اردو میں تذکروں کی روایت کا تحقیقی جائزہ | Urdu mein Tazkaron ki Riwayat ka Tehqiqi Jaiza
تحریر : نائلہ ارم، مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد
موضوعات کی فہرست
اردو میں تذکروں کی روایت کا تحقیقی جائزہ
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جس طرح اپنی زندگی کے حقائق کو دوسروں تک منتقل کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اسی طرح دوسروں کی روداد حیات سے آشنا ہونا چاہتا ہے۔ مختلف افراد کے ذکر کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ انسان اپنے مذاق کے اعتبار سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اظہار کو پسند کرتا ہے اسے اس بات کی بھی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اسلاف کے کارناموں سے آشنا ہو ۔ تذکرہ وہ ذریعہ ہے جو فنکاروں کی حیات و کارگزاریوں سے ہمیں آشنا کرتا ہے۔
دنیا میں نہ جانے کیسی کیسی شخصیتیں پیدا ہوتی ہیں اور اپنے کارنامے چھوڑ جاتی ہیں۔ زمانے کا طوفان ان کو کبھی بہا لے جاتا ہے اور کبھی رہیز گرد ڈال دیتا ہے۔ایسی صورت میں تذکرے انہیں اپنے دامن میں پناہ دیتے ہیں اور عظیم شخصیتوں کی عظمت کے راز سے واقف کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
بہ الفاظ دیگر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تذکرہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو علم وفن کے مختلف خزانوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے بلکہ اہم شخصیتوں کے کارناموں کو یادگار زمانہ بنا دیتا ہے۔ تذکرہ کی اسی افادیت کی کی بنا پر اسے ادب میں ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے۔ بقول ایک ناقد:” تذکرہ نگاری ایک کمپوزٹ آرٹ ہے اس سے علم و ادب کے کئی سر چشمے پھوٹتے ہیں۔”
ادب میں تذکروں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ تاریخ بھی ہیں اور تنقید بھی۔ اگر تذکرے نہ ہوتے تو ہم بیش تر قدیم شعرا کے احوال و کلام سے ناواقف ہوتے۔ تذکروں کی بدولت ایسے بے شمار شاعر تاریخ میں محفوظ ہو گئے ہیں جن کا نہ کلام کتابی شکل میں موجود ہے اور نہ حالات زندگی کا کسی کو علم ہے۔ تذکروں نے انھیں گمنام ہونے سے بچا لیا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے زیادہ تر اردو شعرا سے واقفیت محض تذکروں کی بدولت ہوتی ہے۔
تذکروں سے نہ صرف زبان کی تاریخ بنتی ہے بلکہ تنقید کی بھی ابتدا ہوتی ہے۔ اگر چہ تذکروں میں کسی بھی شاعر کے مختصر حالات اور اس کے کلام پر مختصر تبصرہ موجود ہے لیکن موجودہ عہد میں یہ مختصر معلومات بھی اردو ادب کی تاریخ کو ترتیب دینے میں انتہائی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اردو شعراء کے بیش تر تذکرے فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں ۔
اردو میں تذکرہ نگاروی کی روایت
اردو میں تذکرہ نگاری کا آغاز فارسی کے زیر اثر ہوا۔ تذکرہ نگاری کے قاعدہ آغاز سے قبل بیاض لکھنے کا رواج تھا۔ اس زمانے کا دستور تھا کہ لوگ اپنی پسند کے اشعار کا انتخاب کرتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے۔ یہ انتخاب ان کا ذاتی انتخاب ہوتا۔
رفتہ رفتہ بیاض میں اپنی پسند کے اشعار کے ساتھ ساتھ شاعر کا نام اور تخلص بھی شامل ہوتے گئے ۔ پھر ان ناموں کے ساتھ شعراء کے کے مختصر حالات زندگی اور کلام پر سرسری تبصرے کا بھی اضافہ ہوا تو اس کا نام تذکرہ ہو گیا۔
اردو میں تذکرہ نگاری کا آغاز فارسی کے زیر اثر ہوا تھا۔ اس لیے ابتدائی تذکرے فارسی میں ہی لکھے گئے اور جب اردو تذکرہ نویسی کا رواج ہوا تو تذکرہ لکھتے وقت فارسی تذکروں کی ہی پیروی کی گئی۔
اردو میں تذکرہ نگاری کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوا اور اس نے عربی اور فارسی کی پیروی کرتے ہوئے ابتدائی منزلیں طے کیں ۔ ان تذکروں میں جو واقعات بیان کیے جاتے ان کی صداقت کے بارے میں زیادہ چھان بین نہ کی جاتی ۔
تاریخی اعتبار سے ان واقعات کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔ ان قدیم تذکروں میں کئی طرح کی خامیاں رہیں مگر تحقیقی اعتبار سے ان کی بے حد اہمیت ہے۔ کیونکہ ان تذکروں کے باعث متذکرہ عہد کی زندگی اور طرز معاشرت کا پتہ چلتا ہے۔
ان تذکروں کی بدولت محققین کو بہت سارا مواد دستیاب ہوا۔ ڈاکٹر گیان چند "اردو کی ادبی تاریخیں” میں رقم طراز ہیں:
’’ اردو شعرا کے حالات لکھنے کی روایت تین منزلوں میں استوار ہوئی ہے۔ پہلی منزل بیاض کی تھی جس میں صاحب بیاض اپنے پسندیدہ اشعار درج کر لیتا تھا۔ دوسری منزل تذکرے کی ہے جس میں اشعار کے ساتھ ان مصنفوں کے حالات بھی لکھ دیے جاتے تھے اور انھیں تخلصوں کی ہجائی ترتیب سے درج کیا
جاتا تھا۔ تیسری منزل تاریخ ادب کی ہے جس میں شعرا کو تاریخی ترتیب سے درج کیا گیا، ادوار قائم کیے گئے اور ہر دور کی خصوصیات دریافت کی گئیں۔‘‘(۱)
قدیم تذکروں کا مطالعہ کرنے سے ان میں پائی جانے والی دو بڑی خامیاں سامنے آئیں۔
ایک تو یہ کہ ان میں شعرا کے حالات کی طرف کم توجہ کی۔
دوسری یہ کہ بیان کردہ واقعات کی تصدیق کی طرف خصوصی توجہ نہیں کی ۔ لیکن اس کے باوجود ان تذکروں کی بدولت ان کے شعرا کے عہد کے واقعات پر بھی روشنی پڑتی ہے جس سے اس عہد کے سیاسی ، معاشی و معاشرتی ماحول سے کسی حد تک قاری کی آشنائی ہوتی ہے۔
تحقیق کے نقطہ نظر سے ہو سکتا ہے کہ ان تذکروں کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو لیکن ان سے محققین کو بہت کچھ مواد ملا ہے۔ قدیم تذکرہ نویسوں کے بارے میں ڈاکٹر احسن فاروقی ” اردو تنقید میں لکھتے ہیں:
’’نہ اس کو اس بات میں غرض تھی کہ کسی فرد کی زندگی کے نمایاں واقعات ہی لکھ دیے جائیں ، نہ اس کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی کہ کسی فرد کی شخصیت نمایاں کر دی جائے ، نہ اس پر یہ لازم تھا کہ کسی فرد کے خاص کارناموں کا ذکر کیا جائے ۔‘‘ (۲)
آج ہمارے پاس شمالی ہند یا دکن کے شعرا کے بارے میں جو معلومات ہیں وہ ان تذکروں کی ہی بدولت ہیں۔
ڈاکٹر سید عبد للہ نے شعرائے اردو کے تذکرے اور تذکرہ نگاری کا فن میں تذکروں کو سات قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ تقسیم بے حد اہم ہے۔ اس سے تذکرہ نگاری کے ارتقائی سفر کا پتہ چلتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
اول: وہ تذکرے جن میں صرف اعلیٰ شاعروں کے مستند حالات جمع کیے گئے ہیں۔
دوم: وہ تذکرے جن میں تمام قابل ذکر شعرا کو جگہ دی گئی ہے۔
سوم : وہ تذکرے جن کا مقصد تمام شعرا کے کلام کا عمدہ اور مفصل ترین انتخاب پیش کرنا ہے۔
چہارم : وہ تذکرے جن میں اردو شاعری کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پنجم : وہ تذکرے جو شاعری کے ایک مخصوص دور سے بحث کرتے ہیں ۔
ششم: وہ تذکرے جو کسی وطنی یا ادبی گروہ کے نمائندے ہیں۔ ہفتم: وہ تذکرے جن کا مقصد تنقید سخن اور اصلاح سخن ہے ۔
اردو میں شعراء کے تذکرے جتنے لکھے گئے وہ درج ذیل میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔
فارسی زبان میں شعرائے اردو کے تذکرے
اردو زبان میں شعرائے اردو کے تذکرے
انگریزی اور فرانسیسی زبان میں شعرائے اردو کے تذکرے
آپ حیات کے بعد چند تذکرے
جہاں تک کہ فارس زبان میں شعرائے اردو کے تذکروں کا تعلق ہے ڈاکٹر محمد منصور عالم کی تحقیق کے مطابق نکات الشراء” از میر تقی میر کو اولیت حاصل ہے ۔ نکات الشراء میں کل ۱۰۲ شراء کے احوال و کلام درج ہیں چین میں ۳۲ دکنی اور گجراتی ہیں اور بقبہ شمالی ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تذکرہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ میر تقی میر نے نہ صرف شعراء کے مختصر احوال اور چند نمونہ کلام پر اکتفا کیا ہے بلکہ شعراء کے کلام پر تنقید بھی کی ہے۔
گلش ہند مؤلف مرزا علی لطف ۱۲۱۵ میں مکمل ہوا۔ یہ در اصل علی ابراہیم خان خلیل کا تذکرہ ” گلزار ابراہیم” کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔ توجمہ گلکرسٹ کے ایما پر فورٹ ولی کا لج میں ہوا ۔ یہ تذکرہ مولوی عبدالحق نے ۱۹۰۶ ء میں حیدرآباد دکن سے شائع کیا۔
گارساں دتاسی ایک فرانسیسی مستشرق اردو کے بہت بڑے محقق تھے ۔ انہوں نے ارد ہندوستان کا دورہ نہیں
کیا تھا۔ لیکن پیرس میں رہکر اردو زبان کے مختلف قلمی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اردو زبان کے آغاز و ارتقاء پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اردو کے نامور شعراء کے کلام پر اپنی رائیں بھی دی تھیں ۔
علاوہ ازیں اردو نثر نگاروں کی کتابوں کا کے بھی مطالعہ کیا تھا اور اپنی رالیوں سے نوازا تھا۔ ان کے سارے خیالات خطبات گارساں دتاسی کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انجمن ترقی اردو حیدرآباد نے گارساں دتاسی کے خطبات کو کئی جلدوں پر مشتمل شائع کیا ہے۔ یہ کتاب اردو ادب کی تاریخ میں گرانقدر اضافے کے مترادف ہے۔ گارساں دتاسی نے اردو شعراء وار با پر مشتمل ایک تارکیرہ لکھا ہے۔
۱۷۵۰-۵۱ء میں میر تقی میر نے اردو شعرا کا تذکرہ لکھا ۔ اس تذکرہ کو تذکروں کی دنیا میں اولیت حاصل ہے۔ اس تذکرہ کو نکات شعرا کا نام دیا گیا ہے۔ اردو میں تذکرہ نویسی کا آغاز فارسی زبان و ادب کی وجہ سے ہوا اس لیے یہ تذکرے لکھتے وقت فارسی تذکرہ نویسوں کی ہی پیروی کی گئی۔ میر کا تذکرہ اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ انھوں نے شاعروں کے حالات زندگی اس طرح پیش کیے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔
میر کے تذکرے کے بعد اسی زمانے میں حمید اورنگ آبادی نے گلشن گفتار” کے نام سے اردو شعرا کا ایک تذکر و لکھا ۔ ان کے ساتھ ساتھ افضل بیگ اقشال نے تحفہ الشعرا” کے عنوان سے ایک تذکر ہ لکھا ۔ ۱۸۸۰ ء سے پہلے کئی تذکرے لکھے گئے ۔ میر کے بعد کئی ایک تذکرے لکھے گئے ۔ لالہ سری رام کا خمخانہ جاوید، اس دور کی تذکرہ نویسی میں آخری تذکرہ ہے۔
اس دور کے اہم تذکروں میں میر حسن کا تذکرہ شعرائے اردو ، قدرت اللہ قاسم کا مجموعہ نغز ، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کا تذکرہ "گلشن بے خار اور کریم الدین کا طبقات الشعرا کی کافی اہمیت ہے۔ ان تذکروں میں شاعروں کے حالات زندگی اور ان کے کلام پر مختصر تبصرہ اور ان کے کلام سے انتخاب پیش کیا گیا ہے یہ تذکرے اگر تنقید کے نقطہ نظر سے دیکھے جائیں تو معیاری نہیں ہیں مگر ان کی تاریخی اہمیت ہے ۔
ان تذکروں کی بدولت اس عہد کے ادبی حالات سے واقفیت ہوتی ہے۔ آج تک کوئی بھی ایسا تذکرہ یا ادبی تاریخ نہیں لکھی گئی جس میں کسی شاعر یا پھر کسی او یا ادیب کے مکمل کوائف یا ان کے متعلق تفصیلات کسی ایک ہی جگہ پر دستیاب ہوں ۔ تذکرہ نگار کے پیش نظر ایک تو اپنی پسند ہوتی اور دوسرا وہ کبھی شاعر کو مکمل طور پر پیش نہیں کرتے تھے۔ ان کے نزدیک شاعر کے کلام کا انتخاب ہی اصل بات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی ” اردو تنقید کا ارتقا میں لکھتے ہیں :
’’ یہ تذکرہ نویس کسی شاعر پر مکمل تنقیدی مضمون نہیں لکھتے تھے کہ جس کی وجہ سے پس منظرا جاگر ہو جاتا کہ اس کی حیثیت تاریخی سے ادبی ہو جاتی ، ان کا مقصد تو صرف اپنے تنقیدی نقطہ نظر کے سہارے اس کے بہترین اشعار کا انتخاب پیش کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے اگر انھوں نے شاعر کی زندگی شخصیت اور اس کے ماحول کی جھلک بھی دکھا دی تو یہ بھی بڑا کام ہوا ۔ ‘‘(۳)
تذکرہ نگاری اور تنقید کا بھی گہرا رشتہ ہے۔ لیکن کچھ تنقید نگاروں نے تذکرہ نویسوں کے بارے میں یہ رائے دی کہ ان کو تنقیدی شعور نہیں تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری تنقید نگاروں کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں ۔ ان کے مطابق اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اردو میں ادبی تنقید کی داغ بیل تذکرہ نگاروں کے ہاتھوں پڑی۔ کلیم الدین احمد کے مطابق قدیم تذکرہ نگار تنقید کی ماہیت اور اس کے مقاصد اور اس کے صحیح اسلوب سے بھی واقفیت نہ رکھتے تھے جیسے اردو شاعروں کو شاعری کی ماہیت اور اعظم کے صحیح مفہوم سے واقفیت تھی ۔
تذکرہ نگاری کا پہلا دور "آب حیات” سے پہلے تک کا ہے۔ محمد حسین آزاد نے ۱۸۸۰ء میں آب حیات کے نام سے شعرا کا تذکرہ لکھا: ” آب حیات مصنف کے زور قلم کا نتیجہ ہے جو قدیم تذکرہ نگاری اور ادبی تاریخ کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ” آب حیات نے چھپتے ہی چاروں طرف دھوم مچادی۔
آب حیات تاریخی اور انفرادی اعتبار سے ایک اہم دستاویز ہے۔ آب حیات قدیم تذکرہ نگاری اور جدید ادبی تاریخ نویسی کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کچھ خصوصیات تذکرہ نویسی کی ہیں اور کچھ ادبی تاریخ کی۔ مجموعی اعتبار سے اسے اردو شاعری کی پہلی ادبی تاریخ کہا جا سکتا ہے
اس کے بعد باقاعدہ تاریخ نویسی کا آغاز ہوا۔
جس زمانے میں ” آب حیات، تخلیق کی گئی اس کے فورا بعد مولوی عبد الحئی نے "گل رعنا” کے نام سے ادبی تاریخ لکھی۔ انھوں نے کافی حد تک ” آب حیات سے استفادہ کیا۔
شبلی نعمانی نے فارسی شاعری کی تاریخ شعر العجم “ کے نام سے لکھی ۔ شعر الحجم “ میں انھوں نے اشعار کا جو انتخاب پیش کیا وہ بھی لاجواب ہے۔ ناقدین نے شعر انجم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا مگر اس کے باوجود شعر انجم “ کا کوئی نعم البدل پیدا نہ ہو سکا۔
حیرت اس پہ ہے کہ اردو میں نثر نگاروں کے تذکرے بھی نہیں لکھے گئے اور ایک آدھ ہی تذکرے میں اس نوعیت کی کوشش کی گئی۔ خواجہ عبدالرؤوف عشرت لکھنوی کے تذکرے آپ بتا کے علاوہ اردو میں اہم نثر نگاروں کا کسی زمانے میں بھی کوئی باقاعدہ تذکرہ نہیں ملتا کہیں کہیں ہم شعرا کے ترجمہ کے اجمال میں ان کی نثری تصنیف کا حوالہ ضرور دیکھتے ہیں لیکن نری اقتباس نہیں۔
آزادی کے بعد سے تذکرہ نگاری کے اسلوب اور انداز و پنج میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ چنانچہ ایسے متعدد تذکرے اس دور میں لکھے گئے جنھیں کسی مخصوص طبقے یا علاقے تک محدود سمجھنا چاہئے ۔ ایسے تذکروں کا تحقیقی اعتبار سے ایک بڑا اور افادی پہلو یہ ہے کہ اس سے ایک مخصوص طبقے یا خطے کے زیادہ سے زیادہ شعر اپردہ اخفا سے باہر نکل سکے۔
ایسے تذکروں میں انجمن گل، تذکرہ شعرائے جے پور، آب خضر، بہار سخن ، راجستھان کے موجودہ اردو شاعر، دامان باغباں ، حجاز مقدس کے اُردو شاعر، اُردو ادب میں سکھوں کا حصہ چند شعرائے بریلی ، آپ، آپ تھے ، آپ ہیں، سخنوران گجرات، دبستان عظیم آباد، گلدستہ شعرائے پھلی ، تذکرہ شعرائے فرخ آباد، تذکرہ شعرائے اتر پردیش، تذکرہ معاصر شعرائے جودھ پور ، دہلی کی نواحی بستیوں میں اُردو،
اشتراک ، تذکرہ شعرائے برج پردیش ضلع بجنور کے جواہر اور تذکرہ شعرائے ٹونک قابل ذکر ہیں ۔علاوہ ازیں ایسے تذکرے بھی ہیں جن میں کسی خاص صنف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس دور میں ایسے تذکروں کی تعداد بھی کم نہیں جن میں اُردو شاعری کے مختلف دبستانوں کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
علاوہ بریں اساتذہ فن کی صحبتوں سے فیض یاب تلاندہ کو بھی اپنے تذکروں میں انفرادی طور پر جگہ دی گئی ہے جس سے متعلقہ دبستان کے امتیازی اوصاف پر روشنی پڑتی ہے۔
اس قسم کے تذکرے بادی النظر میں تذکرہ نگاری کی فنی حدود سے متجاوز معلوم ہوتے ہیں۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے لکھے گئے ان تذکروں میں پس منظر کے طور پر جو ابواب لکھے گئے ہیں ان سے راست طور پر زمیر نظر کتاب کا جسے عموماً تذکرہ کہا گیا ہے، کوئی تعلق نہیں ۔
چند اہم تذکروں کا مختصر جائزہ
نکات الشعراء
نکات الشعرا میں کل ۱۰۲ شعرا کے احوال و کلام درج ہیں جن میں ۳۲ دکنی اور گجراتی شاعر ہیں اور بقیہ شمالی ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تذکرہ ریختہ گویان کے سلسلے میں میر کے نکات الشعرا کو اولین تذکرے کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر چہ اس سلسلے میں ڈاکٹر انصار اللہ کا نقطہ نظر مختلف ہے، انھوں نے گلشن گفتار ( مرتبہ حمید اور نگابادی) کو اولیت کا شرف بخشا ہے ہے لیکن مشہور مورخین اور ناقدین کی رائے یہ ہے کہ نکات الشعرا ہی ریختہ گویان کا پہلا تذکرہ ہے۔
میر کے اس تذکرے میں شعرا کی شخصیت اور حالات کے بیان کے ساتھ ساتھ کلام پر اظہار رائے اور تنقید بھی ملتی ہے۔ ساتھ ہی ریختہ کے اقسام، اس کی خصوصیات اور مروجہ شعری مزاج کا بتفصیل ذکر بھی اس میں موجود ہے۔ میر شاعری کا زبردست تنقیدی شعور رکھتے تھے، شعر میں سادگی اور صفائی کے بڑے دلدادہ تھے،
شعرا کے متعلق میر کے مختصر مگر جامع ہیں۔ میر پہلے تذکرہ نگار ہیں جنھیں مشرقی شعریات پر عبور حاصل تھا ۔ نکات الشعرا کے مطالعے سے اس زمانے کے ادبی ماحول ، طرز معاشرت اور رسم ت اور رسم و رواج کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ میر کا یہ تذکرہ اپنے دور کے تقاضے کی وجہ سے فارسی زبان میں ہی مرتب ہوا ہے،
اگر چہ ان کے یہاں تنقید شعر میں تلخی اور بے دردی پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ بقول ڈاکٹر سید عبد الله : بعض شعرا کے ذکر میں میر صاحب کا لب ولہجہ طنز آمیز اور تلخ ہے، جس سے تنقید میں تلخی ہی نہیں بلکہ شدید بے دردی پیدا ہو گئی ہے ہے۔ نکات الشعرا کو سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے ۱۹۳۵ میں انجمن ترقی اُردو د کن سے شائع کیا۔ پروفیسر محمود الہی نے ۱۹۷۲ میں پیرس کے مخطوطے کو پیش نظر رکھ کر دوبارہ شائع کیا اور اس کی صحت کا پورا خیال رکھا۔ موصوف نے نکات الشعرا کی تالیف میں ان تمام باتوں کا لحاظ رکھا ہے جو تذکرے کی تالیف کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں ۔
گلشن گفتار
یہ حمید اورنگ آبادی کا ایک مختصر تذکرہ ہے۔ اس میں ۳۰ شعرا کا نمونہ کلام اور حالات زندگی درج ہیں۔ دیباچے میں تذکرہ نگار نے اس کا مادہ تاریخ گلشن بزم گفتار (۱۱۶۵ھ) درج کیا ہے جس سے عیسوی سال تصنیف
۵۲-۱۷۵۱ برآمد ہوتا ہے۔ اس تذکرے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دکن اور بالخصوص اورنگ آباد میں شعر وسخن کی ترقی کے ساتھ عام طور پر شاعری کا مزاج کیا تھا۔
ڈاکٹر انصار اللہ نے اس تذکرے میں تاریخی ترتیب کے عصر کو بہت اہم خیال کیا ہے۔ چونکہ اس تذکرے کے زمانے تک بیش تر فارسی گویان کے تذکرے ہی مرتب ہوئے تھے، جن کا ذکر گلشن گفتار میں اشارتاً کیا گیا ہے اس لیے جن اُردو شعرا کا حوالہ یا ترجمہ اس تذکرے میں آیا ہے اسے اُردو کے بتدریج ارتقا کے مطالعے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حمید نے اپنے تذکرے میں ریختہ کی اقسام بھی بیان کی ہیں۔ چنانچہ اس نے ریختہ ابہام اور ریختہ ہائے صنائع’ کے عنوان سے مروجہ ریختہ گوئی سے متعلق اپنی معلومات کا ثبوت دیا۔
تحفتہ الشعراء
اس تذکرے کے مصنف افضل بیگ قاقشال ہیں۔ سال تصنیف اس کا بھی ۱۷۵۱-۵۲/۱۱۶۵ ہے۔ یہ بھی فارسی زبان میں ہے اور قدیم ترین تذکروں میں شمار ہوتا ہے۔ نکات الشعراء، گلشن گفتار اور تحفۃ الشعرا تینوں ۱۱۶۵ھ میں مرتب ہوئے۔ تحفۃ الشعراء میں دکن کے بعض ایسے شعرا کا ذکر مل جاتا ہے جن کا ذکر نکات الشعرا اور گلشن گفتار میں نہیں ملتا۔
اس میں اُردو اور فارسی شعرا کو جگہ دی گئی ہے جن میں ریختہ کے صرف ۸ شعرا نہیں ہے۔ شعرا کی تاریخ پیدائش اور وفات پر تو جرم ہے۔ اس کے برحس شعرا کی تاریخ پیدائش اور وفات پر توجہ کم ہے۔ اس کے برعکس وطن اور جائے سکونت کا ذکر بطور خاص کیا گیا ہے۔ حالات زندگی اور انتخاب کلام دونوں میں ہی اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔
ریاض حسنی
خواجہ عنایت اللہ فتوت اس تذکرے کے مصنف ہیں۔ یہ مابعد ۱۱۶۶ھ میں لکھا گیا ہے۔ شاعروں کے حالات نمونہ کلام کے ساتھ درج ہیں۔ اس میں ایسے بہت سے شعرا کا حال ملتا ہے جو اور دیگر تذکروں میں مفقود ہے۔ اس میں ۱۸۵ شعرا کا حروف تہجی کے اعتبار سے ذکر کیا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر حنیف احمد نقوی: اس تذکرے کا ایک قلمی نسخہ سینٹرل رکارڈ آفس حیدر آباد دکن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔
مخزن نکات
یہ تذکرہ شیخ محمد قیام الدین قائم نے ۱۱۶۸ھ مطابق ۵۶-۱۷۵۵ میں تصنیف کیا۔ یہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ طبقہ اول میں متقدمین ، طبقہ دوم میں متوسطین اور طبقہ سوم میں متاخرین شعرا کا ذکر ہے۔ مرتب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ اردو شعرا کا اولین تذکرہ ہے۔ اس میں ایک سو میں شعرا کا ذکر ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ: قائم کے تذکرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پہلی دفعہ اُردو شاعری کے ادوار مقرر کیے گئے ہیں۔ اگرچہ تذکرہ نکات الشعرا میں بھی کچھ نیم تاریخی سی ترتیب موجود ہے مگر قائم نے اس معاملے میں قدرے اصول بندی سے کام لیا ہے اور ہر دور کے شروع میں اس دور کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ تذکرہ نگاری میں یہ تاریخی احساس لٹریری ہسٹری کی طرف رجحان کا پہلا قدم ہے جو آگے چل کر آب حیات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
چمنستان شعرا ء
نرائن شفیق اورنگ آبادی نے یہ تذکرہ ۱۱۷۵ھ میں مرتب کیا۔ فاضل تذکرہ نگار نے اسے میر کے جواب میں لکھا۔ اسے ۱۹۲۸ میں ڈاکٹر عبد الحق نے مع مقدمہ شائع کیا۔ اس کی دوسری اشاعت انجمن ترقی اُردو اورنگ آباد سے ۱۹۳۸ میں عمل میں آچکی ہے۔ اس تذکرے کے متعلق ڈاکٹر حنیف احمد نقوی لکھتے ہیں:
چمنستان شعرا میں ابتدائی دور کی عام روایات کے برخلاف تنقیدی مواد بھی خاص مقدار میں موجود ہے۔ شفیق نے کلام کے متعلق عام طور پر جن الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے ان کے تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شعر و سخن کے دائرے میں معانی تازہ و مضامین بیگانہ کی تلاش اور متانت خیال و شیرینی مقال کو خاص اہمیت دیتے ہیں ۔
نکات الشعراء میر تقی میر
گلشن گفتار خواجہ حمید خان حمید
تحفتہ الشعراء افغل بیگ
ریختہ گویان فتح علی گروزی
ریاض حسینی عنایت اللہ
مخزن نکات قیام الدین
چمستان شعراء نرائن شفیق
طبقات شعراء قدرت اللہ شوق
تزکرہ شعراء اردو میر حسن دہلوی
گل عجائب اسد اللہ خان تمنا
تذکرہ شوق اسد علی خان
حسرت افزا ابو الحسن
گلشن سخن مرزا کاظم
گلزار ابراہیم محمد ابراہیم خان
تذکرہ ہندی غلام حمدانی مصطفی
عیار شعراء خوب چند ذکا
گلشن ہند مرزا علی لطف
مجموعہ الانتخابات شاہ کمال
گلشن بے خار مصطفےٰ خان شیفتہ
حواشی
۱۔گیان چند ڈاکٹر، اردو ک ابی تاریخیں، کراچی،انجمن ترقی،۲۰۰۰ء،ص ۱۰۳
۲۔ احسن فاروقی ڈاکٹر، اردو میں تنقید، لاہور، مکتبہ عالیہ، ۱۹۸۶ء،ص ۱۴
۳۔ عبادت بریلوی ڈاکٹر،اردو تنقید کا ارتقاء، کراچی،انجمن ترقی،۱۹۹۴ء، ص ۱۰۵