اردو قصیدے کی روایت اور اجزائے ترکیبی

اردو قصیدے کی روایت اور اجزائے ترکیبی | Urdu Qaseeday ki Riwayat aur Ajza-e-Tarkeebi

اردو میں قصیدے کی روایت

قصیدے کی لغوی و اصطلاحی مفہوم

قصیدہ، "قصد” سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: ارادہ کرنا، کسی کام کا ارادہ کرنا۔
فرہنگِ فارسی میں "قصد کردن” کے معنی ہیں "نیت کرنا، عزم کرنا”۔
فیروز اللغات میں اسے "علم کی وہ قسم ہے جس میں کسی کی تعریف یا مدح کی جائے” کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
جواہر اللغات کے مطابق، "قصیدہ وہ نظم ہے جو کسی کی تعریف میں کہی جائے”۔

یہ بھی پڑھیں: سودا کی قصیدہ نگاری

فرہنگِ فارسی میں قصیدہ کے درج ذیل معانی ہیں:

  1. لاگی
  2. چَری
  3. علمِ عروض کی اصطلاح میں وہ نظم جس میں مطلع کے دونوں مصرعے باقی اشعار کے ہم قافیہ ہوں، اور جس میں مدح شامل ہو۔
    قصیدے کے اشعار کی تعداد کم از کم پندرہ ہونی چاہیے۔ اس کے اجزاء میں "تشبیب”، "گریز”، "مدح” اور "دُعائیہ” شامل ہوتے ہیں۔

اصطلاحی معنوں میں قصیدہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی زندہ شخصیت کی تعریف کی گئی ہو۔
یہ لفظ "مقصد” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ارادہ یا قصد۔
قصیدہ اپنے موضوع اور اندازِ بیان کی وجہ سے دیگر اصنافِ نظم سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے، جیسے جسم میں دماغ۔

قصیدے کی ہیئت

قصیدہ ظاہری ساخت میں غزل سے مشابہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک ہی بحر استعمال کی جاتی ہے۔ ردیف لازمی نہیں، لیکن قافیہ ہوتا ہے۔
پہلا شعر "مطلع” کہلاتا ہے، اور درمیان میں بھی "مطلعِ ثانی” آ سکتا ہے۔
قصیدے میں اشعار کم از کم پانچ ہوتے ہیں، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اردو اور فارسی میں کئی سو اشعار پر مشتمل قصائد بھی ملتے ہیں۔

اردو قصیدے کی ابتدا

قصیدہ عرب سے ایران اور ایران سے برصغیر آیا۔
اردو قصیدے کی ابتدا دکن سے ہوئی، اور نصرتی کو پہلا قصیدہ نگار مانا جاتا ہے۔

اہم قصیدہ نگار

دکنی شعرا

نصرتی، قطب، رازی، علی عادل شاہ ثانی، محمد قلی قطب شاہ، سلطان محمد قطب شاہ، غواصی، ضعیفی۔

شمالی ہند

سودا، ذوق، میر، مومن، غالب، سحر، منیر، امیر مینائی، داغ، محسن کاکوروی، تسلیم، حالی۔

قصیدے کے فنی اجزاء

مطلع

قصیدے کی خوبیوں کا دارومدار مطلع پر ہوتا ہے۔ شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ مطلع دلکش ہو، اور اس میں ندرت و شگفتگی ہو۔

مثال: جوں نہ آسمان نے مجھے بہر حال عرض حال
دیں سو زبان و دین و لیکن کبھی ہیں لال؟

مطلعِ ثانی: چاہے اگر کوئی وہ جہاں کا متاع و مال
تیرے گرائے در سے کرے آئے وہ سوال

تشبیب

تشبیب قصیدے کی تمہید ہوتی ہے۔ اس کا براہِ راست مدح سے تعلق نہیں ہوتا لیکن شاعر کو اظہارِ قابلیت کا موقع دیتی ہے۔

سودا کی تشبیب (بہار کا منظر): سجدہ شکر میں ہے شاخ ثمر دار ہر ایک
دیکھ کر باغِ آبِ جہاں میں کرمِ عز و جل

(تشبیب کے اشعار استعارات اور جدتِ تخیل سے بھرپور ہوتے ہیں۔)

گریز

تشبیب سے مدح کی طرف آنے کا درمیانی حصہ "گریز” کہلاتا ہے۔
یہ بہت فطری انداز میں ہونا چاہیے تاکہ ایسا نہ لگے کہ شاعر زبردستی مدح پر آ گیا ہے۔

مثال: سودا کی ڈرامائی گریز: خوشی شاعر کو جگاتی ہے اور محتسب کے خوف کے بغیر جشن منانے کا موقع دیتی ہے۔

مبالغہ

قصیدے کی جان "مبالغہ” ہے۔ سودا نے اس میں کسی تامل سے کام نہیں لیا۔
یہ فارسی قصائد کی تقلید ہے اور اردو میں ایک وراثتی روایت بن چکی ہے۔

مدح

ذوق نے زیادہ تر سلاطین کی مدح کی ہے جیسے:

مثال: عجب نہیں یہ ہوا سے کہ مثل نبض صحیح
کرے اگر حرکت موجِ چشمہ تصویر

سودا کی مدح میں خصائص: بزرگانِ دین کی نیکی، علم، کرم، انصاف، اور سلاطین کی شجاعت و تدبیر کی تعریف کی۔

مقطع

قصیدے کا آخری حصہ "مقطع” کہلاتا ہے۔ اسے "حسنِ خاتمہ” بھی کہا جاتا ہے۔
اس کا انداز بھی مؤثر اور پُراثر ہونا چاہیے تاکہ قصیدہ مکمل محسوس ہو۔

مثال: کرے ہے ختم دعائیہ پر اب سخن سودا
ادب سے دُورِ سرور، مجھے دے ہر ایک عید کے دن

قصیدے کے موضوعات

دکنی قصائد

عموماً پیروں یا بادشاہوں کی تعریف پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زبان سادہ اور مبالغہ کم ہوتا ہے۔

شمالی ہند کے قصائد

بادشاہوں، امیروں، وزیروں کی مبالغہ آمیز تعریف کی جاتی ہے۔ زبان مشکل اور انداز مصنوعی ہوتا ہے۔

قصیدے کی ہیئت

قصیدہ غزل کی طرز پر لکھا جاتا ہے۔ مطلع کے بعد تمام اشعار ہم قافیہ ہوتے ہیں۔
جس حرف پر ہر شعر ختم ہوتا ہے، اسی حرف کے اعتبار سے قصیدے کو نام دیا جاتا ہے۔
مثلاً: اگر ہر شعر "ل” پر ختم ہو تو اسے "لامیہ” کہا جائے گا۔

پروف ریڈر: [طیبہ]

حواشی

کتاب۔ شعری اصناف:تعریف وتفہیم
کورس کورڈ : 9003
صفحہ۔224تا229
مرتب کردہ۔ اقصٰی فرحین ۔۔۔۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں