واجدہ تبسم کی ادبی خدمات: ایک جائزہ
موضوعات کی فہرست
واجدہ تبسم کی ادبی زندگی کا آغاز ۲۶ ستمبر ۱۹۵۵ میں شائع ہونے والی ان کی کہانی سے ہوا جو کہ اس دور کے موقر اخبار ہفتہ وار آئینہ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد لگاتار ان کی کہانیاں اردو کے مستند اور موقر رسائل شمع ، شاعر، شاہراہ، بیسویں صدی وغیرہ میں شائع ہونے لگیں۔
افسانہ نگاری کا آغاز
افسانوی مجموعہ شہر ممنوع میں واجدہ تبسم اپنی افسانہ نگاری کے آغاز کے متعلق بعنوان ”میری کہانی“ میں لکھتی ہیں:
انھیں دنوں دلی سے ایک ویکلی "آئینہ” شائع ہونے لگا۔ اس میں ایک مستقل عنوان ہوا کرتا تھا۔ میری یادداشت سے۔ اس کے تحت کوئی ناقابلِ فراموش واقعہ اپنی یادداشت سے چن کر لکھنا پڑتا تھا۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ایک دن یونہی وہ واقعہ لکھ ڈالا جو مجھے انٹر کا امتحان دیتے وقت پیش آیا تھا۔ اس دن مجھے ایسا سکون ملا جو میں کبھی لفظوں میں بیان نہ کر سکوں گی ۔
اس احساس کو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے شاید مجھے نئے الفاظ وضع کرنے پڑیں گے۔ جو میرے اپنے بس کا روگ نہیں ۔ اس رات جب وہ روداد لکھنے کے بعد میں اپنے بستر پر لیٹی تھی تو مجھے یوں لگا تھا جیسے میں، جو ایک مدت سے کڑی دھوپ میں چلتی آرہی ہوں۔ آج ٹھنڈے سائے تلے آگئی ہوں۔
یوں میری افسانہ نگاری کا آغاز ہوا۔
میرے اپنے ذاتی دکھ کے علاوہ بھی کئی واقعے اور حادثے ایسے تھے جنھوں نے میرے دل کو کرچی کرچی کر رکھا تھا۔ اب میں بڑے انہماک سے انھیں لفظوں کا روپ دیتی اور چھپوانے کو بھیج دیتی۔ (۵۳)
ترقی پسند دور میں واجدہ تبسم کا مقام
ترقی پسند دور کی خواتین افسانہ نگاروں میں واجدہ تبسم کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔ وہ معاشرے میں تبدیلی کی خواہاں تھیں، ایک حساس ذہن کی مالکہ تھیں اور روایت سے بغاوت کا جذبہ لے کر پیدا ہوئیں تھیں۔ انھوں نے ایک لمبے عرصے تک حیدر آباد (دکن) کی زندگی اور اس کے ماحول کا ہر زاویے سے مشاہدہ کیا۔
جس میں اس کی زبان، رہن سہن ، رکھ رکھاؤ، عادات و اطوار، جاگیردارانہ ماحول، نوابوں کی عیش پرستانہ زندگیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔ انھوں نے حیدر آباد کی جاگیردارانہ اور نوابی ماحول پر مختلف کہانیاں لکھیں، جو بے حد مشہور ہوئیں ۔
حیدر آبادی ماحول پر مبنی تخلیقات
ان کی حیدر آبادی ماحول پر لکھی گئیں تخلیقات میں شہر ممنوع “ ۱۹۶۱، کیسے سمجھاؤں“ ۱۹۷۸، روزی کا سوال ۱۹۷۸، پھول کھلنے دو وغیرہ افسانوی مجموعے اور نتھ کا غرور، کیسے کاٹوں رین اندھیری، نتھ کا زخم وغیرہ ناول کافی مشہور ہوئے۔
حیدر آبادی تہذیب و تمدن کے سلسلے میں وہ اپنے افسانوی مجموعے اترن میں قوس خیال کے عنوان سے لکھتی ہیں:
قدرت کا ایک بڑا اٹل قانون یہ بھی ہے کہ ظلم کا پیمانہ جب بھر جاتا ہے تو اس کا ان دیکھا ہاتھ اس پیمانے کو اوندھا دیتا ہے۔ حیدر آباد دکن کی شاندار تاریخ کا دردناک المیہ میں نے ہی نہیں سبھوں نے دیکھا ہے۔ لوگ اسے سیاسی روپ دیتے ہیں ، دیتے رہیں۔ میں اپنی زبان میں اسے آہوں کی لپیٹ کہتی ہوں جس نے تاریخ کا نقشہ بدل دیا۔ (۵۴)
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: بیسویں صدی کی اہم افسانہ نگار
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: آمنہ خان
- نگران مقالہ: ڈاکٹر مشیر احمد
- یونیورسٹی: جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
- صفحہ نمبر: 306-305
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مسکان محمد زمان