اردو میں مثنوی کی تاریخ و ارتقاء urdu main masnave ka agaz wa irtiqa
اردو میں مثنوی کی تاریخ و ارتقاء
اولیت کا س
اردو ادب میں نثر سے قبل نظم اور اصناف نظم میں مثنوی کو اولیت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مثنوی کا آغاز جنوبی ہند سے ہوا اور اس کے ارتقا میں اہل دکن ہی کا بنیادی کردار رہا ہے۔ بالکل ابتدائی دور کی مثنویاں نایاب ہیں مگر تذکروں میں کہیں کہیں ان کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔
موضوعات کی فہرست
پہلی طویل مثنویاں
سب سے پہلی طویل مثنوی جس کو بالیقین اردو کی پہلی مثنوی کا اعزاز بخشا جاسکتا ہے وہ فخر دین نظامی کی مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ” ہے جو ایک عشقیہ مثنوی ہے۔ دسویں صدی میں حضرت عبدالقدوس گنگوہی کی مختصر مثنویاں، میاں خوب محمد چشتی کی "خوب ترنگ” اور شاہ میراں جی شمس العشاق کی "خوش نامہ” صوفیانہ فکر کی مثنویاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مثنوی اور ماہیا کی اصطلاحات
گیارہویں صدی ہجری اور مثنوی کا فروغ
گیارھویں صدی ہجری میں مثنوی کو بے حد فروغ حاصل ہوا۔ اس صدی میں بہترین عشقیہ مثنویاں ملتی ہیں۔ جن میں وجہی کی قطب مشتری ،غواصی کی سیف الملوک و بدیع الجمال، مقیمی استر آبادی کی مثنوی "چندر بدن و مہیار” نمایاں ہیں۔
اس صدی میں قطب شاہ نے ایک نعتیہ مثنوی لکھی جو اس کے دیوان میں موجود ہے۔ پھر رستمی نے خاور نامہ لکھی جو تیس ہزار اشعار پرمشتمل ہے اور جس میں حضرت علی کے کارناموں کا ذکر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مثنوی ، مرثیہ اور قصیدہ میں مناظر فطرت | PDF
اس کے علاوہ غواصی کی مثنوی طوطی نامہ، ایمن کی مثنوی بہرام و حسن بانو، ملک خوشنود کی ہشت بہشت، شیخ احمد جنیدی کی ماہ پیکر، ابن نشاطی کی پھول بن، نصرتی کی گلشن عشق، طبعی کی قصۂ بہرام گل اندام اس صدی کی مقبول مثنویاں ہیں یہ ساری مثنویاں عشقیہ نوعیت کی ہیں۔
بارہویں صدی ہجری اور مثنوی نگاری
بارھویں صدی ہجری میں عارف الدین نے ملکہ مصر لکھی جس میں تصوف کا رنگ ملتا ہے۔ ذوقی نے ملا وجہی کی سب رس کو وصال العاشقین کے نام سے نظم کیا۔ پھر اس موضوع کو قاضی محمود بحری نے 1114 ہجری میں "گلشن حسن و دل” کے نام سے مثنوی کی شکل دی۔ عاجز کی "لعل و گوہر” ہے جو ایک عشقیہ مثنوی ہے ۔
قاضی محمود بحری کی دوسری مثنوی "من لگن” کے نام سے ہے جو کہ ایک صوفیانہ طرز کی مثنوی ہے۔ اسی دور میں ولی دکنی نے واقعات کربلا کے بیان میں دہ مجلس لکھی۔ ان کی ایک مختصر مثنوی شہر سورت کی تعریف میں بھی ہے۔ سراج اورنگ آبادی کی مثنوی بوستان خیال 1160 ہجری کی تصنیف ہے۔
تیرہویں صدی ہجری: مثنوی کا سفر
تیرھویں صدی ہجری میں جو کہ فورٹ ولیم کالج کی خدمت نثر کا دور ہے دکن کے ساتھ ساتھ شمالی ہند میں بھی مثنوی پر کام ہوا۔ شمالی ہند میں میر تقی میر کی چھوٹی مثنویاں چھوڑ کر ان کی عشقیہ مثنویاں خصوصاً قابل ذکر ہیں جن میں "دریائے عشق” سب سے زیادہ مقبولیت کی حامل ہے۔
میر اثر کی مثنویوں میں خواب و خیال صف اول کی مثنوی تسلیم کی جاتی ہے۔ محمد شاہی دور میں شاہ مبارک آبرو نے کئی مثنویاں لکھیں جن میں سے "در موعظہ آرائش معشوق” کی مصحفی جیسے قادر الکلام شاعر نے خوب تعریف کی۔
سحر البیان کی سحر سامانیاں اور گلزار نسیم:
ان مثنویوں کے بعد اردو مثنوی کے باب میں سحر البیان کا نام آتا ہے جو میر حسن کی قابل تحسین تخلیق ہے۔
یہ میر حسن کی آخری مثنوی ہے۔ میر حسن دہلوی کی مثنوی سحر البیان کو پورے ہندوستان میں جو شہرت حاصل ہوئی وہ کسی اور مثنوی گو شاعر کو نہیں ملی۔ میر حسن کی سحر البیان کے بعد پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کا مقام آتا ہے۔ مثنوی گلزار نسیم مثنوی کی بنیادی خصوصیات سے عاری ہوتے ہوئے بھی شاہ کار چیز ہے اور اسے بلاشبہ سحر البیان کے بعد اردو کی بہترین مثنوی کا درجہ دیا جاتا ہے۔
پروف ریڈنگ: وقار حسین
حواشی
کتاب ۔شعری اصناف ،تعارف و تفہیم
کورس کوڈ ۔9003
صفحہ ۔169
موضوع۔اردو میں مثنوی کی تاریخ و ارتقاء
مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین
پروف ریڈنگ وقار حسین