اردو ناول کے پہلے دور کا مختصر تجزیہ 1936ء تک

اردو ناول کے پہلے دور کا مختصر تجزیہ 1936ء تک

تعارف

ناول نے داستان کی رومانیت اور رسم پرستی سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو موضوع بنایا۔ اس دوران زیادہ تر رومانوی ناول تحریر کیے گئے، اگرچہ چند استثنائی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں نفسیاتی ناول کی طرف توجہ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ناول کے اسالیب

رومانوی ناولوں کی اقسام

اس دور کے رومانوی ناولوں کی دو بنیادی اقسام سامنے آتی ہیں:

تاریخی ناول

اردو میں تاریخی ناول نگاری میں عبدالحلیم شرر کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محمد علی طیب نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ تاہم ایک عمومی خامی یہ رہی کہ ان ناولوں میں تاریخی ترتیب، واقعات اور تحقیق پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

مصنفین نے سنی سنائی باتوں کو، جو ان کے مقصد سے ہم آہنگ معلوم ہوئیں، کہانی کا حصہ بنا لیا۔ نتیجتاً، ان ناولوں میں معاشرے اور ثقافت کا گہرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔ بعض اوقات کردار عربی یا ترکی اور ماحول مکمل طور پر ہندوستانی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود، ان ناولوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں اردو نثر کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔

معاشرتی ناول

معاشرتی ناولوں نے بھی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، اگرچہ مرکزی موضوع اکثر "عشقِ اول نظر”، پاکیزہ محبت، مثالی عاشق اور بے مثل محبوبہ رہا۔ سرشار نے جہاں بعض معاشرتی پہلوؤں کو نمایاں کیا، وہیں پریم چند نے دیہی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو کے نمائندہ ناول نگاروں کا تاریخی شعور | PDF

نفسیاتی پہلو اور فنی بلوغت

اس دور کی ایک اہم پیش رفت یہ تھی کہ پریم چند اور مرزا ہادی رسوا نے نفسیاتی ناول کی طرف کامیاب توجہ دی۔ پریم چند کے ہاں اگرچہ ان کا مخصوص نظریہ آخر میں غالب آ جاتا ہے، جو ناول کی سادگی اور حسن پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن مرزا ہادی رسوا کی بات مختلف ہے۔ وہ انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کو بے ساختگی سے بیان کرتے ہیں اور اس پر اپنی گرفت قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ناول میں سماجی شعور مقالہ از افضال بٹ | PDF

ان کے ہاں ناول نگاری کی تمام جہات پر ریاضیاتی انداز سے محنت کی گئی ہے۔ قدرتی ظرافت اور بیان کی جدت ان کے اسلوب کو ممتاز بناتی ہے۔ ان کا ناول امراؤ جان ادا اردو ادب کا ایک شاہکار اور ان کی فنی بصیرت کا نمائندہ ہے۔

دیگر رجحانات

مجموعی طور پر اس دور میں اعلیٰ درجے کی کردار نگاری، بے ساختہ مکالمے، واقعات نگاری کے نئے اسالیب، اور رومان و حقیقت کی ہم آہنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دور میں اردو میں جاسوسی اور مزاحیہ ناول نگاری کا آغاز ہوا۔ ظفر عمر نے اردو کے پہلے جاسوسی ناول تحریر کیے، جب کہ سجاد حسین نے مزاحیہ ناول نویسی کا آغاز کیا۔ ان کے بعد عظیم بیگ چغتائی اور شوکت تھانوی نے بھی اسی راہ کو اپنایا۔

پروف ریڈر[طیبہ]

حواشی

کتاب کا نام ۔۔۔{اردو داستان اور ناول فکری و فنی مباحث}،کوڈ نمبر ۔۔۔{9011}،مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}،اردو ناول کے پہلے دور کا مختصر تجزیہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں