موضوعات کی فہرست
اردو تنقید کے دو مختلف دھارے: ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق
اردو تنقید میں نئے رجحانات
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو ادب میں دو الگ الگ واضح نظریات کے حامل نقاد سامنے آئے، جن میں ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق شامل ہیں۔ ترقی پسند تحریک ۱۹۳۶ء میں اور حلقہ ارباب ذوق ۱۹۳۹ء میں وجود میں آیا۔
اس دور میں ہندوستان میں ہر سطح پر زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور تو اور مذہب و ثقافت کے نام پر دو الگ الگ ممالک وجود میں آ رہے تھے۔
آزادی کی تحریک زوروں پر تھی اس وقت تک مغربی تعلیم و نظریات تیزی سے پھیل رہی تھیں۔ نئی مغربی اصناف بھی اردو میں شامل ہو چکی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تنقید میں بھی واضح مشرقی و مغربی رویے وجود میں آئے ۔
ترقی پسند تنقید کا مارکسی اور سائنسی انداز
ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ترقی پسند تحریک
ترقی پسند تنقید نے اپنے سانچے مارکس ، لینن ، اینگلز اور گورکی کے نظریات سے اخذ کیے اور ادب کو معاشرے کی جدو جہد میں ایک کارآمد حربے کے طور پر استعمال کرنے کی طرح ڈالی ۔ ترقی پسند تحریک نے نہ صرف مصنفین کا ایک سریع الاثر حلقہ قائم کیا بلکہ مصنفین کی تخلیقات کو جدلیاتی فلسفے پر پرکھنے کے لیے ناقدین کی ایک فعال جماعت بھی پیدا کی ۔
ترقی پسند ناقدین نے ادب کا تجزیہ سماجی ، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں افادی حیثیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے کیا اور اس مقصد کے لیے تنقید کا مارکسی پیمانہ اور سائنسی انداز استعمال کیا ۔
ترقی پسند ناقدین نے مارکسی فلسفے کی ان جزئیات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس نئے انداز تنقید نے اردو ادب کو فائدہ پہنچایا اور ادبا نے نہ صرف نئے مباحث پیدا کیے بلکہ فلسفہ ، تاریخ اور نفسیات وغیرہ علوم کو بھی تنقید میں آزمانے کی سعی کی۔ (۲۱)
ترقی پسند تحریکیں کی فکری مباحث تنقید کی وجہ سے منظر عام پر آئیں یہ تحریک ایک نیا ادب تخلیق کرنا چاہتی تھی اس لیے مختلف اصناف ادب کو نیا رخ دینے کے لیے مختلف تنقیدی مضامین کے ذریعے اس کا راستہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح اردو تنقید کو ایک نیا رخ اور نیا مزاج ملنا شروع ہوا۔ تنقید کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جانے لگا تا کہ اپنے زمانے کے مسائل کو بیان کر سکے۔
بعض ناقدین اس بات پر بھی زور دیتے رہے کہ ادب کا مادی تصور ہونے کے باوجود اسے فنی قیود اور جمالیاتی تقاضوں کے ساتھ تخلیق کیا جائے مگر مقصدی غلبے کی وجہ سے اور طے شدہ موضوعات کے پر چار میں فنی قیود کو نظر انداز کیا جانے لگا۔
احتشام حسین کا نقطہ نظر
احتشام حسین کہتے ہیں :
ادب کا مادی تصور سب سے پہلے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ادب انسانی شعور کی وہ تخلیق ہے کہ جس میں ادیب اپنے ذہن سے باہر کے مادی اور خارجی حقائق کا عکس مختلف شکلوں میں مختلف فنی قیود اور جمالیاتی تقاضوں کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ (۲۲)
ظاہر ہے ترقی پسند نقاد اپنے اس مقصدی نصب العین کے ہوتے ہوئے بھی ادب کی پاسداری چاہتے تھے اور ادب کو بطور ہتھیار استعمال کر کے آگاہی و شعور دینا چاہتے تھے۔
ترقی پسندوں نے اس نظریہ ادب کو سائنسی نظریہ تنقید بھی کہا ترقی پسند تحریک نے اردو تنقید کو ایک نیا رخ عطا کیا اور ایک نیا مزاج دیا۔ اس طرح اردو تنقید کو نئی مباحث و مضامین سے فائدہ پہنچا اور اس کا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔
سائنٹیفک نظریہ تنقید ادب کی تخلیق کو مخصوص تاریخی اور مادی حالات کی پیداوار سمجھتا ہے ۔ وہ مظاہر کے تجزیے میں اندورنی کش مکش ارتقا اور حرکت پر نظریں جاتا ہے وہ ادب کو جماعتی سمجھتا ہے۔ وہ مواد کو ہلیت پر ترجیح دیتا ہے۔
وہ ادب میں جمود اور روایت پرستی کے خلاف ہے اور نئے نئے تجزیوں کو ادب کی صحت مندی کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ سائنٹیفک نظریے کو صحیح تسلیم کرنے والا نقاد سماجی حقیقتوں اور تصوراتی تخلیقات کےدرمیان رشتہ قائم کرتا ہے ۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاه
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 23-24
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مسکان محمد زمان