اردو زبان کی پیدائش

کتاب کا نام: تاریخ ادب اردو 1

عنوان: اُردو زبان کی پیدائش

صفحہ نمبر:12تا 13

مرتب کردہ: ارحم

__🌹___

اردو زبان کی پیدائش

جہاں تک اردو زبان کی جائے پیدائش تشکیلی مراحل اور پھر مخصوص صورت پذیری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ماہرین لسانیات نے خاصی خامہ فرسائی کی ہے اور لسانیات کا بحیثیت مجموعی مطالعہ کرنے پر یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اردو زبان کی جائے پیداش پر دیا جاتا ہے زبان کوئی انسان نہیں کہ جس کی جائے پیدائش قطع طور پر تعین ممکن ہو زبان انسان تو نہیں ہاں انسانوں کی ضرور ہے

اینٹ پتھر کی مانند الفاظ مادی وجود نہیں رکھتے ان کا وجود اور ساتھ ہی عمر میں اس کے استعمال سے مشروط ہے چنانچہ فرد افراد گروہ قوم کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی حیات پاتے سفر کرتے ہیں اور ماضی کے ساتھ حال اور مستقبل میں بھی اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ قوموں اور نسلوں کے معدوم ہونے کے ساتھ ان کی عمارت کی مانند ان کی زبانیں بھی آثار قدیمہ میں شمار ہوئی

ہم اردو ہندی تامل مراٹھی وغیرہ چند معروف زبانوں کے ناموں سے اشنا ہیں جبکہ اس بر صغیر میں چھوٹی بولیوں اور بڑی زبانوں کی تعداد ہزاروں تک نہیں تو سینکڑوں تک پہنچی ہے اس لسانی طلوع کا سب نے واجب اس خطے کی وسعت ہے آج برصغیر تین ممالک میں منقسم ہیں مگر نصف صدی بہتر یہ ایک تھا ایسا جس کی تاریخ بہت قدیم ہے جس میں مختلف اوقات مختلف زبانیں اور ہونے والی اقوام اور نظریں آ کر آباد ہوئی ہیں یہاں آباد ہونے والے گروہوں قوم اور متنوع نسلیں اپنی ثقافت اساطیر لباس خوراک زبانیں بھی ساتھ لائیں اگرچہ کچھ عرصے کی بدو باش کے بعد اس خطے کی ہو کر رہ گئی لیکن ان کی زبان و ثقافت اور اساطیری کے قومی عناصر نے اپنا تشخص برقرار رکھا شاید کہ یہی وجہ ہے کہ بظاہر یک رنگی کے باوجود اختلافات کی عمروں کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کبھی تو پنجاب سرحد چترال جدا گانا نظر آتے ہیں بھارت میں تو یہ احساس اور بے شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب تامل بنگال صوبے نہیں بلکہ جداگانہ خطے محسوس ہوتے ہیں

لسانی اور ثقافتی تنوع کے لحاظ سے برصغیر پاک و ہند منفرد حیثیت رکھتا ہے ادھر جغرافیہ نے اردو خیبر کی صورت میں ایک ایسا راستہ مہریہ کیا کہ شمال کی جانب سے ہجرت اور حملوں کا سلسلہ جاری رہا فاتحین پانچ دریاؤں کی سرزمین قابض ہو جاتے یہاں آباد ہو جاتے یہاں کے کچھ طور طریقے اپنا بھی لیتے مگر اپنی ثقافت روایت رسوم اور زبان بھی برقرار رکھتے

مفتوحین اور شکست خورد اقوام رعایا بن کر رہے تھےاور کچھ جنوب کا رخ کر لیتی جب چار ساڑھے چار ہزار برس قبل آریہ یورپ سے نکلے اور پنجاب میں وارد ہوئے تو انہوں نے پہلے سے آباد دراوڑ، کول وغیرہ نسلوں سے شمال ہند کا خطہ خالی کرا لیا دراڑوں نے جنوب کا سفر اختیار کیا اور کچھ بلوچستان بھی جا بسے بلوچستان کے مکرانے اور تامل ناڑوں کے باشندے اسام اور اڑیسہ کے بعض قبائلی جیسے بھیل ،کول اور نسل سے متعلق سمجھتے تھے محققین ماضی میں تحقیقات تک بہت دور جا پہنچے چنانچہ اب یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اس خطے میں دراڑوں سے بھی پہلے منڈا نسل کے لوگ آباد تھے ہم نے چند سطروں سے جو کچھ بیان کیا ہے یہ بے حد متنازعہ اور الجھے مباحث ہیں اساطیری اور علم انسان کے محققین اس ضمن میں تحقیقات بھی کی خامہ فرسائی بھی کی پھر بھی یہ احساس باقی رہا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہندوستان میں صوبوں سے تہذیبی ثقافت اور لسانی عوامل کا تال میل جا رہی تھا کہ مسلمانوں نے اس کا خطا کا رخ کیا مگر شمال سے آنے والے دیگر تمام کی مانند مسلمان صرف ایک طرف ہی ہندوستان میں ورد نہ ہوئے بلکہ تین اطراف سے یعنی شمال پنجاب مغرب سندھ اور جنوب، جنوبی ہندو کا مغربی ساحل، پنجاب اور سندھ پر مسلمان حملہ آور ہوئے قابض ہوئے حکومت قائم کی اور پھر بودوباش اختیار کی جبکہ ان کے برعکس جنوب میں بغرض تجارت مسلمانوں کی آمد کا آغاز ہوا واضح رہے کہ جنوبی ہند سے عربوں کے تجارتی روابط قبل اسلام ہی سے تھے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں