اردو نثر کا تعارف و تفہیم

اردو نثر کا تعارف و تفہیم | Urdu Nasr ka Taaruf o Tafheem

اردو نثر کا تعارف

نثر کیا ہے،یہ کس طرز اظہار کا نام ہے، اس شاخ کی ماہیت کیا ہے ؟

نثر ادب کی شاخ ہے۔نثر کے لغوی معنی ہیں پراگندہ، بکھرا ہوا منتشر ۔ جب ہم کچھ محسوس کرتے ہیں تو مذکورہ بالا نفسی تناؤ کے نتیجے میں ذہن خود کار طریقے سے الفاظ کو جنم دیتا ہے اور وہ الفاظ زبان پر فطری انداز میں جاری ہو جاتے ہیں۔

ہم اس عمل میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے الفاظ لاشعوری طور پر استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ جس طر زیا ترتیب میں لاشعوری طور پر نہاں خانہ ذہن سے لباس صوت و حرف میں آتے ہیں، اس طرز کو جملہ یا فقرہ کہتے ہیں ۔ بہ قول مولوی عبدالحق :

” بول چال کا کم سے کم جز جملہ ہے۔ جملہ لفظوں سے بنتا ہے اور لفظ کا صحیح مفہوم اس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ جملے میں آتا ہے ۔” (اردو صرف ونحو ص ۸)

جملہ یا فقرہ نثر کی اکائی ہے۔ اظہار کا فطری انداز بیاں نثر ہے ۔ نثر سے مراد وہ عبارت ہے جو جملوں کی مددسے پیراگراف کی شکل میں لکھی جائے ۔ عام طور پر ہم ایک دوسرے سے جو گفتگو کرتے ہیں وہ نثری طر ز اظہار ہے۔ جب ہم اظہار کے لیے الفاظ کو کسی آہنگ یا توازن کے ربط میں باندھتے ہیں تو وہ نثر نہیں رہتی بلکہ نظم بن جاتی ہے، جملہ مصرع بن جاتا ہے۔ یوں وسیلہ اظہار ایک دوسری صورت اختیار کر لیتا ہے جسے شعر کہتے ہیں۔

تخلیقی نثر

تخلیق عربی لفظ خُلق” سے ماخوذ ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کے بہت سے معانی ہیں ۔ قرآن حکیم میں ایک سو اسی مقامات پر خلق کے مشتقات مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔ خلق ” کے کچھ معانی یہ ہیں: پیدا کرنا بنانا صورت گری کرنا ، بغیر نمونے کی ایجاد اور جھوٹی بات گھڑ لینا ۔

اردو میں تخلیق کا لفظ قریباً انھی معنوں میں استعمال ہواہے۔ مذکورہ بالا معانی کی روشنی میں تخلیقی نثر کی تعریف کچھ یوں کی جاسکتی ہے:

” نثر کی کسی بھی صورت میں (صنف میں ) نمونے یا نمونے کے بغیر اپنے جی سے کوئی خیال پیدا کرنا ،کسی تصور کی صورت گری کرنا یا کوئی بات گھڑ کر ضبط تحریر میں لانا تخلیقی نثر کہلاتا ہے”

تخلیقی نثر غیر حقیقی مواد پر مبنی ہوتی ہے۔ مسرت آفرینی اور شعور بخشی اس کے بنیادی مقاصد ہیں ۔

۱۲۔ تخلیقی نثر کے رنگ

کسی بھی عبارت میں جملے تین طرح کے ہو سکتے ہیں۔ عبارت اگر فطری انداز گفتگو کے مطابق ہو، تو اسے سادہ نثر کہتے ہیں۔ سادہ نثر روزمرہ کی زبان ہے۔ اگر نثری عبارت لکھنے کے لیے شعوری طور پر دو فقروں کے کلمات مقابل ، با ہم ہم وزن اور ہم قافیہ رکھے گئے ہوں تو ایسی نثر کو کر مرجز کہتے ہیں مثلا :

بلبل نوا سنج ہزار داستان، طوطی خامه زمزمه سرد خوش بیاں ،گلشن تقریر میں اس طرح چہکا ہے، صفحۂ فسانہ مہکا ہے۔ تیسری صورت مقفی و مسج نثر کی ہے۔ مقفی قافیے والی نثر ،مسجع ،سجع سے اسم مفعول ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کبوتر اور قمری کی آواز مسجع ،علم بدیع کی اصطلاح بھی ہے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

"مسجع اور مرصع ” مسجع سے مراد وہ عبارت ہے جس کے فقروں کے آخری کلمات قافیہ رکھتے ہوں، مثلاً: ایک مرد پیر نحیف ، ستر اسی برس کارسن، نہایت ضعیف یا دوسری مثال: ایک جانور مانند ساکنان سبز پوش ، طائر بے مروت ، خانہ بدوش ۔

اگر نثر میں قافیے فقرہ کے درمیان اور آخر میں ہوں تو وہ نثر مرصع ہوگی جیسے:
طوطا پس آئینہ بیان کر رہا ہے۔ تماشائیوں کی کثرت سے بازار بھر رہا ہے۔

پروف ریڈنگ: شمیم اشفاق

حواشی

موضوع ۔نثر
کتاب ۔تحریر و انشا (عملی تربیت)
کورس کوڈ ۔9008
مرتب کردہ۔ فاخرہ جبین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں