﷽،(موضوع)،اردو رسم الخط کی تاریخ،[کتاب کا نام]،اردو زبان: قواعد و املا لیول،کوڈ کورس 9010،صفحہ نمبر 13،مرتب کرده… مسکان محمد زمان
موضوعات کی فہرست
اردو رسم الخط کی تاریخ
اردو رسم الخط عربی وفارسی رسم الخط سے ماخوذ ہے جسے مقامی ضروریات اور آوازوں کی مناسبت سے ترمیم و اضافہ کے بعد اختیار کیا گیا۔ خوش قسمتی سے دیگر لسانی زبانیں بھی اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں
موجودہ رسم الخط کی تشکیل نے بتدریج ارتقا کی منازل طے کیں ۔ تاریخ میں سب سے پہلے تصویری رسم الخط کا سراغ ملتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق وادی دجلہ و فرات اور وادی نیل یعنی عراق و مصر تہذیب و تمدن کے قدیم ترین گہوارے ہیں۔
دونوں ملکوں میں کم و بیش چار ہزار قبل مسیح تحریر کا طریقہ ایجاد ہو چکا تھا۔
——–> بابل میں رائج طریقہ تحریر کو خط مسماری، پیکاری یا میخی (Cuneiform Script) اور مصری طریقہ تحریر کو خط ہیرو غولیفی (Heieroglypluy) کہتے ہیں۔
اس کے بعد زبان کی آوازوں کے لیے حروف کے تعین کا دور آیا۔ ان خطوط میں آرامی کنعانی ، آرامی فیقی، عبرانی مسند حمیری، یونانی، پہلوی، سریانی بطلی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
——-> پروفیسر سید محمد سلیم
آرامی خط کو ام الخطوط قرار دیتے ہیں۔
بابل اور مصر کے درمیان جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی کنارے پر ایک شہر کنعان ، جبرون الخلیل ہے یہاں آرامی نسل کی ایک شاخ آباد تھی ۔
یہ فخر اس نسل کو حاصل ہے کہ تین ہزار قبل مسیح میں اس نے حلق سے نکلنے والی آوازوں کے لیے نقوش متعین کر لیے ۔
اس نے حلق سے نکلنے والی آوازوں کے لیے نقوش متعین کر لیے ۔
——>2 ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے خط فینقی کو عربی رسم الخط کا ماخذ قرار دیا ہے ۔
3 خطہ فینقہ شام اور فلسطین کے قریب ہے۔ پروفیسر سید محمد سلیم نے فینقی کو آرامی کی شاخ بتاتے ہوئے حاشیہ میں صراحت کی ہے کہ مغربی مؤرخین فینقیوں کو قدیم مانتے ہیں .
اور آرامی کو متاخر مانتے ہیں، میں نے قرآن کا اتباع کیا ہے۔ جس کا بیان ہے کہ عا دارم قدیم ترین قوم تھی ۔
4 ان کے مطابق ” آریہ نسل کے اس کارنامے کونہ مان یورپ کا نسلی تعصب ہے حالانکہ مورخ کبیر ٹائن بی اس کو تسلیم کرتا ہے۔
۵: شیخ ممتاز حسین جو نپوری کے خیال میں : ” خط کوفی کی ایجاد چوتھی صدی عیسوی میں نبطی خط اور خط سیر یاک یا سطر نجیلی سے ہوئی ۔۔۔ حرب بن امیہ کوفہ سے یہ خط سیکھ کر آئے ، اس لیے عرب میں اس کا نام خط کوفی پڑا ۔
——> حجاز مقدس میں زیادہ تر یہی رسم الخط رائج تھا ، اس لیے قرآن مجید اسی میں لکھا گیا اور سرکار دو عالم نے مختلف سرداروں اور بادشاہوں سے اس خط میں مراسلت فرمائی ۔
ابتدا میں خط کوفی پر نقطے اور اعراب نہیں تھے تقریباً ۵۰ھ میں ابولا سود دوئلی نے نقطے ایجاد کیے مگر یہ نقطے بجائے اعراب کے استعمال ہوتے تھے۔“ جب مجھی مسلمانوں کو قرآت قرآنی میں مشکلات پیش آنے لگیں تو
” خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں نصر بن عاصم نے ۱۵ ھ میں حجاج بن یوسف کے حکم پر منقوط حروف پر سیاہ اور اعراب کے لیے قرمزی رنگ کے نقطوں کا استعمال کیا ۔
- بالاآخر خلیل بن احمد فراہیدی (۱۷۰ھ ) نے موجود اعراب وضع کیے، جس کے بعد تحریر کا پڑھنا آسان ہو گیا۔
عربی رسم الخط کا تیسرا دور
—–> ابوعلی محمد بن علی بن حسن بن عبد الله ملقب با بن مقلہ جیسی نابغہ روز گار شخصیت سے شروع ہوتا ہے اس نے خط کوفی سے ۳۱۰ھ/ ۹۲۲ء میں خط نسخ ایجاد کیا۔ اس کے علاوہ پانچ خط : خط محقق، خط ریحان ، خط ثلث ، خط توقیع اور خط رقاع وضع کیے۔ ۵۰
ابن مقلہ کے بعد ابن ابواب (۴۱۲ / ۱۰۲۱ء) اور یاقوت المستعصمی (۱۲۲۹/۶۹۸ء) نے خط نسخ کو معراج کمال پر پہنچا دیا ۔ اس کے بعد فارسی رسم الخط کا دور آتا ہے۔ چنانچہ ایک عرصے کے بعد حسن فارسی نے فارسی زبان کی تمام ضروریات کو پیش نظر رکھ کر خط رقاع اور توقیع کی آمیزش سے خط تعلیق وضع کیا۔
اس سے اگلا زمانہ عروس الخطوط کا ہے۔
پروفیسر سید محمد سلیم کے مطابق: ” میر علی تبریزی نے امیر تیمور گورگانی
——-> (۱۴۰۵/۵۵۰۷ء) کے عہد حکومت میں خط نسخ اور خط تعلیق کو ملا کر خط نستعلیق ایجاد کیا ۔ جبکہ مغنی تقسیم کے خیال میں : اس خط کو میر علی تبریزی نے ترقی دی اور پھر عماد الحسن قزوینی نے کمال پر پہنچایا ۔ عمومی طور پر میرعلی تبریزی کو خط نستعلیق کا موجد قرار دیا جاتا ہے لیکن بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس خط کا چلن میرعلی تبریزی سے پہلے ہو چکا تھا۔
——> ابوالفضل آئین اکبریہ میں اس امر کی تردید کرتے ہیں ۔ ان کے بقول : ” یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس سے پیشتر بھی اس خط میں چند رسالے دیکھے گئے ہیں ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ میر علی تبریزی نے اس خط کے قواعد مرتب کر کے مصلح اول کا کردار ادا کیا۔
اگر چه نستعلیق بہت خوب صورت خط ہے لیکن اس کی نزاکت کی وجہ سے لکھنے میں دیر لگتی ہے، اس لیے دفتری ضروریات کے لیے خط شکستہ وضع کیا گیا ۔ حاکم ہرات مرتضی قلی خان شاملو نے لاہ میں نستعلیق و تعلیق کو ملا کر ( بعض نستعلیق وثلث بتاتے ہیں ) ایک نیا خط وضع کیا جو خط شکستہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس خط کی ایجاد کا مقصد ہی زودنو لیسی تھا۔
اس کے بعد مرتضی قلی کے میر منشی محمد شفیع نے خط شکستہ اور نستعلیق سے (بعض ریحان کہتے ہیں) ایک نیا خط ایجاد کیا۔ جسے شکست آمیز یا شفیعہ کہتے ہیں۔ جس میں شکستہ کی نسبت حسن ہے۔ خط شکستہ کو گھیٹ لکھائی بھی کہتے ہیں۔ اگر چہ خط شکستہ کا رواج نہیں رہا لیکن اب بھی محکمہ مال اور کچہری کی تحریروں میں کسی حد تک مستعمل ہے۔
——> ونستعلیق میں بنیادی فرق سادگی اور آرائش کا ہے۔ خط نسخ عربی مزاج کی سادگی کا آئینہ دار ہے اور نستعلیق ایرانی نفاست کا عکاس ۔ نسخ کے دائروں میں چپٹا پن ، ہر جوڑ واضح اور قلم یکساں ہوتا ہے۔ جبکہ نستعلیق میں حروف کی کشش ، شوشوں، جوڑ ، پیوند اور دائروں کی پیمائش و انداز میں تنوع ہوتا ہے ۔ دائرے کہیں گول ہوں گے، کہیں بیضوی۔
——-> اس تنوع کی وجہ سے حروف کی کرسی بدلتی رہتی ہے۔ نستعلیق میں قلم بار بار بدلتا ہے۔ کہیں پورا قلم ہوگا تو کہیں نصف اور کہیں اس سے بھی کم ۔ حروف کے سر، گردن اور دور (کشش) میں قلم کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔ حتی کہ ایک حرف کی مختلف حالتوں (ابتدائی، وسطی، آخری ) میں قلم کی پیمائش اور انداز مختلف ہوتا ہے۔
——-> خط نسخ اور نستعلیق میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے سے متعلق ارباب اختیار تضادات کا شکار رہے۔ نصابی کتابوں کے لیے کبھی خط نسخ کا انتخاب کیا گیا اور کبھی نستعلیق کا۔ اس کا یہ نقصان ہوا کہ طلبہ کسی خط پر عبور حاصل نہ کر سکے اور نہ ہی طباعت کا کام سرعت سے فروغ پاسکا۔ اصل میں ان دونوں خطوط کا اپنا اپنا مقام اور اہمیت ہے۔ جہاں نسخ مشینی طباعت کے لیے زیادہ موزوں ہے، وہاں نستعلیق اپنی حُسن و پر کاری میں جواب نہیں رکھتا ۔
اگر چہ نسخ مشینی لحاظ سے زیادہ مفید ہے لیکن اسے وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو نستعلیق کو حاصل تھی اور آخر کار حکومت کو بھی اپنا فیصلہ بدلنا پڑا اور کتا بیں نستعلیق میں ہی چھاپنا پڑیں۔ ٹائپ اور طباعت کی دشواریں کے مد نظر نستعلیق کی جگہ نسخ کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن اب ان پیچ اور ایم ایس ورڈ میں اُردو نستعلیق کے استعمال کے بعد یہ دشواری بھی دور ہوگئی ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں