اردو میں شہر آشوب کی روایت

{موضوع} اردو میں شہر آشوب کی روایت،

{کتاب کا نام} شعری اصناف،

{کوڈ کورس} 9003،

{صفحہ نمبر} ۔ *ص۔ 149،

موضوع نمبر 1.2-1.3

{مرتب کرده}… مسکان محمد زمان

اردو میں شہر آشوب کی روایت

اردو ادب کے سماجی شعور کے مطالعے کے لیے شہر آشوب بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ شہر آشوب بتاتے ہیں کہ ہر عہد کے شعرا اپنے زمانے کی سیاسی و اقتصادی بد حالی سے ناواقف نہیں تھے۔ سماجی انتشار اور معاشی ابتر حالت نے پورے سماج کی جڑوں کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ اردو ادب کی بہت کم تاریخیں ایسی ہیں جن میں سماج کی ابتر اقتصادی حالت کو مرکز موضوع بنایا گیا ہے۔

اکثر تاریخ نگاروں نے اردو شاعری کو محبوب کی زلفوں کی عکس بندی تک محدود بتایا ہے۔ اردو کے پہلے معلوم شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری سے لے کر مغل سلطنت کے زوال تک بہت سے شعرا نے اپنے عہد کی ابتر حالت کو بیان کرنے کے لیے شہر آشوب لکھے۔

مسعود سعد سلمان، امیر خسرو، جعفر زٹلی، شاکر ناجی، میر اور سودا نے بہت عمدہ شہر آشوب لکھے ہیں ، جن سے پورے عہد کے حالات آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگتے ہیں۔ شاہ حاتم نے دلی کی تباہی کو اپنے شہر آشوب کا موضوع بنایا۔ نفسا نفسی اور بدانتظامی نے دلی شہر کی تہذیب کو اجاڑ کے رکھ دیا تھا ، شاہ حاتم جس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

دور حاضر میں صنف شہر آشوب

ہر دور میں شہر آشوبی صورت حال موجود رہی ہے ، اس لیے اردو شاعری میں اس صنف کا وجود برقرار ہے۔ چوں کہ یہ صنف موضوعاتی ہے، ہیئتی نہیں ، اس لیے مختلف ہیتوں میں شہر آشوب آج بھی لکھے جا رہے ہیں۔ صدف نقوی لھتی ہیں:

——> دور حاضر میں بھی شعرا نے شہر آشوب لکھے ہیں۔ قتیل شفائی کے مجموعے برگد میں آٹھ اشعار پر مشتمل ایک شہر آشوب ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان معاندانہ فضا پر افسوس کا اظہار ہے، لکھتے ہیں :

شعر

غم تو یہ ہے گر گئی دستار عزت بھی ، قتیل
ورنہ ان کندھوں پر سر تیرا بھی ہے میرا بھی

——-> افتخار عارف نے اپنی نظموں احتجاج ہوا چپ رہی کے علاوہ غزلوں میں بھی سیاسی جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے، جنھیں شہر آشوب کہنا بے جا نہ ہوگا۔

شعر

کسی کے جور و ستم یاد بھی نہیں کرتا
فریاد بھی نہیں کرتا عجیب شہر ہے

——> معروف شاعر سید ضمیر جعفری کی تخلیق ” مسدس بدحالی میں بھی شہر آشوب کا رنگ و آہنگ پوری تابانی کے ساتھ موجود ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں