کتاب کا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر وغالب کا خصوصی مطالعہ. 1 کورس کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5611 موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اردو شاعری پر میر تقی میر کے اثرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 124تا129 مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوثر بیگم فخر عالم مشائخ
اردو شاعری پر میر تقی میر کے اثرات
میر کی استادی کے اعترافات کے باوجود کئی ایک شعرا ایسے بھی ہیں، جن کی اپنی شاعری پر میر کی شاعری کے اثرات نہیں ملتے۔ ان میں سودا، تاریخ، ذوق اور بیگانہ وغیرہ شامل ہیں۔
البتہ بعض شعرا ایسے بھی ہیں جنھوں نے میر کی شاعری سے اثرات قبول کرنے کے باوجود اپنے اشعار میں اس کا اظہار نہیں کیا۔ اردو شاعری پر میر کے اثرات بڑے گہرے اور دور رس ہیں ان کے بعد آنے والے کئی ایک بڑے شعرا نے ان سے تھوڑے بہت اثرات ضرور قبول کیے ہیں۔
قدیم شعرا میں سے اگر چہ مصحفی کی بڑائی کا انحصار میر کی تقلید میں نہیں ہے بلکہ غزل کو شگفتہ اور لطیف زبان دینے کی بنیاد پر ہے تاہم انھوں نے دہلی کی دردمند فضا اور شکستہ دلی کے اثرات قبول کیے اور وہ میر کی پیروی کرتے ہوئے ہمیشہ ذرا کترا کر گزر جاتے ہیں۔
میر کی ماورائی سادگی اور معصومیت ایک نئے رنگ میں مصحفی کے ہاں جھلکتی ہے بقول فراق گورکھپوری "میر کے یہاں بے پناہ سوز ہے لیکن مصحفی کے یہاں وہی سوز کم ہو کر ایک نرم ساز ہو گیا )۲(ہے
اس سلسلہ میں میر اور مصحفی کے چند شعر دیکھیے :
بڑی بلا ہیں ستم کشته محبت بھی
جو تیغ بر سے تو سر کو نہ کچھ پناہ کریں جب متقی شیخ اس نے کھینچی ہاتھوں کی پناہ ہم نے کر لی میر
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے۔
مصحفی :
حادثے ہوتے ہیں زمانے میں اس قدر انقلاب کسی دن تھا
میر:
کہتا تھا کو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منہ
کل میں کھڑا تھا یاں، گرچہ ہے کہ دیوانہ تھا
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے ترے کوچے میں جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے
مصحفی کے مزید چند شعر دیکھیے جن پر میر کے رنگ سخن کی چھوٹ پڑتی محسوس ہوتی ہے :
دیکھ اس کو اک آو ہم نے کر لی
حیرت سے نگاہ ہم نے کر لی
خواب تھا یا خیال تھا، کیا تھا
ہجر تھا یا وصال تھا، کیا تھا
متقی شب جو چپ تو بیٹا تھا
کیا تجھے کچھ ملال تھا، کیا تھا
اسی طرح قدیم شعرا میں بیدار دہلوی کے ہاں بھی میر کے اثرات ملتے ہیں۔ ان کا پورا نام میر محمد علی تھا۔ وہ
میر محمدی کے نام سے مشہور ہوئے اور بیدار تخلص کرتے تھے۔ اُردو میں خواجہ میر درد کے شاگرد اور درویش صفت انسان تھے۔ آخری عمر میں دہلی سے آگرہ چلے گئے تھے اور وہی۴۹۷۰ میں وفات پائی (۳) ان کے دو چار شعر پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ سہل ممتنع میں میر کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کرتےہیں۔ انھیں زبان پر قدرت تھی اور الفاظ کی نشست کا سلیقہ جانتے تھے۔ ان کے چند ایک میر کے رنگ میں شعر دیکھیے :
صورت اس کی سما گئی دل میں یوں ملاقات خوش نہیں آتی لوگ جاتے ہیں خواب کرتا ہوں
آو کیا آن بھا گئی جی میں
دور سے بات خوش نہیں آتی
ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
اس شعر پر ان کے استاد خواجہ میر درد کے اثرات بھی واضح ہیں، جن کا شعر ہے :
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری ہر چند تیار ہو گئے ہم ہم خاک بھی ہو گئے پر اب تک دل سے نہ ترے غبار نکلا
چی میں یہ کس کا تصور آ گیا
دامن کو ترے نہ پہنچے اب تک
1.4 موازنه میر و غالب
بعض نقاد غالب کو جدیدیت کا پہلا بڑا اور اہم شاعر قرار دیتے ہیں ۔ انھوں نے میر کے رنگ سخن سے بڑی کاری گری اور کامیابی سے رنگ لیا اور اپنی ایک جداگانہ عمارت تعمیر کی ۔ بقول ناصر کاظمی میر صاحب کا پہلا تخلیقی طالب علم تو غالب ہی ہے (۴) اگر چہ غالب اپنا ایک قطعی منفرد اسلوب رکھتے ہیں تاہم وہ خود کو میر کے اثرات سے نہیں بچا سکے۔ میر کی دیوانگی اور جنوں کے بعض تیور غالب کے یہاں ملتے ہیں۔ میر ہی کی طرح ایک نئی ، مکمل اور حسین دنیا تخلیق کرنے کی آرزو غالب کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ دونوں کے ہاں صدائے احتجاج بھی کافی بلند ہے۔ دونوں کے ہاں طنز و واسوخت کا انداز بھی جھلکتا ہے، دونوں کے ہاں بے پناہ نا آسودگی ، بے پایاں تشنگی اور نظام کا ئنات کو تبدیل کر دینے کی خواہش کا اظہار بھی ملتا ہے غالب نے خود بھی ایک تضمین میں کہا ہے :
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ:
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب نے اپنے اردو دیوان میں میر کا تین مرتبہ ذکر کیا ہے: ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ان کا ایک اور مقطع نسخہ حمیدیہ میں یوں آیا ہے:
میر کے شعر کے احوال کہوں کیا غالب جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں۔
غالب اپنی منفرد شخصیت اور شاعری کے باوجود میر کی شخصیت اور کلام سے گہرا جذباتی تعلق رکھتے تھے۔
بقول ڈاکٹر سید عبد الله :
غا لب اور میر بعض ظاہری خصائص کی بنا پر ایک دوسرے سے اتنے دور معلوم ہوتے ہیں کہ:
بادی النظر میں ان کے ذہنی روابط کا خیال بھی عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس بعد ظاہری کے غائر مطالعہ ہمیں اس فیصلے تک پہنچاتا ہے کہ غالب، میر سے اتنے دور نہیں جتنا ہم.
ان کو سمجھنے لگتے ہیں“۔ (۵)
میر اور غالب کے احساس اور فکر ونظر کے بعض انداز ایک دوسرے کے انتہائی قریب واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ اظہار و بیان کی بعض صورتیں دونوں کے کلام میں اپنی منفر د خصوصیات رکھنے کے باوجود مماثل دکھائی دیتی ہیں۔
ظاہر ہے زمانی اعتبار سے میر کو تقدم حاصل ہے لہذا غالب نے میر سے اثرات قبول کیے ہیں ۔ میر اور غالب میں جو اشتراکات نظر آتے ہیں ان میں ہم طرحی غزلیں لفظوں اور جملوں اور اسالیب اور کسی حد تک فکر و نظر کا اشتراک
ہے ۔ ہم طرحی غزلیں اگر چہ زیادہ نہیں ہیں، تاہم موجود ضرور ہیں ۔ غالب نے میر کی طرحوں میں جو غزلیں لکھی ہیں۔
وہ غالب کے ابتدائی زمانے کی بھی ہیں اور بعد کے زمانے کی بھی ۔ گویا غالب کی میر کے کلام سے دل بستگی ہمیشہ قائم رہی ہے۔ اس دل بستگی کا تعلق محض غالب کے آخری دور شاعری سے نہیں ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے غالب پر میر کے اثرات دکھاتے ہوئے یہاں تک خیال ظاہر کیا ہے کہ مرزا غالب عموما رنگ بیدل میں روح میر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر بیدل کے نمایاں اثر کے باوجود ان پر میر کی گرفت بھی خاصی مضبوط معلوم ہوتی ہے (۲) دونوں شعرا کی چند ایک ہم طرحی غزلوں کی بھی ڈاکٹر سید عبداللہ نے نشاندہی کی ہے۔میر تقی میر:
کیا طرح ہے آشنا گا ہے، گہے نا آشنا
یا تو بیگانے ہی رہے، ہو جیسے یا آشنا
غالب:
خود پرستی سے رہے باہم دگرنا آشنا
بے کسی میری شریک ، آئینہ تیرا آشنا
میر:
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
غالب:
جھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشه طلب گار مرد تھا
میر:
الٹی ہو گئیں سب تدبیر میں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
غالب:
چشی بن صیاد نے ہم رم خوروں کو کیا رام کیا
رشتہ چاک دریده صرف تماش دام کیا
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
غالب:
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
بعض محاورات و اسالیب جنہیں میر نے برتا ہے انھیں غالب نے بھی استعمال کیا ہے۔ اسے میر کے کلام
ہی کے اثرات کہا جا سکتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے :میر:
تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی
غالب:
ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
میر:
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا
غالب :
خدا معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلود ہونا تیری مژگاں کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں ترے تیغ کے لگانے کا
غالب:
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
غالب کے کلام میں میر کا انداز محض سادہ اور مختصر بحروں والی غزلوں ہی میں ظاہر نہیں ہوا، جسے غالب کا آخری دور کا کلام کہا جاتا ہے بلکہ میر کے اثرات مختصر بحروں والی غزلوں کے ساتھ ساتھ غالب کے تمام ادوار شاعری
میں ملتے ہیں۔
غالب کے علاوہ شیفتہ کے ہاں بھی میر کے اثرات ملتے ہیں اور بعض مقامات پر انھوں نے میر کے انداز کو
کامیابی سے برتا ہے۔ وہ اپنے کلام میں میر کی روش اور میر کا انداز پیدا کرنے کے آرزومند تھے:
نرالی سب سے ہے اپنی روش اے شیفتہ لیکن کبھی دل میں ہوائے شیدہ ہائے میر پھرتی ہےشاد عظیم آبادی کے بارے میں بھی عموماً یہی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ میر کی طویل بحروں والی غزلوں کے سانچوں کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کلام میر کے رنگ میں بکثرت ملتا ہے۔ ان کے ہاں میر جیسی گیت نما غزلیں ملتی ہیں، جن میں وہ میر کی طرح جو گی معلوم ہوتے ہیں :
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
1.5 جدید شاعروں پر میر کے اثرات
شاد عظیم آبادی کے ساتھ ساتھ اثر عظیم آبادی کے ہاں بھی میر کے اثرات ملتے ہیں۔ جدید غزل پر میر کے اثرات خاصے گہرے پڑے ہیں۔ الطاف حسین حالی ، مولانا حسرت موہائی اور اکبرالہ آبادی وغیرہ میر کے شیوه گفتار پر رشک کرتے رہے ہیں۔ ان شعرا نے میر کی بڑائی کو اپنے اشعار میں خراج تحسین بھی پیش کیا ہے ۔ جدید تنقیدی شعور نے میر کو نئے سرے سے دریافت کیا۔ جس کے نتیجہ میں جدید شعرا پر میر کے مطالعہ کی وجہ سے گہرے اثرات پڑے ۔ میر کے انداز کو اپنانے والے جدید شعرا نے رومانی انداز ، نیم دیوانگی، غریب الوطنی می نشینی، فقیروں کی سی مسکینی اور سپردگی ، جوگیوں کی کی افسردہ توائی اور خالص احساساتی رنگ کو قبول کیا۔ جدید زمانے کے شاعروں میں سے جعفر علی خاں اثر لکھنوی بھی میسر کے بہت بڑے مداح ہیں۔ ان کی غزلیات میں میر کی طرح زندگی کی تلخ سچائیاں اور زندگی کی نامرادی کا غم ملتا ہے۔ انھوں نے محبت کے بارے میں بھی بعض خیالات میرے لیے ہیں۔ ان کی زبان پر بھی میر کے اثرات ملتے ہیں۔ وہ میر کے تتبع میں بڑا زور صرف کرتے ہیں۔ انھوں نے میر کے لہجے کی بھی پیروی کی ہے۔ انھوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ میر کے کلام کے شیدا ہونے کے باوجود میر جیسے بول بنانے میں
کامیاب نہیں ہو سکے۔
میں میر کا دم بھرتا ہوں اثر ، میں اس کے کلام کا شیدا ہوں ہاں شعر تو تم کہہ لیتے ہو، وہ بول بنانا مشکل ہے
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں