کتاب کا نام ۔۔۔۔ تاریخ ادب اردو 2
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5602
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ ولی دکنی کے سوانح حیات
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 21تا24
مرتب کردہ ۔۔۔۔ Hafiza Maryam
ولی دکنی کے سوانح حیات
اب تک ہم نے اردو زبان کے ایسے روپ دیکھے جن میں وہ ہندی ہندوی ، ریخته ، گجری ،د کنی، کہلائی۔ یہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کی تشکیل اور صورت پذیری میں پنجاب گجرات اور دکن کے چند اہم اور نامور صوفیاء شعراء اور اہل قلم کی تخلیقی مساعی کا بھی مختصر سا تعارف پیش کیا گیا۔ اب تک کے لکھے سے منجملہ دیگر امور کے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہو گی کہ جس زمانہ میں پنجاب گجرات اور دکن میں اردو زبان تخلیقات سے امیر بن رہی تھی اس زمانہ میں دہلی میں اردو زبان غریب الوطن تھی۔ اگر چہ اردو عام بول چال کے لئے کار آمد ثابت ہو رہی تھی۔ شاہجہاں جب شاہجہاں آباد فتح کر کے لال قلعہ میں تخت طاؤس پر جلوہ افروز ہوتا ہے تو اسے اردوئے معلی نام دیتا ہے۔ گو یا عام عوام کے ساتھ امراء خواص اور شاہی خانوادہ کے لوگ بھی اردو بولتے تھے تاہم تخلیقی مقاصد کے لئے اردو ہنوز ناموزوں یا پھر نا معتبر سمجھی جاتی تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ گھٹا تلی ہوتی ہے لیکن موسلا دھار بارش کے لئے پہلے قطرہ کی ضرورت ہوتی ہے تو بس یوں سمجھ لیجئے کہ دہلی میں بھی اردو زبان سے وابستہ تخلیقی امکانات کی گھٹا تلی تھی مگر پہلا قطرہ نہ گرا تھا۔ اور یہ پہلا قطرہ ثابت ہوئے ولی :
ولی تو بر معانی کا ہے خواص
ہر اک مصرع ترا موتیاں کی لڑ ہے
جس طرح قدیم زمانے کے متعدد شعراء کے نجی کوائف یا تو نا پید ہیں یا متنازعہ ہیں اسی طرح ولی کے اصل نام مقام اور تاریخ پیدائش کے ضمن میں محققین میں خاصہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ان کا نام شمس الدین محمد ولی شاہ ولی اللہ ، شمس ولی اللہ اور ولی الدین ولی بتایا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح جائے پیدائش کے بارے میں بھی اختلاف رائے ملتا ہے۔ بعض نے گجرات وطن بتایا جبکہ میر تقی میر نے تذکرہ نکات الشعراء میں اورنگ آباد وطن لکھا مختلف علاقوں سے تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر ظہیر الدین مدنی اپنی کتاب کا نام ولی گجراتی ( بمبئی 1950ء ) رکھتے ہیں تو ڈاکٹر عبادت بریلوی ” دلی اورنگ آبادی ( لاہور : 1981 ء ) ۔ ولی کی تاریخ وفات اور مقام تدفین کے بارے میں بھی متضاد آراء ملتی ہیں۔ احمد آباد (گجرات) حیدر آباد (دکن) کے شہر بتائے جاتے رہے ہیں۔ محققین کا پیدائش اور انتقال کی تاریخوں پر بھی اتفاق نہیں ۔ تاہم اب بالعموم سن ولادت 1668ء / 1109 ھ اور 1707ء / 1119ھ ۔ وفات کا سال درست باور کیا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی نے دلائل سے انتقال کی تاریخ غلط ثابت کر کے وفات کا سن 1720-25ء کے درمیان متعین کیا ہے۔
( تاریخ ادب اردو ص : 539)
ولی صوفی منش ، آزاد خیال غیر منصب اور سیر و سیاحت کے دلدادہ تھے۔ ان کے قریبی احباب میں ہندو اور مسلم دونوں ہی ملتے ہیں جیسے کھیم داس نہید لال امرت لال ، شمس الدین محمد مراد محمد یار خان اکمل سید ابو العالی اور گوید لال ۔ ان میں سے بعض احباب پر انہوں نے اشعار بھی لکھے۔
2 – ولی کی دہلی میں آمد
ہم نے آغاز میں جو لکھا تھا کہ ولی نے دہلی میں اردو شاعری کے سلسلے میں پہلے قطرہ کا کام کیا۔ اگر چہ ادلی لحاظ سے یہ بات درست ہے لیکن محققین ولی کی دہلی میں آمد پر بھی متفق نہیں بعض کے بموجب ولی 1700ء میں اپنے دوست سید ابو العالی کے ہمراہ دہلی میں آئے بعض کے خیال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ دہلی میں آئے۔ دوسری مرتبہ 1720ء میں۔ ان کے برعکس بعض محققین کے مموجب وہ سرے سے دھلی میں آئے ہی نہ تھے صرف 1781ء میں ان کا دیوان لایا گیا تھا۔ تاہم ایک مرتبہ آمد پر تقریبا سبھی کا اتفاق ہے کیونکہ اگر ولی سرے سے دہلی میں آئے ہی نہیں تو پھر اس عہد کے مشہور صوفی شاہ سعد اللہ گلشن کاده مشوره افسانه بالعہ جعل سازی من جاتا ہے جس کا میر تقی میر نے ” تذکرہ نکات الشعراء میں ذکر کیا ہے۔
واضح رہے کہ اگر چہ ولی کی زبان قلی قطب شاہ و جہی نصرتی اور غواصی وغیرہ کے مقابلہ میں خاصی صاف
تھی لیکن پھر بھی دکنی عناصر سے پاک نہ تھی۔ اس لئے ولی کا اسلوب بیان اہل دہلی کو شاید ہو اور اس کی طرف شاہ سعد اللہ گلشن نے توجہ دلا کر کہا :
تم دکنی زبان ترک کر کے شاہجہاں آباد کی اردوئے معلی میں ریختہ موزوں کرو تا کہ حصول شہرت کے ساتھ ساتھ اعلی مزاج کے حامل اصحاب کی پسند کے بھی
مطابق ہو”
(عبد السلام ندوی شعر المند جلد اول، عظم گڑھ 1947 ء مطبع سوم مص : 26)
جبکہ میر تقی میر کے نکات الشعراء میں یہ نصیحت ملتی ہے :
یہ جو اتنے مضامین فارسی میں مکار پڑے ہیں انہیں اپنے ریختہ میں بروئے کار لاؤ۔
تم سے بھلا کون پوچھے گا "
(میر تقی میر نکات الشعراء لاہور ادارہ ادب و تنقید (1980 اء مص : 94)
شاہ سعد اللہ گلشن کے عہد میں دہلی میں اردو کا جو بھی تخلیقی مزاج ہو مگر اتنا ہے کہ اہل دہلی دکنی زبان کے قائل نہ تھے۔ جبھی تو قائم یوں تعلیٰ کرتا ہے
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اکسبات لچری بزبان دکنی تھی
بہر حال ولی نے شاہ صاحب کی نصیحت پہلے باندھی اور اسلوب کو بتدریج فارسی آمیز کرتے گئے اس حد تک کہ بعض اشعار تو آج کے معلوم ہوتے ہیں۔
3- دیوان ولی کی اشاعت
ولی کا دیوان سب سے پہلے مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے 1833ء میں پیرس سے شائع کیا۔ پروفیسر ثریا حسین کے بموجب بڑے سائز کے 144 صفحات تھے اور ہر صفحہ کی 28 سطریں تھیں۔
ریا حسین پروفیسر مگار میں دتاسی اردو خدمات علمی کارنا ہے الکھنو اتر پردیش اردو اکادمی 1984 ء ص : 73)
1873ء میں محمد منظور نے بمبئی سے دیوان شائع کرایا ۔ 1878ء میں نول کشور نے لکھنو سے اور 1922-23 میں پونا سے بھی شائع ہوا۔ 1927ء میں احسن مارہروی کا مرتبہ مولوی عبدالحق کے مقدمہ اور ضمیمے کے ساتھ کلیات انجمن ترقی اردو ہند اورنگ آباد کے زیر اہتمام چھپا اور پھر سید نور الحسن ہاشمی نے (دہلی 1945ء) میں کلیات مرتب کی۔ سال بعد دوسرا ایڈیشن طبع ہوا۔ 1954ء میں انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے کراچی سے میں ایڈیشن شائع کیا۔ لکھنو سے 1982ء پھر لاہور سے 1996ء میں انور الحسن ہاشمی نے الحاقی اشعار خارج کر کے ہر لحاظ سے کلیات کو مستند بنانے کی سعی کی ان کے شمار کے مطابق ولی کی غزلیات کی تعداد 404 ہے۔ ہاشمی صاحب کی گفتی کے مطابق ولی کے کلیات میں فردیات (82) رباعیات (26) مخمسات (9) مستزاد (3) قصاید (6) ترجیح د
(2) مثنویات (2) قطعات (1) ملتے ہیں۔
گارساں دتاسی نے دیوان ولی کے ساتھ جو مقدمہ لکھا اس میں اس رائے کا اظہار کیا۔
ہندوستان کے اور دوسرے صاحب دیوان شعراء کے مقابلہ میں ولی کو ایک خصوصیت حاصل ہے۔ لی روسو کے گیت فرانسیسی ادبیات میں امتیاز رکھتے ہیں۔ اس طرح ولی کا کلام ہندوستانی زبان میں ہے ۔ مجھے پوری توقع ہے ۔ کہ ولی کے دیوان کو بھی ہندوستانی ادبیات کے شائقین ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اس کے ذریعہ سے اسلامی ہند کے ایک بڑے شاعر کے طرز نگارش سے لوگوں کو واقفیت حاصل کرنے کا موقع بہم پہنچے گا ۔ وہ بابائے ریختہ کے نام سے مشہور تھے ۔
گار سال و تاسی نے دیوان ولی کا جو مقدمہ فرانسیسی زبان میں قلم یہ کیا تھا ڈاکٹر یوسف حسین خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا (ملاحظہ ہو سید محمد کی مرتبہ یادگار ولی) اقتباس حوالہ ولی اور تنگ آباد ڈاکٹر عبادت بریلوی ص : 1-100)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں