وزیر آغار بطور ایک شعوری انشائیہ نگار | Wazir Agha ke Tor Par Ek Shuaori Inshaiya Nigar
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شعیب علی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
وزیر آغا کی انشائیہ نگاری
صنف انشائیہ کے تعین اور اسے ایک مقبول اور منفر د صنف بنانے میں وزیر آغا نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔
بحیثیت نقاد انھوں نے اس صنف کی فنی خصوصیات اور مقتضیات اجاگر کیے، وقتاً فوقتاً ادبی دنیا، ادب لطیف اور اوراق جیسے متعدد رسائل و اخبارات میں انشائیہ سے متعلق تحریریں لکھیں،
کبھی انشائیہ کے خدو خال پیش کیے، کبھی انشائیہ کے امتیازی اوصاف بیان کیے کبھی انشائیہ کے حدود کی تعین پر بحث کی تو کبھی صنف انشائیہ کی با قاعدہ تعریف کر کے اس کی مطلق پہچان بتائی۔
مختصر یہ کہ شعوری طور پر انشائیہ کے فنی محاسن سے متعارف کرانے کا سہرا وزیر آغا کے سر جاتا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ جب کوئی شخص شعوری طور پر انشائیہ کی صنف سے پوری طرح واقف ہوگا تو یقیناً اس شخص کے قلم سے جو تخلیقی تحریریں جنم لیں گی وہ خالص انشائیہ ہی ہوں گی ۔
وزیر آغا شعوری طور پر صنف انشائیہ سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ انھوں نے اس صنف میں ارادتاً طبع آزمائی کی
اور ان کے انشائیوں کے چار مجموعے منظر عام پر آئے جو علی الترتیب یہ ہیں؛
خیال پارے (۱۹۶۰ء)،
چوری سے یاری تک (۱۹۶۶ء)، دوسرا کنارہ (۱۹۸۲ء)
اور سمندر اگر میرے اندر گرے (۱۹۸۹ء)۔
انشائیوں کے یہ مجموعے اردو ادب میں خالص انشائی تحریروں کا بہترین سرمایہ ہیں۔
ان مجموعوں میں موجود تمام تحریریں عمدہ انشائیوں کا درجہ رکھتی ہیں اور مختلف خصوصیات کا آمیزہ ہیں۔
وزیر آغا کا تخیل اور اسلوب بیان ان کے انشائیوں کے ہر موضوع کو الگ ہی رنگ میں پیش کرتا ہے۔
ان کے انشائیوں میں تقابلی انداز کثرت سے پایا جاتا ہے، جس کی بہترین مثال ان کا انشائیہ حقہ پینا ہے
جس میں جدید اور قدیم تہذیبی اور ثقافتی طرز عمل کا تقابلی منظر پیش کرتے ہوئے خوبصورت انداز میں قدیم تہذیب و ثقافتی طرز عمل کو فوقیت دی گئی ہے ۔
درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
"حقہ پینا تہذیبی اعتبار ہی سے نہیں ثقافت کی رو سے بھی ایک مستحسن فعل ہے ثقافت کا لب لباب یہ ہے کہ رسوم (Rituals) کے ذریعے اپنے ماضی سے پوری طرح منسلک ہو جائے تا کہ قدیم ترین سرچشموں سے نکلنے والا امرت دھارا بغیر رکے آپ کی شریانوں تک پہنچ جائے۔
میں اس دھرتی کو ثقافتی اعتبار سے زوال آمادہ قرار دیتا ہوں جس میں تہوار منانے کا التزام باقی نہیں رہتا اور تجریدیت اس قدر توانا ہو جاتی ہے کہ انسان بالا بالا ہی اڑ جاتا ہے۔
سگریٹ پینا ثقافت کی رو سے ایک بے ثمر عمل ہے کیوں کہ یہ انسان کو ہوا میں تحلیل کر دیتا ہے۔
جب کوئی سگریٹ سلگاتا ہے تو سگریٹ کے مرغولوں کے ساتھ ساتھ تخیلات کی ایک دنیا بھی آباد کر لیتا ہے اور پھر ان تخیلات میں یوں کھو جاتا ہے کہ اسے گرد و پیش کا ہوش تک نہیں رہتا
سگریٹ تو ہائیڈ روجن گیس سے بھرا ہوا وہ غبار ہے جو انسان کو آسمان کی طرف اڑا لے جاتا ہے اور زمین اس کے پاؤں تلے سے نکل جاتی ہے
جب کہ حقہ اسے زمین کی سوندھی سوندھی باس سے آشنا کرتا ہے اور زندگی پر اس کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے
رسوم سے لطف اندوز ہونے کے اعتبار سے بھی سگریٹ پینا ایک قطعاً سپاٹ ساعمل ہے۔”
وزیر آغا کے انشائیے زندگی کی حقیقت کو فلسفیانہ انداز کے ساتھ ایک نئی طرز فکر میں پیش کرتے ہیں
اور یہی انداز انشائیہ کا بہترین جز اور خیال کی تازگی کہلاتا ہے۔
نمونے کے طور پر مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کریں:
"تقسیم کا وصف شاید عورت کی فطرت میں شامل ہے۔ جس طرح دھرتی ایک بیج کو سیکڑوں میں تقسیم کر دیتی ہے اور درخت خود کو لاکھوں شاخوں اور پتوں میں بانٹ دیتا ہے،
بعینہ عورت ازل سے اپنے گھر
کی کوٹھریوں اور سامان کو پوٹلیوں میں تقسیم کرتی آئی ہے۔
یہی نہیں بلکہ عورت تو اپنے جسم کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے اور یہ ٹکڑے جو مہذب زبان میں ”جگر کے ٹکڑے“ کہلاتے ہیں عورت کے جسم، دامن اور ہینڈ بیگ سے چھٹے اہرام مصر کے سائے میں دور دور تک بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ ہر باشعور رکھوالے پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ڈائری میں گھریوں کی تعداد کے علاوہ ان ٹکڑوں کی تعداد بھی رقم کرے اور پھر ان کی حاصل جمع کو از بر کرلے تا کہ منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد گنتی کے پیچیدہ عمل کو بخوبی سر انجام دیا جا سکے۔”
بہر حال اگر عورت تقسیم اور کثرت کے لیے ایک علامت ہے تو مرد جمع اور وحدت کا سمبل ہے اور عورت اور مرد کے اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھنا ہر عورت اور مرد کے لیے از بس ضروری ہے ۔”
وزیر آغا اپنے انشائیوں میں اختصار، ندرت اور معنی آفرینی پیدا کرنے کے لیے تشبیہ، استعارہ اور علامت جیسے شعری وسائل کا استعمال بھی بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں۔
وہ اپنی انشائی تحریروں کو اور زیادہ پر لطف بنانے کے لیے تمثیلی انداز بھی اختیار کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
"کھڑکی کسی بے جان سی شے کا نام نہیں ، جب تک یہ مقفل رہے تو بےجان ہے یا زیادہ سے زیادہ اسے زندہ درگور کہہ سکتے ہیں
مگر جب اس کے پٹ کھلنے لگیں اور ان میں ایک معمولی سی جھری بھی نمودار ہو جائے تو امکانات کے کئی سلسلے خود بخود وجود میں آجاتے ہیں۔
بعض کھڑکیاں شرمیلی ہوتی ہیں بس چق کے پیچھے کسی غنچہ نورس کی طرح نیم واسی ہوتی ہیں مگر اس طور کہ ان کی ہلکی سی لرزش ہی سے سامنے کی بالائی منزلوں کی ساری کھڑکیاں کھٹ سے پھولوں کی طرح چنگ جاتی ہیں
۔اور دلوں میں دھڑکنوں کا کہرام بپا ہو جاتا ہے۔ بعض کھڑکیاں بیباک ہوتی ہیں، اس قدر کہ جب ان میں سے کوئی ایک کھلتی ہے تو سارے محلے کی کھڑکیاں اس کی نگاہ کی گرمی کی تاب نہ لا کر فی الفور اپنی پلکیں جھکا لیتی ہیں
اور پھر پلکوں کے عقب میں تادیر کھسر پھسر کرتی رہتی ہیں ۔”
وزیر آغا معمولی سی معمولی شے کو بڑے ہی انوکھے اور شگفتہ انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس شے کے پہلو سے قاری پوری طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔
ان کے انشائیوں میں طنز و مزاح کی صرف ہلکی کی پھوار نظر آتی ہے، جس کا مقصد قاری کو صرف لذت کام و دہن میسر کر نا نہیں ہوتا بلکہ انشائیہ کی بوجھل فضا کو خوشگوار مضامین میں تبدیل کرنا ہوتا ہے
تا کہ قاری پوری دلچسپی کے ساتھ انشائیے کے رموز و اسرار سے واقف ہو جائے ۔ اور یہ ایک بہتر انشائیہ نگار کی اہم خصوصیت ہوتی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں