اردو میں نثر نگاری

کتاب کا نام تاریخ ادب اردو 2
کورس کوڈ ۔۔۔ 5602
صفحہ۔۔۔۔91۔۔۔۔94
موضوع۔۔۔۔ اردو میں نثر نگاری
مرتب کردہ۔۔۔ اقصیٰ طارق

اردو میں نثر نگاری

کتاب کے آغاز میں اردو زبان کی تشکیل اور ابتدائی شعری نمونوں کے مطالعہ کے ضمن میں گجری اور دکنی کے تذکروں میں نشر کا بھی ضمنا حوالہ آیا۔ چنانچہ جنوبی ہند میں اردو نثر کی اولین کتاب کے سلسلہ میں نصیر الدین ہاشمی کا یہ قوم نقل کیا گیا تھا کہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، سید محمد حسین التوفی 825 ھ وہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے اس (یعنی دکنی نثر ) کی ابتدا کی ۔ ( دکن میں اردو ، ص: 41)
نصیر الدین ہاشمی نے ان کی یہ کتا بیں لکھی ہیں ۔ معراج العاشقین ، ہدایت نامه، تلاوت الموجود ، شکار نامه سہ بارہ، یہ سارے رسالے علم میں لکھے گئے ہیں افسوس ہے کہ ان رسائل کے زمانہ تصنیف کا صیح علم نہیں ۔ یہ 815 سے 825ء کے درمیانی زمانہ کی تصانیف قرار دی جاسکتی ہے ۔ عبارت کا نمونہ حسب ذیل ہے ۔
نبی کے تحقیق خدا کے درمیان کے ستر ہزار پردے او جیالے کے ہور اندھیار کے اگر اس میں تے یک پردہ اُٹھ جاوے تو اس کی آنچ ۔ (حوالہ دکن میں اردوس : (51)

اس انداز اور دکن میں اردو میں متعدد اصحاب عبد اللہ، میران یعقوب نے بھی تصوف اور رشد و ہدایت کے رسالے تصنیف کئے میں لکھا گیا ہے اس ضمن میں میراں جی حسن خدا نما ، مولانا طان کے اسماء گنوائے گئے ہیں ۔ ان سب نے تصوف پر رسالے تصنیف کئے اس لئے ان کے اسلوب میں ادبی حسن کی تلاش بے سود ہے۔

*ملا وجہی اور سب رس *:
یہ ملا وجہی ہے جس کی سب رس (1636ء) ادبی نثر کا دلکش نمونہ ہے اور جو اسلوب کی جمالیات کے لحاظ سے آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاسکتی ہے ۔ "سب رس” سے پہلے وجہی نے تصوف پر ایک رسالہ ” روح الحقائق بھی قلم بند کیا ۔ بقول وجهی :

"یوں رسالہ ایک دریا ہے ۔ہر ورق ایک موج ہے ہر بات جیوں ما تک موتی "
سب رس تمثیلی قصہ ہے موضوع اس کا بھی اخلاقی نکات اجاگر کرنا ہے مگر بات رہو یہ انداز اور شاعرانہ اسلوب
92

میں کی گئی ہے۔ یہ فارسی کے مشہور قصہ حسن و دل (از محمد یحیی این سیبک فتاحی نیشاپوری وفات (1448) کا اردو ملا وجہی کی سب رس کا اسلوب ملاحظہ ہو
"غرض بہوت نادر نادر باتاں بولیاں یوں دریا ہو کر موتیاں رو لیا ہوں موتیاں کی موجاں کا میں دریا ہوں تمام موتیاں سے بھر یار ہوں اس دریا میں غوطہ کھائیں گے تو جاگا جاگا کے خواصاں موتیاں پائیں گے "

ملا وجہی اور سب رس کے بارے میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے ۔ ” ملاو جہی ” از ڈاکٹر جاوید وششٹ نئی دہلی ساہتیہ اکادمی 1984ء
فضلی کی کربل کتھا دکن میں ملا وجہی کی "سب رس” کے بعد بھی لفظ کا سفر جاری رہا۔” لیکن زیادہ تر تصنیفات نثر کے مختصر رسالوں کی صورت میں تھیں۔ یہ رسالے متصوفانہ اور اخلاقی موضوعات پر قلم بند کئے گئے۔ شمالی ہند میں اردو نثر کی پہلی کتاب فضل علی فضلی کی "کربل کتھا ” یا "وہ مجلس ” ہے۔ کربل کتھا فضلی کے اپنے بیان کے مطابق کمال الدین حسین بن علی الواعظ الکاشفی (انتقال : 1505ء) کی مشہور کتاب "روضة الشہدا ” کا اردو روپ ہے۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بموجب "کربل کتھا لسانی اعتبار سے بڑی اہم کتاب ہے ابھی تک ہمارے سامنے شمالی ہند کی نثر کا کوئی پیدا نمونہ نہیں تھا اسی لئے دہلوی زبان کے ہمہ گیر اثرات کا پورا جائزہ نہیں لیا جا سکا اور ہماری ساری توجہ دکنی اردو اور اس کی لسانی خصوصیات پر مرکوز ہو گئی تھی۔ اگر چہ اس کی اہمیت میں بھی کلام نہیں۔ اب وہ مجلس “ کے چھپنے کے بعد دہلوی زبان کے ان اثرات کی نشاندہی آسان ہو گی جو دکنی پر ہوئے اور دونوں میں جو مماثلت یا فرق ہے وہ بھی ایک حد تک ظاہر ہو جائے گا۔ (کربل کتھا مقدمہ : ص (6)

کربل کتھا 33-1732ء میں محمد شاہ کی دہلی میں تصنیف ہوئی ۔ پندرہ برس میں نظر ثانی کی عبارت کا اسلوب یہ ہے۔

93

"متصل دیوار کے دو قبر میں نہایت ملیں ہو ئیں باہم جوں قافیہ ردیف ہے ایک بالشت بھر سرہانے کی طرف سبز ہے اور ایک لوسی دستور سرخ کربل کتھا کی لسانی اہمیت اور زبان کے تجزیاتی مطالعہ کے لئے ملاحظہ کیجئے۔ اردوئے معلی (قدیم اردو نمبر دھلی یونیورسٹی) میں شامل ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا مقالہ "کربل کتھا کی زبان اور ڈاکٹر خلیق انجم کا مقالہ "کربل کتھا کا لسانی مطالعہ ” نیز دیکھئے "کربل کتھا ” مرتبہ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی دہلی یونیورسٹی 1961ء) اور ڈاکٹر محمد احسان الحق کے مقدمہ کے ساتھ "کربل کتھا کا سنگ میل پبلی کیشنز کالاہور ایڈیشن 1982ء قدیم نثر کے بارے میں میں معلومات اور کوائف کے لئے دیکھئے۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اردونر کا آغاز دار تقاء انیسویں صدی کے اوائل تک کراچی کریم سنز 1978ء
ڈاکٹر شم ناز انجم اولی نثر کا ارتقاء لاہور پروگریسو بکس 1989ء
میر امن کی باغ وبہار :
انیسویں صدی کا آغاز فورٹ ولیم کالج کلکتہ (1800ء) اور میر امن کی "باغ بیمار (1803ء) سے ہوا سیاسی مضمرات سے قطع نظر اردو نثر کے لئے یہ اچھا آغاز تھا۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر جان گل کرسٹ نے انگریز اہلکاروں کو اردو کی تدریس کے لئے معلی منبع اور رنگین اسلوب کے بر عکس سادہ اردو میں کتابیں لکھوائیں یا ترجمہ کرائیں۔ باغ و بہار بھی فارسی قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔ میر امن نے باغ و بیمار کے علاوہ کالج کے لئے 1805ء میں گنج خوبی بھی تحریر کی یہ دراصل ملا حسین الواعظ کاشفی کی ” اخلاق مخفی کا ترجمہ ہے۔
باغ و بہار اگرچہ نصابی ضروریات کے لئے ترجمہ کرائی گئی لیکن میر امن کے خوصورت اسلوب نے اسے تخلیقی نثر کی کتاب بنا دیا۔ چنانچہ دو صدیوں سے باغ و بہار “ نے ناقدین سے خراج تحسین وصول کیا۔
مولوی عبدالحق اپنے وقت کی نہایت فصیح و شیریں زبان "
کلیم الدین احمد "سادگی و پر کاری ایک وقت جمع ہیں”
104
سیاسی مضمرات سے قطع نظر اردو نثر کے لئے یہ اچھا آغاز تھا۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر جان گل کرسٹ نے انگریز اہلکاروں کو اردو کی تدریس کے لئے معلی مسمع اور رنگین اسلوب کے بر عکس سادہ اردو میں کتابیں لکھوائیں یا ترجمہ کرائیں۔ باغ و بہار بھی فارسی قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔ میر امن نے باغ و بہار کے علاوہ کالج کے لئے 1805ء میں گنج خوبی بھی تحریر کی یہ دراصل ملا حسین الواعظ کاشفی کی "اخلاق مخفی کا ترجمہ ہے۔
باغ د بیمار اگر چہ نصابی ضروریات کے لئے ترجمہ کرائی گئی لیکن میر امن کے خوصورت اسلوب نے اسے تخلیقی نثر کی کتاب بنادیا۔ چنانچہ دو صدیوں سے باغ وبہار نے ناقدین سے خراج تحسین وصول کیا۔
مولوی عبد الحق اپنے وقت کی نہایت فصیح و شیر میں زبان”
کلیم الدین احمد "سادگی و پر کاری ایک وقت جمع ہیں”
94

ڈاکٹر گیان چند
میراگر اہل زبان تھے تو امن خالق زبان ڈاکٹر وحید قریشی
اس سے اردو نثر میں ایک نئی سمت کا پتا چلا "
ڈاکٹر سید عبد الله
باغ و بہار اردو نثر کی پہلی زندہ کتاب قرار پائی”
وقار عظیم اس کی سب سے بڑی خوبی فصاحت و بلاغت ہے”
پروفیسر حمید احمد خان "شفاف اردو کا کہلتا ہوا چشمہ ہے”
گزشتہ دو صدیوں میں ” باغ و بہار کے لا تعداد ایڈیشن طبع ہوئے ۔ اہل نقد نے ہر ممکن طریقہ سے اسے سراہا۔ فورٹ ولیم کالج اور باغ و بہار پر بہت لکھا گیا اس لئے تکرارے چلتے ہوئے چند کتا ہیں مطالعہ کے لئے تجویز کی

جاتی ہیں۔ کیسے الحمد پیرا؟
زہرا معین باغ دیا بی مطال سنگ میل پبلی کیشنر 1985ءا لاہور میر کی لائبریری 1968ء
ڈاکٹر سمیع اللہ فورٹ ولیم کالج ایک ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس 1989ء ڈاکٹر عبیدہ ایم فورٹ ولیم کالج کی ادفی خدمات الکھنو نصرت پبلشرز 1983ء ڈاکٹر گیان چند اردو کی نثری داستانیں کراچی انجمن ترقی اردو 1963ء محمد عقیق صدیقی گل کرسٹ اور اس کا عمد علی گڑھ انجمن ترقی اردو 1960ء

وقار عظیم
فورٹ ولیم کالج تحریک اور تاریخ مرتبہ : ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور "الوقار
1995
رجب علی بیگ سرور اور فسانہ عجائب :
باغ و بہار” کے دیباچہ میں میر امن نے خود کو ” ولی کا روڑا ” کہا تھا۔ یہ بات کھا گئی لکھنو کے رجب علی میگ سرور ( پیدائش لکھنو : 1785ء انتقال، مارس 11869ء) کو چنانچہ انہوں نے باغ و بہار کی سادہ نگارش کے جواب میں متلی اور مرصع اسلوب میں 1825ء میں داستان رقم کی "فسانہ عجائب ” سر در چونکہ سلامت کے خلاف تھے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں