علم تاریخ سے کیا مراد ہے؟

علم تاریخ سے کیا مراد ہے | What is meant by the science of history

تحریر: ڈاکٹر غلام فرید

موضوعات کی فہرست

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. علم کی وہ شاخ جو واقعاتِ گذشتہ کا احاطہ کرے اور کسی قوم گروہ یا معاشرے کی زندگی کے ماضی کو بیان کرے۔۔۔۔
  2. Old Testament جس کو ہم اردو میں عہد نامہ قدیم یا عتیق کا نام دیتے ہیں اس میں شامل پہلی پانچ کتب۔۔۔۔۔۔
  3. پینگوئن انسائیکلو پیڈیا ماضی کے مطالعہ کا نام تاریخ بتاتا ہے جس میں۔۔۔
  4. مذاہب کی کتابوں مثلاً بائبل، قران ، ویدیں، اوستا وغیرہ ماضی کے حالات سے پر ہیں یہ علمِ تاریخ کی اہمیت کا ثبوت ہیں۔۔۔۔

علم تاریخ

علم کی وہ شاخ جو واقعاتِ گذشتہ کا احاطہ کرے اور کسی قوم گروہ یا معاشرے کی زندگی کے ماضی کو بیان کرے وہ علمِ تاریخ ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی کوکھ سے دنیا کے تمام علوم نے جنم لیا۔

ای ایم فاسٹر کے بقول تذکرہ تاریخ ہے جس کی بنیاد واقعات پر ہوتی ہے Hutchinson encylopaedia نے علم تاریخ کے بارے میں کہا ہے :

"The written record of the development of human societies. The earlies surviving hsitorical record are the inscriptions denoting the achievments of Egyptian and bublyonian kings.”(۱۰)

لغات کشوری میں تاریخ کے بارے میں لکھا کہ کسی امر عظیم سے مدت کا تعین کرنا کوئی دن مہینے کا۔ عہد نامہ قدیم کو جدید محققین نے علمِ تاریخ کی پہلی کتاب کہا ہے جن میں یونانی ، عبرانی اور سامری نسخہ جات شامل ہیں۔

Old Testament جس کو ہم اردو میں عہد نامہ قدیم یا عتیق کا نام دیتے ہیں اس میں شامل پہلی پانچ کتب (پیدائش، خروج، احبار گنتی اور ستثنا ) کو یہودی تورات کہتے ہیں یہ وہ کتاب ہے

جس میں تاریخ انسانی ہی نہیں بلکہ کائنات کے آغاز سے اسکا آغاز ہوتا ہے۔ اس میں قصص بھی ہیں ، علم و حکمت اور دانش بھی، انسانیت دوستی بھی نظر بھی آتی ہے اور یرمیاہ نبی کا نوحہ بھی۔

پھر عہد نامہ جدید چار اناجیل ( متی، مرقس، لوقا، اور یوحنا کی انجیل) پر مشتمل ہے یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے ہر مذہب اور نقطہ خیال کا پڑھنے والا کسبِ فیض کر سکتا ہے۔ (۱۱)

علمِ تاریخ کو باقائدہ محفوظ کرنے میں یا رواج دینے میں رومیوں کا بھی حصہ ہے جیسا کہ یونانی یہ کام کر چکے تھے۔ ٹیسی ٹس ۵۷ء میں پیدا ہوا اور یہ فنِ تاریخ نگاری کے کافی قریب پہنچا۔رومی بڑی جنگوں ، جھگڑوں ، فیصلوں ، قانون سازی وغیرہ جیسے واقعات کو لکھ لیتے تھے ۔

علمِ تاریخ تحریر سے ہی اپنے آغاز کا ثبوت فراہم کرتی ہے مگر اب آثارِ قدیمہ کی دریافتوں نے حیرت انگیز اضافے کر دیے ہیں جس میں اشیا بھی حرف کی قائم مقام حیثیت پر آ گئے ہیں ۔ علمِ تاریخ معلومات کے احوالِ ماضیہ کے واسطے پر ضروری ہونے کے علاوہ دانشمندوں نے عبرت و آگاہی پیدا کرتا ہے۔

تاریخ دنیا کا قدیم ترین علم ہے ۔ آدم کو جو علم سکھایا گیا جو اشیا کا علم تھا جس کی وسعت میں کائنات کی ہر چیز ہو گی ورنہ فرشتوں کا لا جواب ہو جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔

جو بھی علم یا علوم آدم کو دیے گئے ان کی حفاظت کا ذمہ بھی ایک اور علم کا منصب ٹھہرا۔ کوئی بھی قانون روایت اقدار فنون وغیرہ کے تجربات تاریخ کے بغیر معدوم ہو جائیں گے ۔

انسانوں کے ماضی اگر گم ہو جائیں تو حال اور مستقبل مخدوش ہو جاتے ہیں۔ اگر یونانی فلسفہ اور طب، ہندی نجوم و فلسفہ، حمورابی قوانین، اسلامی سائنس و منطق، مصری قبریں اور کتبے، ایرانی ادب وغیرہ آج تک محفوظ ہیں تو یہ سب تاریخ کے علم کی بدولت ہیں ۔

مذاہب کی کتابوں مثلاً بائبل، قران ، ویدیں، اوستا وغیرہ ماضی کے حالات سے پر ہیں یہ علمِ تاریخ کی اہمیت کا ثبوت ہیں۔

ابنِ خلدون کے بقول فن تاریخ تدبر و بصیرت کا سر چشمہ ہے۔ بائبل کو کچھ ماہرین دنیا کی پہلی تاریخ کی کتاب قرار دے چکے ہیں۔ وید کے بارے میں ڈاکٹر گستاؤلی بان کی رائے جانتے ہیں:

"رگ وید کے سوکتوں کو محض ایسے گلہ بانوں کی تصنیف نہیں خیال کرنا چاہیے جو چراگاہوں میں اپنے مویشی لیے پھرتے تھے ۔۔۔۔۔۔

ان کی عبارت میں ہر جگہ تکلف اور انشائی اور مذہبی پختہ کاری کے آثار معلوم ہوتے ہیں ۔ جس وقت علومِ تاریخ پر تدریجی ترقی کے اصول سے نظر ڈالی جائے گی تو ثابت ہو جائے گا کہ اس قسم کی تصانیف ایک زمانہ دراز کی تعلیمی ترقی کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔”(۱۲)

واقعات نویسی یا شخصی کارنامے تاریخ کا علم سمجھے جاتے تھے مگر رفتہ رفتہ جوں جوں انسان فکر نے ارتقائی منزلیں طے کیں تدریجاً تاریخ کے علم نے بھی ترقی کی اور اس کی کئی شاخیں وجود میں آئیں جیسے میڈیکل سائنس میں بے شمار شعبے پیدا ہوئے ۔ ان علوم کو تاریخ کے امدادی یا ذیلی علوم بھی کہا جاتاہے جن کی تفصیل یہ ہے:

۱۔         حکمت عملی (Diplomacy)

۲۔         جغرافی (Geography)

۳۔         جیالوجی (Geology)

۴۔        آرکیالوجی (Archaeology)

۵۔        نوادرات (Museology)

۶۔         مسکوکات (Numismatic)

۷۔       مصوری (Painting)

۸۔        خطاطی ( Calligraphy)

۹۔         کتبہ کاری (Epigraphy)

۱۰۔      علمِ قدیم طرز تحریر ( Palaeopraphy)

۱۱۔        علم سیل (Sigillography)

۱۲۔       علم الانساب (Geneology)

۱۳۔       معاشرتی علوم (Sociology )

۱۴۔       سلسلہ وار ترتیب (Chronology)

۱۵۔       لسانیات (Fillography )

۱۶۔        سوانح (Biography)

۱۷۔       فوٹو گرافی (Photographhy)

۱۸۔       فلم میکنگ (Film Making)

پینگوئن انسائیکلو پیڈیا ماضی کے مطالعہ کا نام تاریخ بتاتا ہے جس میں سیاسی، سماجی، معاشی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا ہے اوراُس کے ساتھ دوسرے علوم جو ان عوامل کو تقویت دیں سب تاریخ کے دھارے میں شامل ہیں۔(۱۳)

ویبسٹرڈکشنری نے تاریخ کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ گزرے ہوئے واقعات کا بیان جس میں قوموں کی حالت کا پتہ چلے ۔

"a recorded narrative of past events, especially those concerning a particular period, nation, individual etc.”(14)

سب سے بڑھ کر ادب ایک ایسا علم ہے جو تاریخ کی باقاعدہ شاخ تو نہیں ہے مگر تاریخ کے جو مقاصد ہیں ان کی صحیح ترجمانی یہی علم کر رہا ہے۔ حقیقت میں یہ علمِ تاریخ کے ہم پلہ ہے کیونکہ شاعر اور کہانی کار عہدِ گم گشتہ کو زمانے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

رئیس احمد جعفری نے تمدن ہند کے مقدمہ میں لکھا ہے شاعر اور قصہ گو اپنے زمانے کی روح مجسم کا ظہور ہوتے ہیں جب تک شاعروں کی نظمیں اور قصہ گوؤں کے افسانے انسانوں کے حافظوں میں محفوظ ہیں کوئی تمدن ایسا نہیں جس کی حالت کم و بیش ہم معلوم نہ کر سکیں۔

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں