مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

بہاؤ سے جندر تک: پاکستانی اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید کا سفر

اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 6 اگست 2025

محقق کا تعارف:
محمد بشارت اردو ادب اور ماحولیاتی تنقید کے شعبے میں ایک ماہر اور مستند محقق ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی اسکالر کی حیثیت سے، ان کا تحقیقی کام اس موضوع پر گہری بصیرت اور علمی مہارت کا ثبوت ہے۔

تعارف

اردو ناول نے ہمیشہ اپنے معاشرے کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی پہلوؤں کی عکاسی کی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دنیا کو ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا، اردو ناول نگاروں نے بھی اپنی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کی۔

اب ناول صرف انسانوں کی کہانی نہیں، بلکہ اس ماحول کی کہانی بھی ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید ایک ابھرتا ہوا مگر انتہائی اہم شعبہ ہے، جو اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہمارے ادیب فطرت، ماحولیات اور انسان کے باہمی رشتے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

اس بلاگ پوسٹ میں، ہم محمد بشارت کے تحقیقی مقالے کی روشنی میں چند اہم پاکستانی ناولوں کا تجزیہ کریں گے جنہوں نے ماحولیاتی شعور کو اپنے بیانیے کا مرکزی حصہ بنایا ہے۔

اردو ناول اور ماحولیاتی تنقید کا باہمی تعلق

شاعر، ادیب، دانشور اور تخلیق کار اپنے ذہن اور سوچ کو مواد اپنے گرد و پیش سے فراہم کرتے ہیں۔ اُن کی تخلیق کے لیے خام مال ماحول کی دَین ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اُن کے موضوعات میں تنوع اور جِدّت پیدا ہوتی ہے۔ تخلیق کار بیرونی عوامل کو بروئے کار لا کر اندرون کے امتزاج سے اپنے شاہکار تخلیق کرتا ہے۔

اس حوالے سے دیکھنے میں آیا ہے کہ شعرا اور ادیب اپنی اپنی تحریروں میں، مذہب، سیاسیات، عمرانیات، معاشیات، نفسیات، ماحولیات غرض یہ کہ ان کے مشاہدہ میں آنے والا ہر موضوع۔ افسانہ، ناول، نظم اور شعر کی ساخت میں ڈھل سکتا ہے۔

انسان اور اس کا ماحول ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان ماحول کے مطابق خود کو تبدیل کرتا ہے۔ اُس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اسی طرح انسان پر اس کا ماحول، اُس کا گرد و پیش، مقامی اور بین الاقوامی حالات اثر انداز ہوتے ہیں۔

ان حالات کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والا ادیب اپنی تحریر میں بھی ماحولیاتی، تاریخی، تہذیبی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی عوامل کو زیرِ بحث لا کر اپنی تخلیق کو حالات و واقعات کے تناظر میں پروان چڑھاتا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ کا ناول "بہاؤ”: ایک تہذیب کا نوحہ

اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید کی بہترین مثالوں میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کا ناول "بہاؤ” ہے۔ یہ ناول ایک ایسی تہذیب کی کہانی ہے جو ایک دریا کے خشک ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ایک تہذیب کا نوحہ نہیں، بلکہ یہ اس حیاتیاتی معاشرہ (Biotic Community) کا نوحہ ہے جس میں انسان، جانور اور پودے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

”گئے برسوں میں پانی یہاں تک آتے تھے۔ اُس نے قدموں میں بچھی سفید مٹی کی تہہ کو دیکھا۔ رُکھوں کے ذخیرے میں چھپا ہوا گہرا انڈیگو میدان پانچ چھ سو کوس لمbaiئی میں اور چوڑائی میں ہوگا۔

پہلے تو جھیل کے پانی رُکھوں کے تنوں تک آتے تھے۔ پر اب وہ صرف بیچ میں سو ڈیڑھ سو کروہ کے رقبے میں سمٹ گئے تھے پر لیٹنے سے ڈوبتے تھے۔

اب بڑے پانی بھی کم آتے تھے اور اگر آتے تھے تو دریا سے نکل کر یہاں تک پہنچتے پہنچتے زمین ہی میں گم ہو جاتے اور یوں ہر برس یہ جھیل بھرنے کی بجائے کچھ اور سوکھ جاتی تھی، کچھ اور سمٹ جاتی تھی۔ پرندے گرتے اور مرتے تھے۔“

ناول میں جب دریا خشک ہوتا ہے تو صرف انسان ہی متاثر نہیں ہوتے، بلکہ جانور پیاس سے مرنے لگتے ہیں، درخت سوکھ جاتے ہیں اور پورا ماحول ایک ویرانے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ناول اس بات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ فطرت کا ایک عنصر تباہ ہونے سے پورا حیاتیاتی معاشرہ کس طرح بکھر جاتا ہے۔

اختر رضا سلیمی کا "جندر” اور "جاگے ہیں خواب میں”

اختر رضا سلیمی کے ناول بھی اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید کے حوالے سے اہم ہیں۔ ان کے ناولوں میں فطرت محض ایک پس منظر نہیں، بلکہ ایک زندہ اور متحرک کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ناول "جاگے ہیں خواب میں” میں وہ لکھتے ہیں:

”آج سے تقریباً پچاس برس پہلے تک بستی والے چیڑ کے درختوں کے بغیر زندگی کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔ بستی کے مکانوں کے ستون کڑیاں، بالے، بلیاں، چوکھٹیں، کھڑکیاں، دروازے، الماریاں اور فرنیچر سب کا سب چیڑ کا ہوتا تھا۔“

یہاں چیڑ کا درخت صرف لکڑی کا ذریعہ نہیں، بلکہ اس بستی کی پوری تہذیب اور زندگی کا محور ہے۔ جب یہ درخت ختم ہوتے ہیں تو گویا ایک پوری تہذیب اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔ اسی طرح ان کا ناول "جندر” بھی فطرت اور انسان کے تصادم کو پیش کرتا ہے۔

خلاصہ

پاکستانی اردو ناول میں ماحولیاتی تنقید ہمیں ادب اور زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ اور اختر رضا سلیمی جیسے ناول نگاروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ناول صرف انسانوں کی کہانی نہیں، بلکہ اس پورے حیاتیاتی معاشرے کی کہانی ہے جس کا ہم حصہ ہیں۔

ان کے ناول ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فطرت کا تحفظ دراصل انسانیت کا تحفظ ہے، اور اگر ہم نے اس رشتے کو نظر انداز کیا تو ہمارا حال بھی "بہاؤ” کی تہذیب جیسا ہو سکتا ہے۔


ماخذ اور حوالہ جات
مقالے کا عنوان: ادب اور ماحولیات: پاکستانی اُردو نظم کا ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ (منتخب شعراء کی نظموں کے حوالے سے)
محقق: محمد بشارت
نگران: ڈاکٹر نعیم مظہر
یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
سالِ تکمیل: 2023
اقتباس کے صفحہ نمبر: 29-45


ڈس کلیمر

کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔

آپ کے خیال میں کون سا جدید اردو ناول ماحولیاتی مسائل کی بہترین عکاسی کرتا ہے؟ اپنی پسندیدہ کتاب کا ذکر کمنٹس میں ضرور کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں