مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

وارث علوی اور انتقادِ شعر


وارث علوی اور انتقادِ شعر

اردو فنِ تنقید کئی ادوار سے گزر کر آج باقاعدہ ایک موضوع کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ اردو فنِ تنقید میں کن کن موضوعات کا غلبہ رہا، یا اردو فنِ تنقید کن کن گروہوں میں بٹتا رہا، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کن موضوعات نے اردو تنقید کو پھلنے پھولنے میں مدد دی اور کون سے نابغہ ناقدین کا اعتبار اردو تنقید کو میسر آیا؟

اگرچہ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ خواجہ الطاف حسین حالی ہی وہ پہلے فرد ناقد ہیں جنھوں نے اردو تنقید کو جدید شاہراہ پر گام زن کیا، لیکن ان کے متوازی اور بھی بہت سے ایسے نام موجود ہیں جنھوں نے "دامے درمے قدمے سخنے” اردو فنِ تنقید کو مہمیز کیا۔

اردو تنقید کا ارتقاء (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

اردو تنقید کا ہر دور نئے نئے موضوعات کو سمیٹتا رہا اور اس کا دامن وسعت کے دریا عبور کرتا رہا۔ آج فنِ تنقید سائنسی دسترس کا حامل ایک ڈسپلن بن چکا ہے۔

لفظ "سائنس” سے تشبیہ دینے سے مراد یہ ہے کہ فنِ تنقید نے کئی اہم نظریات کو جنم دیا ہے، جس سے اردو ادب کو بھی نئے موضوعات مل گئے ہیں۔

نئے اور اچھوتے نظریات کے حوالے سے ایک اہم نام وارث علوی کا بھی ہے، جنھوں نے اردو تنقید میں نئے انداز میں سوچنے اور پرکھنے کی طرح ڈالی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وارث علوی تنقید میں ایک جداگانہ حیثیت کے حامل ادیب ہیں۔

شاعری کی اہمیت اور تنقید (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

یقیناً مقدار، معیار اور مقبولیت کے پیشِ نظر، شاعری ادب کے کنبے کا اہم ترین فرد ہے اور نثر کے مقابلے میں اس کی اولیت مسلمہ ہے۔

البتہ اس کی صنفی اہمیت کے حوالے سے بھی بحث و مباحثہ ادبی حلقوں میں ہوتا رہتا ہے۔ کچھ ناقدین نثری ادب کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، تو کچھ صرف شاعری پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔

بقول آتش:

شاعری نگینے جڑنے اور موتی پرونے کا کام ہے۔ شاعر الفاظ کے موتیوں سے مالا تیار کرتا ہے اور اپنے موضوع کے حساب سے مضمون کو خوبصورت و دلکش بناتا ہے۔

شاعر اور ناقد کا توازن (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

مختلف قاری اور لکھاری اپنے اپنے تنقیدی ترازو میں اسے تولتے ہیں۔ شاعر کی تخلیقی کاوش پر اس کی ظاہری و باطنی خوبیوں کو سراہتے ہیں یا معترض ہونے کی صورت میں اس میں سے نقائص نکالتے ہیں۔

یقیناً یہ دونوں طرزِ عمل مکمل طور پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔ لطافت اور حسن ادب میں لازمی اجزاء ہیں۔ حسن دراصل ایک توازن کا نام ہے، اس لیے شعر و ادب پر اظہارِ خیال کا متوازن ہونا ضروری ہے۔

یہ صورت دیگر "تحسین” دوستی اور "تنقیص” دشمنی کہلائے گی۔

قدر شناسی اور وارث علوی (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

شاعر کی تخلیقی کاوش کی حمایت میں میاں محمد بخش اپنی کتاب سیف الملوک میں فرماتے ہیں:

شاعر بیچارا بڑے جتن سے اور مر مر کے شیشہ تیار کرتا ہے جب کہ ناقدرے ایک معمولی کنکر سے اسے توڑ دیتے ہیں۔

قدر شناس لوگ جہان میں کم ہی ملتے ہیں۔ ان گنے چنے شعر شناسوں اور شاعری کے قدر دانوں میں سے ایک اہم ترین نام وارث علوی کا بھی ہے، جنھوں نے شاعری اور شاعر سے اپنی محبت کا اظہار اپنی کتاب کچھ بچا لایا ہوں میں بڑے دلچسپ اور ڈرامائی انداز میں کیا ہے۔

شاعر کی تخلیقی دنیا (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

لفظ رنگ نہیں، لیکن شاعر اس سے تصویر بناتا ہے۔ ساز نہیں، لیکن وہ سنگیت کی تان لاتا ہے۔ سنگ نہیں، لیکن وہ مجسمے تراشتا ہے۔ زبان شاعر کے لیے بند ڈبے کا گوشت نہیں بلکہ خون میں نہایا ہوا شکار ہے، جسے دیکھ کر، چھو کر، چکھ کر، سونگھ کر شاعر کے پانچوں حواس جاگ اٹھتے ہیں۔

نقاد، دیوارِ آہن اور دریائے آتشیں پار کر کے شاعر کے پاس پہنچتا ہے۔ شاعر جانتا ہے کہ وہ کیوں آیا ہے۔

شاعر کہتا ہے:

جو کچھ ہوا وہ اس دنیا میں ہوا، جس میں تم بھی تھے اور میں بھی تھا۔ سائنسدان، فلسفی، مذہبی پیشوا اور سیاسی لیڈرز بھی تھے۔ اگر تاریخ کے خوں چکاں واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا، تو انھیں روکنے کی طاقت ان لوگوں کے پاس زیادہ تھی۔ اب اس بحث سے کیا فائدہ کہ جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون تھا؟

اس طوفانِ خاک و خون سے، جس میں اتنا سب کچھ تباہ ہوا، میں زبان کو بچا لایا ہوں تاکہ ہم کچھ نہیں تو زخمِ دل کا شمار تو کر سکیں۔ کیا میری اس کوشش کی کوئی قیمت نہیں ہے؟

وارث علوی کے ادبی نظریات (وارث علوی اور انتقادِ شعر)

وارث علوی نے مختلف موضوعات اور نظریات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر شاعری اور ادب میں نظریہ سازی کے حوالے سے انھوں نے کئی مباحث کا تذکرہ کیا ہے۔

ان کے نظریات ادب سے ہم آہنگ ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کے نظریے کو ادب کے لیے ضروری خیال نہیں کرتے۔

حوالہ جات
مقالے کا عنوان: وارث علوی بطور نقاد
محقق: ڈاکٹر تحسین فاطمہ

نگران: پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین
یونیورسٹی: شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سال: 2019


اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں