقراط پر نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا جھوٹا الزام لگایا۔ 500 عام شہریوں کی جیوری نے ایک معمولی اکثریت سے اسے مجرم قرار دیا اور زہر کا پیالہ پی کر موت کی سزا سنا دی۔
یہ واقعہ سوچنے والی دنیا(فلسفہ) کے لیے اتنا ہی بڑا المیہ ہے جتنا عیسائیوں کے لیے حضرت عیسیٰ کی سزا۔ یہ المناک واقعہ اس بات کی عملی مثال ہے کہ سقراط جمہوریت سے نفرت کیوں کرتا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ سقراط امیروں کی حکومت (Aristocracy) کا حامی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں کہتا تھا کہ صرف ایک مخصوص طبقے کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔
ان کا اصرار تھا کہ ووٹ کا حق صرف ان لوگوں کو ملنا چاہیے جنہوں نے مسائل پر گہرائی سے اور عقلی طور پر سوچا ہو۔
ڈیماگوگری کا خوف: جب عوام کو بھڑکایا جاتا ہے
سقراط جانتا تھا کہ جب تعلیم اور حکمت کے بغیر عوام کو ووٹ کا حق دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا: ڈیماگوگری (Demagoguery)۔
یعنی ایک ایسا لیڈر جو عوام کے جذبات کو بھڑکا کر، جھوٹے وعدے کر کے، اور آسان نعرے لگا کر اقتدار میں آ جائے۔
مٹھائی فروش بمقابلہ ڈاکٹر کی مثال
سقراط نے اس خطرے کو سمجھانے کے لیے ایک اور شاندار مثال دی:
تصور کریں کہ دو امیدواروں کے درمیان انتخابی بحث ہو رہی ہے۔ ایک ڈاکٹر ہے اور دوسرا مٹھائی کی دکان کا مالک۔
مٹھائی فروش اپنے حریف (ڈاکٹر) کے بارے میں عوام سے کہے گا: "دیکھو! یہ شخص تمہیں تکلیف دیتا ہے، تمہیں کڑوی دوائیں پلاتا ہے، اور تمہاری من پسند چیزیں کھانے سے روکتا ہے۔ میں تمہیں کبھی ایسی تکلیف نہیں دوں گا، بلکہ مزیدار اور میٹھی چیزیں کھلاؤں گا۔”
سقراط پوچھتا ہے کہ کیا اس موقع پر ڈاکٹر کا سچا جواب کہ "میں تمہاری بھلائی کے لیے تمہیں تکلیف دیتا ہوں” عوام میں کوئی اثر ڈالے گا؟
عوام کا ہجوم تو مٹھائی فروش کے نعروں پر ہی شور مچائے گا۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ سقراط جمہوریت سے نفرت کیوں کرتا تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عوام ہمیشہ سچ کے بجائے خوش کن جھوٹ کو ترجیح دیتی ہے۔
سقراط کی بھولی ہوئی وارننگ
آج ہم نے سقراط کی اس اہم تنبیہ کو مکمل طور پر فراموش کر دیا ہے۔ ہم نے جمہوریت کو ایک غیر متنازعہ طور پر اچھی چیز مان لیا ہے، لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ جمہوریت اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جتنا اس کا تعلیمی اور شعوری نظام۔
نتیجے کے طور پر، ہم نے بہت سے "مٹھائی فروش” منتخب کیے ہیں اور بہت کم "ڈاکٹر”۔ یہی وہ خطرہ تھا جس کی وجہ سے تاریخ کا سب سے بڑا فلسفی جمہوریت کا سب سے بڑا ناقد بن گیا۔