اردو تحقیق صورتِ حال اور تقاضے | Urdu Tehqiq: Soorat-e-Haal aur Taqazay
تحریر: جابر حسین،ریسرچ سکالر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد
اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے
جناب قابلِ صداحترام ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی کتاب ہے۔ڈاکٹر صاحب موجودہ دور میں پاکستان کے مایۂ افتخار گنے چنے اردو محققین میں ایک معتبر اور بڑے محقق ہیں ۔یہ کتاب ان کےبعض ایسے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے تحریر کیے اور جو ملک کے مختلف جرائد اور تحقیقی مجلات میں چھپے۔کتاب میں کچھ کتابوں پر لکھے گئے تبصرے بھی شامل ہیں۔
بعض مضامین ایسے بھی ہیں جو اس کتاب میں شامل ہونے سے پہلےالگ کتابچوں کی صورت میں چھپے۔کتاب کا غالباً ایک چوتھائی حصہ اُن مقالات پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف سیمیناروں میں پیش کیے ۔
یہ کتاب پہلی بارمقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے ۲۰۰۸ میں اور دوسری بار کچھ اضافوں کے ساتھ القمر انٹر پرائزز لاہور سے۲۰۱۴ میں چھپی اور بعض پاکستانی جامعات میں اردو ایم فل/ پی ایچ ڈی کے نصاب میں بھی شامل رہی۔
کتاب بنیادی طور پر اپنے تحقیقی موضوعات اور واجب الاحترام ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی کد و کاوش کے اعتبار سے تو بلا شبہ لائقِ ستائش و قابلِ قدر ہےلیکن بعض تحقیقی سہویات اورکچھ ایسے فنی مسائل کتاب میں راہ پا گئے ہیں جن کے باعث اس وقیع کاوش کیOrignalityاور اردو تحقیق کی راہنما کتاب ہونے کی حیثیت کو ٹھیس پہنچی ہے ۔
زیرِ نظر مضمون میں کتاب کا پہلا ایدیشن کو پیشِ نظر رہاہے۔ امید و توقع تھی کہ کتاب کےدوسرے ایڈیشن میں ڈاکٹر صاحب متذکرہ مسائل اور سہویات کی جانب توجہ دے کر ان کو رفع کر دیں گے لیکن شاید ان مسائل کی جانب ان کی توجہ مبذول نہیں ہوئی اور کتاب کے دوسرے ایڈیشن(۲۰۱۴) میں بھی پہلے ایڈیشن(۲۰۰۸) میں موجود سہویات و مسائل بعینہ موجود رہیں۔
یہاں انہی مسائل و فروگزشتوں کی جانب واجب الاحترام ڈاکٹر صاحب کی محض توجہ دلانا مقصود ہے ۔ مجموعی طور پر مسائل و فروگزشتوں کی نوعیت چار طرح کی ہے۔
ان فروگزشتوں اورسہویات کا تعلق زیر نظر کتاب میں ذکر کردہ کتابوں کے ناموں اور ان کےسنین کے اندراج، مواد کی تکرار اور پہلے بیان کردہ کسی مدعا کی دوسری جگہ تردید جیسے امور سے ہے۔اس مضمون میں انہی امور کا تفصیل سےجائزہ لیا گیا ہےنیز درست سنین کے اندراج اورتکراری مواد و صفحات کی کمیت و کیفیت کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بعض تحقیقی فروگزشتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
الف: کتابوں کے ناموں اور ان کےسنینِ اشاعت و کتابت
فاضل مصنف نے اپنے مضامین میں ایک جگہ ایک کتاب کا پورا نام درج کیا ہے جبکہ کسی دوسری جگہ نام کے بعض الفاظ درج نہیں کیے ہیں یا نام کو ردّوبدل کر کے درج کیا ہے جس سے قاری اس غلط فہمی و اشتباہ کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشہور محقق گارساں دتاسی کی ایک کتاب کے نام کو ملاحظہ کیجیے جسے فاضل مصنف نے دو مختلف مقامات پریوں درج کیا ہے۔
۱۔ تاریخ ادب ہندوستانی(۱)
تاریخ ادبیات ہندوی و ہندوستانی (۲)
کتاب کا اصل نام تاریخ ِادبیات ہندوی و ہندوستانی ہے جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اردو میں اس کا ترجمہ جامعہ کراچی کے شعبۂ اردو نے کروایا تھا۔
۲۔ ڈاکٹر محمد صادق کی کتابTwentieth Century Urdu Literature بڑودہ سے ۱۹۷۴ء میں انگریزی زبان میں چھپی۔ ترمیم و اضافہ کے ساتھ کراچی سے ۱۹۸۲ء میں چھپی۔ ترمیم و اضافے کے ساتھ چھپنے والے اس ایڈیشن کے سن کے اندراج میں سہل انگاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔مثلا صفحہ نمبر ۱۶۱،سطر نمبر ۱ میں کتاب کا سنِ اشاعت ۱۹۸۳ء لکھا گیا ہے جبکہ صفحہ نمبر ۲۹۳،سطر نمبر ۱۴ میں ۱۹۸۲ء لکھا گیا ہے۔
۳۔ عین الحق فرید کوٹی کی “اردو زبان کی قدیم تاریخ” کی ایک ہی اشاعت کے حوالے سے اندراج سنین ملاحظہ کریں:
صفحہ نمبر ۳۳ میں اس کتاب کا سنِ اشاعت ۱۹۷۳ء لکھا گیا ہے جبکہ صفحہ نمبر ۱۸۹میں اسی کتاب کا سنِ اشاعت ۱۹۷۲ء مرقوم ہے۔
۴۔ ڈاکٹر محمد ایوب قادری کے پی ایچ ڈ ی کے مقالے کا عنوان یہ تھا “اردو نثر کے ارتقا میں علما کا حصہ”۔ یہ مقالہ جامعہ کراچی میں ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے پیش کیا گیا۔ اس کے سن کا اندراج یوں کیا گیا ہے۔
۱: “۔۔۔ جامعہ کراچی نے ۱۹۷۸ء میں انھیں ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے” (۳)
۲: “۔۔۔ ۱۹۸۰ء میں ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے” (۴)
۳: “۔۔۔ ۱۹۸۰ء میں ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے” (۵)
ب: متزلزل رائے
فاضل مصنف پاکستان میں اردو تحقیق کی کیفیت و رفتار پر جب قلم فرسائی کرنے لگتے ہیں توایک صفحے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں تو دوسرے ہی صفحے پر اپنےسابقہ اظہار اطمینان کو عدم آشنا کر دیتے ہیں۔ بطور مثال ملاحظہ کیجیے۔
“پاکستان میں اردو تحقیق کا معیار اور اسکی رفتار بھارت سے کسی طرح کم نہیں ۔۔۔” (۶)
دوسرے ہی صفحے پر متذکرہ بالا رائے یا تحقیقی کاوشوں کو استثنائی مثالیں قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
“۔۔۔جو کچھ بھی مستحسن تحقیقی کام یہاں ہوئے ہیں وہ دراصل استثنائی مثالیں ہیں اور ان سب کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ وہ جدید اصولوں کے مطابق کیے گئے ہیں، صحیح نہ ہوگا”۔(۷)
پاکستان میں اردوتخلیق و تحقیق کی مجموعی صورت حال کو ایک جگہ ناقابلِ اطمینان قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“پاکستان میں ادبی تخلیق و تحقیق کی موجودہ صورت حال بحیثیت مجموعی قابل اطمینان نہیں کہی جاسکتی”۔(۸)
اسی کتاب میں ایک جگہ تحقیق سے متعلق اپنی گزشتہ آراء کو سرسری جائزے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے نیز اپنی رائے میں واقع ہونے والے تزلزل کا اعتراف کرتے ہوئے فاضل مصنف یوں رقم طراز ہوئے ہیں:
“۔۔۔زیر نظر جائزہ تحریر کرتے ہوئے پاکستان میں تحقیق کے معیار اور اسکی رفتار کے بارے میں جس بے اطمینانی کا اظہار اولاً کیا گیا تھا اس میں تزلزل واقع ہوتا رہا۔ مذکورہ تاثر ایک سرسری جائزے کا نتیجہ تھا۔ (۹)
سرسری مطالعات کو پیش کرنا اولاً تو خود دقیق تحقیقی روش پرسوالیہ نشان ہے۔ ثانیاً تحقیقی میدان کی طرف میلان رکھنے والے نوآموز اہل قلم کی پریشانی اور تضیعِ وقت کا سبب بنتا ہے۔ ثالثاً خود فاضل مصنف کی تحریروں اور کاوشوں کے اعتبار و استناد کو درجۂ قطع سے گرانے کا سبب بنتا ہے۔
ج: دقیق روشِ تحقیق
دقیق روشِ تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی مصنف کے تحقیقی کام کے سلسلے میں جو رائے دی جائے وہ اصل حقائق کو پیش نظر رکھ کر نیز تعصبات وذاتی تعلقات کے دائروں سے بالاتر ہو کر دی جائے۔ زیربحث کتاب میں بعض مقامات پر یہ خامی نظر آتی ہے۔مثلا فگار دہلوی کے منتخب شائع شدہ کلام کی اغلاط کی تصحیح کے سلسلے میں فاضل مصنف نے لکھا ہے:
محمد اکرام چغتائی نے ایک قلمی بیاض سے، جو کتب خانۂ پنجاب کے ذخیرۂ کیفی میں موجود ہے، فگار کا انتخاب کلام دریافت کر کے شائع کردیا۔۔۔ اور اپنے مقدمے میں ان اغلاط کی نشاندہی کی ہے جو مختلف تذکرہ نگاروں۔۔۔۔ اسی کام کو گوہر نوشاہی نے بھی انجام دیا۔۔۔ غالباً ان دونوں محققین کو ایک دوسرے کے کاموں کی خبر نہ رہی۔ دونوں نے قریب قریب ایک ہی وقت میں یہ کام کیا۔ (۱۰)
یہ بھی پڑھیں: تحقیق کی اقسام | ڈاکٹر اشرف کمال pdf
اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ فگار کا انتخاب کلام کتب خانۂ پنجاب میں سے اولاً ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے دریافت کیا تھا۔ اسی زمانے میں یہ کلام اکرام چغتائی کی نظر سے بھی گزرا۔ انھوں نے فوراً اسے نقل کر کے مرتب/تدوین کرنا شروع کیا۔گوہر نوشاہی صاحب نےاسے روک دیا۔ چغتائی صاحب نے اسے راتوں رات مکمل کر کے سید وقار عظیم سے مقدمہ بھی لکھوادیا۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی اور دیگر محققین نے جب اسے دیکھا تو تقریباً اس میں ۳۰۰ کے قریب غلطیاں تھیں۔ فگار کا کلام مخطوطے کی شکل میں تھا چنانچہ اکرام چغتائی اسے درست نہ پڑھ سکے۔
مدیرِ “صحیفہ” کے اصرار پر ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے ۱۰ غزلیں تصحیح کر کے شائع کروادیں اور اکرام چغتائی کا بھرم رکھنے کی خاطر کہا کہ ان کے نام کے ساتھ شائع نہ کریں۔ لھذا ڈاکٹر معین الدین عقیل کا یہ کہنا کہ دونوں محققین ایک دوسرے کے کام سے واقف نہ تھے، درست نہیں۔ علاوہ ازیں چغتائی صاحب فگار کا کلام پورا شائع بھی نہ کرواسکے۔ وہ فگار کے کلام کو درست پڑھ ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ کہنا کہ ہم دونوں نے ایک ہی موضوع پہ کام کیا اور ایک دوسرے کے کام سے واقف نہ تھے،ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے دقیق تحقیق سے بے نیازی کی غمازی کرتا ہے۔ (۱۱)
یہ بھی پڑھیں: تحقیق و تدوین اور محقق کی خصوصیات | pdf
پاکستان میں اردو قواعد پر تحقیق کے سلسلے میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی کتاب “قواعدِ اردو” کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔
د: موادکی کثرتِ تکرار
تحقیق کا عمل خشک نہیں البتہ تحقیق کا مضمون بعض اوقات بعض لوگوں کے لیے خشک، کسل انگیز بنتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو قاری میں ذوقِ تحقیق کا نہ ہونا ہے اور دوسری وجہ تحقیقی کتاب کا اسلوب۔ بعض اوقات مصنف کی تحریر میں مواد کی تکرار بھی قاری/شائقینِ تحقیق میں اکتاہٹ کا سبب بنتی ہے۔ زیر بحث کتاب میں ایک جیسے مطالب اور ایک جیسے عناوین کی تکرار قاری/طالب علم کو اکتاہٹ سے دوچار کرتی ہے۔کتاب میں تکرار کی نوعیت کئی طرح کی ہے۔بعض مقامات پر پوری پوری سطر کی تکرارواقع ہوئی ہے۔ بعض مقامات پر پورے پیراگراف کی تکرار نظر آتی ہے۔ بعض جگہوں پر صفحے کے صفحے تکراری ہیں۔ بعض مقامات پر پیراگراف کی تکرار یوں ہوئی کہ پیراگراف کا صرف آخری جملہ بدلا ہے باقی پورا پیراگراف تکراری ہے۔
زیرنظر کتاب بنیادی طور پر مصنف موصوف کے مختلف اوقات میں چھپے ہوئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے ایک عمومی نوعیت کی تکرار مجموعی طور پر کتاب کے اول تا آخرنظر آتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کتاب کا قاری/طالب علم شدید قسم کی اکتاہٹ محسوس کرتا ہے۔ تکراری مواد اور اسکی صورتیں ملاحظہ کیجیے۔
۱:مفہوم کی تکرار
مولانامحمد حسین آزاد پر ڈاکٹر محمد صادق نے اور پھر ڈاکٹر محمد اسلم فرخی نے تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ فاضل مصنف نے اس سلسے میں جتنی معلومات فراہم کی ہیں ان میں مکمل طور پر مفہوم کی تکرار واقع ہوئی ہے۔ تفصیل ملاحظہ کیجیے۔
۱: صفحہ نمبر۱۶۳، سطورنمبر ۶، ۵، ۴، ۱پر مندرج مواد موضوع اور مفہوم دونوں اعتبار سے صفحہ نمبر۱۶۴ ،سطور نمبر ۱۵، ۱۴، ۱۳ میں مکرر درج کیا گیا ہے ۔عبارت یہ ہے:“محمد حسین آزاد کی تصانیف پر ڈاکٹر محمد صادق۔۔۔ شامل ہیں۔” (۱۲)
۲: صفحہ نمبر۳۴، سطر ۵ تا ۱۴ پر درج شدہ مواد کی بھی موضوع اور مفہوم دونوں لحاظ سے صفحہ نمبر۱۹۰ ،سطر نمبر ۸ تا ۱۸ میں تکرار نظر آتی ہے۔عبارت یہ ہے: طیش نے اپنا کلیات۔۔۔۔۔ اردو کو اصل بتایا ہے (۱۳)
ب: لفظی تکرار
متعدد مقامات پر پورے کے پورے جملوں، پیراگراف اور صفحات کی تکرارایک لفظ کی کمی بیشی کے بغیر واقع ہوئی ہےمثلا
صفحہ نمبر تکراری صفحات تکراری سطور کی تعداد تکراری مواد
۷ تا ۱۱ ۱۷۳ تا ۱۷۸ ۸۸ قیام پاکستان کے وقت تک۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد ریاض کے نام ممتاز ہیں۔
۳۱ ۱۸۷ ۱۰ پروفیسر محمود شیرانی نے۔۔۔ نتائج تک پہنچے ۔
۳۲ ۱۸۸ ۱۰ ڈاکٹر صاحب نے اس میں ۔۔۔۔ ترقی پاتی رہی۔
۳۶/۳۵ ۱۹۲/۱۹۱ ۱۵ ڈاکٹر سہیل بخاری۔۔۔ حصہ مشترک ملتا ہے۔
۳۷/۳۶ ۱۹۳/۱۹۲ ۱۹ دوسری زبانوں سے اردو کی ۔۔۔۔ تلاش و تحقیق کا منفرد ثبوت ہے۔
۳۹ ۱۹۳ ۱۴ اس نہج پر ایک کوشش۔۔۔ کرنے کی کوشش کی ہے۔
۴۰ ۱۹۴ ۱۱ قدیم لغات میں ۔۔۔ روشنی ڈالی۔
۴۲/۴۱ ۱۹۵/۱۹۴ ۹ اردو کے ابتدائی ناموں ۔۔۔ تحقیقی کاوش ہے۔
۳۸۵ ۳۸۵ ۳ اردو زبان کے فروغ میں ۔۔۔ مصداق ہے۔
متذکرہ بالا جدول کو ملاحظہ کریں تو تکراری سطور کی تعداد ۱۷۹ بنتی ہے۔ لفظی تکرار کی کثرت نے ایک طرف تو تصنیف کی ضخامت میں بے جا اضافہ کیا ہے اور دوسری طرف کتاب کی قدروقیمت اور قاری کی دلچسپی کو کم کرنے کا سامان کیا ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب میں یقینااپنی شبانہ روز کی عرق ریزی اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اردو تحقیق سے متعلق مواد فراہم کیا ہے۔ مواد کی کیفیت پر مواد کی تکرار نے غلبہ پایا ہے۔
غرض یہ کہ یہ کتاب اردو تحقیقی موضوعات و مسائل سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی تدریجی کاوش کا نتیجہ و مجموعہ ہے۔ اس میں شامل مقالات ، مضامین اور تبصروں کا تصنیفی واشاعتی وقت اور اِس وقت کے تقاضے اور تحقیقی معلومات رفتہ رفتہ بدلتی رہی ہیں۔ مکررّات کا ایک بڑا سببب بھی یہی ہے۔
مختلف اوقات میں مختلف عناوین پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہونے نیز کتاب میں ذکر شدہ کتب کے اندراج سنین میں سہویات،غیر یقینی رائے،مندرجہ کتب کے ناموں کے بعض الفاظ میں کمی بیشی اورمواد کی کثرتِ تکرار کی وجہ سے اس کتاب کی اصلیت (Orginality) کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ فاضل مصنف ومحقق کی کاوش متذکرہ بالا تمام کمزوریوں، فروگزشتوں کے باوجود قابل تحسین و تعریف ہے۔ کاش کیا ہی اچھا ہوتا کہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن کتابت کی اغلاط، مکرّرات کی کثرت اور سنین کی سہویات سے مبّرا ہونے کے بعد ہی چھپتا!
حوالہ جات
۱۔ معین الدین عقیل،ڈاکٹر،اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے،مقتدرہ قومی زبان پاکستان،اسلام آباد،طبع اول ٫۲۰۰۸،ص ۱۱۲،سطر ۲۰
۲ ۔ ایضا،ص ۱۴۷،سطر ۷
۳۔ ایضا،ص ۳۶۴، سطر نمبر ۷
۴۔ ایضا،ص ۳۸۲، سطر ۱۸
۵ ۔ معین الدین عقیل،ڈاکٹر، پاکستانی زبان و ادب مسائل و مناظر، وقار پبلی کیشنز، ۱۹۹۹ء، ص ۴۴۳، سطر۳
۶ ۔ معین الدین عقیل،ڈاکٹر، اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے،ص۱۶۸،سطر نمبر۷/۶
۷ ۔ ایضا،ص۱۶۹،سطر ۲۱/۲۰
۸ ۔ ایضا،ص ۲۴۲، سطر ۱
۹ ۔ ایضا،ص ۱۶۸،سطر۳ تا۵
۱۰۔ ایضا، ص۴۹،سطر۸ تا ۱۳
۱۱ ۔ گوہر نوشاہی، ڈاکٹر ،پی ایچ ڈی کلاس لیکچر،۲۹ اپریل۲۰۰۹ ، سہ پہر ۳ بجے، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ،اسلام آباد
۱۲۔ معین الدین عقیل،ڈاکٹر، اردو تحقیق صورت حال اور تقاضے، ص۱۶۴ ،سطر نمبر ۱۵، ۱۴، ۱۳ اورصفحہ۱۶۳، سطر ۶، ۵، ۴، ۱
۱۳ ۔ ایضا،ص۳۴، سطر ۵ تا ۱۴ اورصفحہ۱۹۰ ،سطر نمبر ۸ تا ۱۸