ولی دکنی کی غزل گوئی کی خصوصیات

ولی دکنی کی غزل گوئی کی خصوصیات


ولی دکنی کا تعارف

ولی دکنی 1667 کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ولی دکنی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل گجرات انہیں گجرات کا باشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد ہے۔ ولی کے اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دکنی تھے۔

ولی دکنی کا تعارف pdf

1. ولی کی شاعری اور محبوب کا تصور

ولی کی شاعری پڑھتے ہوئے اس کے ایک محبوب کا تصور بھی ہمارے سامنے آتا ہے اس کا کوئی بھی نام نہیں۔ ولی اسے مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی”ساجن“ کہتا ہے اور کبھی ”پیتم“ کبھی ”لالن“ کہا ہے۔ تو کبھی ”من موہن“ کبھی محشر ناز وادا کا خطاب دیتاہے۔

تو کبھی ”فتنہ رنگیں ادا“ کا ان تمام ناموں سے اُس کی والہانہ محبت اور وارفتگی عشق کا پتہ ملتا ہے۔ اس کی صداقت محبت میں تو کچھ کچھ کلام ہی نہیں، بلکہ عقل کہتی ہے کہ اس مبالغہ حسن میں بھی کچھ نہ کچھ اصلیت ضرور ہے۔ ولی کا ساجن اردو شاعری کا روایتی محبوب نہیں ولی کا محبوب ”من موہن“ ،”شریف“ ،”خودار“ پاک نفس اور با حیا ہے۔

ولی دکنی کا تعارف بطور غزل گو شاعر pdf

2. حسن و جمال کا اہم موضوع

گرنہ نکلے سیر کو وہ نو بہار
ظلم ہے فریاد ہے افسوس ہے
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رخ سوں
خطاب آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
ولی کی شاعری میں حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔ ولی سے پہلے کسی شاعر، حسن و جمال کابھرپور اور کامیاب تصور نہیں دیا۔ اسی لیے ڈاکٹر سے د عبد اللہ نے ولی کو جمال دوست شاعر کا لقب دیا ہے ان کی حسن پر ستی میں سرمستی وارفتگی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں ان کی حسن پرستی میں سرمستی اور سر خوشی کا رنگ نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ وہ حسن کو کسی ایسے تجربے کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ جس سے اُن کی روح اور جسم میں سرمستی کی لہریں پیداہوتی ہیں۔ خود کو اس تجربے کے محسوسات میں گم کر دے نا چاہتے ہیں ان کی حسن پرستی صحت مندانہ انداز کی ہے۔

ولی دکنی تعارف اور شاعری آرٹیکل pdf

وہ حسن کو کسی ایسے تجربے کی بنیاد نہیں بناتے جو جنسی ہو اور جس سے صرف نفسانی خواہشات کا تعلق ہو یہی وجہ ہے کہ ولی کے ہاں جنسیت و احساساتِ حسن آفاقی تصورات کا حامل محسوس ہوتے ہیں وہ حسن کے احساس سے روح کی بالیدگی اور من کا سرور حاصل کرتے ہیں۔

3. ولی دکنی کا تعارف اور پس منظر

نکل اے دلربا گھر سوں کہ وقت بے حجابی ہے
چمن میں چل بہار نسترن ہے ماہتابی کا
آج گل گشت چمن کا وقت ہے اے نو بہار
بادہ گل رنگ سوں ہر بام گل لبریز ہے

4. اردو غزل کی شروعات اور ولی کا کردار

اردو غزل کی ابتداء دکن میں ہوئی۔ محمد قلی قطب شاہ پہلے غزل گو شاعر ہیں۔ مگر چونکہ ولی دکنی نے سب سے پہلے اپنا دیوان مرتب کیا اور فارسی غزل کی روایت اور مضامین کو اردو میں مروج کیا،اس لیے اسے اردو کا پہلا غزل گو شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔

جب ولی دکنی کا دیوان دہلی پہنچا تو شعرا میں ایک ہمہ گیر تحریک کا باعث بنا۔ وہ شاعر جو اردو میں شعر کہنا کسر شان سمجھتے تھے اب دھڑا دھڑ اردو میں لکھنے لگے اور دیوان مرتب کرنے لگے۔ اسی وجہ سے آزاد نے ولی کو اردو غزل کا باوا آدم قرار دیا ہے۔

5. ولی دکنی کی شاعری کی منفرد پہچان

ولی دکنی کا اصل نام شمس الدین تھا وہ ولی تخلص استعمال کرتے تھے اورنگ آباد میں پیدا ہوئے ان کے سن پیدائش کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میر تقی میر کے نکات الشعراء کے مطابق 1668ء ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں خارجی عناصر اور بیرونی زندگی کی جھلکیاں نمایاں تھیں وہ حسن فطرت اور قدرتی مناظر کی بات کرتے تھے۔

ولی دکنی کی شاعری کا آغاز اگرچہ روایتی انداز میں ہوا تھا مگر جب اس نے سعداللہ گلشن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کی جو نہ صرف ان کی انفرادی پہچان کا باعث بنی بلکہ ان کی شاعری کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ولی نے 456 غزلیات، دو مثنویاں اور دو قصائد تحریر کیے۔ ولی دکنی کو غزل کا امام کہا جاتا ہے۔

6. ولی دکنی کی شاعری کی خصوصیات اور موضوعات

محمد حسین آزاد نے آب حیات میں ولی دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم قرار دیا ہے۔
ولی دکنی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
موج دریا کوں دیکھنے مت جا
دیکھ زلف عنبرین کی ادا
مسند گل منزل شبنم ہوئی دیکھ رتبہ دیدہ دیدار کا
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

7. ولی دکنی کی تخلیق کی عکاسی

ولی کو اردو ادب کا سب سے بڑا سراپا نگار شاعر بھی مانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعیت اور تخیل کی مدد سے اپنے محبوب کے حسن کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کی ہیں ان کے اشعار سے محبوب کی خوبصورت تصویریں بنتی ہیں۔

8. ولی دکنی کی شاعری میں حسن کی عکاسی

مثلاً
وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا


وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں