اردو میں فکاہیہ کالم نگاری کی ابتدا | Urdu mein Fakahiya Column Nigari ki Ibtida
اردو میں فکاہیہ کالم نگاری کی ابتدا
اردو صحافت میں پہلا خالص طنزیہ و مزاحیہ ہفت روزہ اخبار "اودھ پنچ” کے نام سے منشی سجاد حسین نے جاری کیا۔ اس میں معاشرے میں پھیلی ہوئی ہر قسم کی بے اعتدالیوں پر طنزومزاح کے پردے میں تنقید کے نشتر برسائے جاتےتھے۔ اودھ پنچ کی دیکھا دیکھی ہندوستان سے اسی نوعیت کے کئی اخبار شائع ہونے لگے ۔
انگریزوں کی حکومت میں اس طرح کے اخبارات کو ترویج ملنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ جو باتیں کھلم کھلا کہنے کی ممانعت تھی، وہ فکاہات کی صورت میں عام طور پر لکھی جانے لگیں ۔ یہیں سے اردو صحافت میں فکاہات نگاری کی پختہ روایت کا آغاز ہوتا ہے۔
سنجیدہ اخبارات میں فکاہیہ کالم نگاری کی ابتدا بیسویں صدی کے آغاز (۱۹۱۲ء) میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفت روزہ اخبار ” الہلال” سے ہوئی ۔ انھوں نے اپنے اخبار میں افکار و حوادث کے عنوان سے طنز ومزاح کے پیرائے میں فکاہیہ کالم نویسی کا آغاز کیا۔ اس لحاظ سے انھیں فکاہیہ کالم نگاری کا بانی کہا جاسکتا ہے۔
مولانا صرف صحافی نہیں تھے بلکہ وہ مذہبی صلح ، صف اول کے سیاسی رہنماء انشا پرداز اور صاحب طرز ادیب تھے۔ اس لیے ان کے فکاہیہ کالموں کو بہت زیادہ پذیرائی ملی پیچیدہ طبقہ بھی ان کے لکھے ہوئے ہلکے پھلکے طنزیہ و مزاحیہ کالموں میں دلچسپی لینے لگا اور بہت جلد پورے ہندوستان میں ان کی دھوم مچ گئی ۔
ان کے کالم صرف طنزیہ ومزاحیہ نہیں ہوتے تھے، بلکہ ان میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے سیاسی و نظریاتی مخالفین پر بھی وار کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ زبان و بیان پر عبور کی وجہ سے بلند لب ولہجہ اور طنز سے بھر پور جملے ان کے کالموں کی جان تھے۔
الہلال کے بعد مولانا ظفر علی خان کے اخبار "زمیندار” میں افکار و حوادث کے نام ہی سے فکاہیہ کالم کا اجرا ہوا ۔ اگرچہ یہ اخبار ” الہلال” سے پہلے شائع ہو رہا تھا، جس کی ادارت مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین کے ہاتھ میں تھی ۔
ان کی وفات (۱۹۰۹ء) کے بعد جب اس کی ادارت مولانا ظفر علی خان کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے اس اخبار کو ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بنا دیا، جس کی وجہ سے کئی بار زمیندار کا پریس ضبط ہوا۔ اس اخبار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ روزانہ کی بنیاد پر فکاہیہ کالم کی بنیاد ڈالی
یہ فکاہیہ کالم شروع میں مولانا عبد المجید سالک لکھا کرتے تھے ۔ وہ سات سال تک اس اخبار کے ساتھ منسلک رہے۔ ان کے بعد ظفر علی خان خود یہ کالم لکھنے لگے
میندار” کے بعد انھوں نے ”ستارہ و صبح” کے نام سے ایک پرچہ جاری کیا اور اس میں "جواہر ریزے” اور "فکاہات“ کے نام سے دو الگ الگ کالم لکھتے رہے ۔ ان کے کالموں میں مزاح کی نسبت طنز کی کاٹ زیادہ ہوتی لیکن فکاہیہ کالم نگاری کی تاریخ میں ان کا نام ابتدائی کالم نگاروں کی حیثیت سے اہمیت کا حامل ہے۔
سید محفوظ علی بدایونی نے تجاہل عامیانہ کے عنوان سے مولانا محمد علی جوہر کے اخبار محمد رو میں فکاہیہ کالم لکھے۔ ان کے کالموں میں طنز سے زیادہ شگفتگی کا عنصر ابھرتا ہے۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں اپنے فکر و خیال کے مادر نمونے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔
ان کے فکاہیہ کالموں کامجموعہ طنزیات و مقالات کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔عبد الماجد دریا بادی کا فکاہیہ کالم” سچی باتیں” کے عنوان سے ہفت روز و بیچ میں ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۳ء تک شائع ہوتا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد آپ روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ ہو گئے ۔ یہ اپنے کالم میں اسلامی موضوعات کو زیر بحث لاتے تھے لیکن ان کا لہجہ صلح کل والا تھا۔
نصر اللہ خان عزیز نے بھی مولانا عبد الماجد دریا بادی کی طرح اسلامی فکاہیہ کالموں کو ذریعہ اظہار بنایا ۔ ان کے طنزیہ کالم کئی اخبارات کی زینت بنتے رہے۔
انھوں نے "سیر و سفر” "تیر ونشتر” اور” تکلف بر طرف“ کے عنوانات کے تحت کالم لکھے۔ ان کے فکاہیہ کالموں کی خاص بات اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں پر طنز ہے۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں مولانا عبد المجید سالک اور غلام رسول مہر نے مل کر انقلاب کے نام سے اخبار کا اجرا کیا۔
سمالک نے ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۷ء تک زمیندار اخبار میں فکاہیہ کالم لکھے لیکن جب اپنا اخبار نکالا تو اس میں فکار حوادث کے نام ہی سے کالم لکھنے لگے ۔ ان کی فکاہیہ کالم نگاری کا سلسلہ ۱۹۴۸ء تک جاری رہا۔
چراغ حسن حسرت قیام پاکستان سے پہلے فکاہیہ کالم نگاری میں نام پیدا کر چکے تھے ۔ انھوں نے اپنی کالم نگاری کا آغاز ۱۹۳۵ء میں کلکتہ کے اخبار "معصرِ جدید” سے کیا، جس میں ” کو چہ گرڈ” کے نام سے ان کا کالم شائع ہوتا رہا۔
ان کے کالموں میں عصری شعور اور سماجی ہم آہنگی کے ساتھ تازگی و شگفتگی کا عنصر زیادہ تھا ۔جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔
ان کے کالم تہذیب و شائستگی کا نمونہ تھے اور ہر موضوع پر معلومات کی فراوانی نے قارئین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کر دیا تھا۔ انھی فکاہیہ کالموں کی وجہ سے چراغ حسن حسرت کو اردو صحافت میں بلند مرتبہ حاصل ہوا ۔
پروف ریڈر…….رمضان عباس رمضان
حواشی
کتاب۔تحریر وانشاء موضوع۔ اردو میں فکاہیہ کالم نگاری کی ابتدا۔کورس کوڈ۔9008صفحہ۔137 تا 139مرتب کردہ۔ اقصٰی فرحین
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں