مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

مرثیہ کے عناصر ترکیبی

مرثیہ کے عناصر ترکیبی

تمہید یا چہره

——–> تمہید میں شاعر مرثیے کے موضوع کے لیے ایک ماحول بناتا ہے ۔ جس کے مطابق اس نے آگے چل کر مرثیہ کا مکمل خاکہ بنانا ہوتا ہے۔ عموماً اس حصے میں مناظر فطرت، وقت کا تعین وغیرہ کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ مثلا میر انیس کے یہ اشعار تمہیدی انداز کے ہیں:

یہ بھی پڑھیں: اردو میں صنف مرثیہ

شعر

وہ صبح اور چھاؤں ستاروں کی اور وہ نور

دیکھے تو عشق کرے ارنی گوئے اوج طور

پیدا گلوں سے قدرت معبود کا ظہور

وہ جا بجا درختوں پر تسبیح خواں طیور

سراپا

اس جزو میں شاعر حضرت امام حسین کی حالت کو بیان کرتا ہے، امام کی بہادری و شجاعت اور مظلومیت کا نقشہ کھینچنےکے لیے ندرت بیان اور خیال آفرینی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ مثلاً

کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارے شوق سے ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا ، گل سے ہو جدا
سینے سے دم جدا رگ جاں سے گلو جدا
گرجا جو رعد،ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلی نکل پڑی
پیکی جدھر سوار نے پھیری وہ مڑ گیا
اترا براق بن کے پری بن کے اڑ گیا

رخصت

——–> رخصت مرثیے کا وہ مقام ہے جب امام حسین یا آپ کے رفقاء میں سے کوئی میدان جنگ میں جانے کے لیے اہل و عیال سے رخصت طلب کرتا۔ اس منظر کو شاعر خوبصورت شاعرانہ اسلوب سے بیان کرتا ہے جس میں غم و حزن کا رنگ
نمایاں ہوتا ہے ۔ مثلاًاکبر نے کہا باپ کو یہ ماں کو سنا کر
خادم کو نہ روکیں گی پھوپھی اور نہ مادر
وہ آپ کہیں گی کہ خدا ہو مرا دلبر
حضرت سے زیادہ انھیں پیارا نہیں

یہ بھی پڑھیں: مرثیے کی تعریف

آمد

——> مرثیہ کے اس حصے میں میدان جنگ میں مجاہدین حسینی کی آمد کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ میدان جنگ کی طرف مجاہدین کے بڑھنے کو بڑی شجاعت سے دکھایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عباس رضی اللہ عنہا کی میدان جنگ میں آمد کو میر انیس اس طرح بیان کرتے ہیں:

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا
*ہے رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

رجز

رجزیہ اشعار مرثیہ کے وہ اشعار ہوتے ہیں جن میں لڑائی یا جنگ کے دوران اپنے حسب نسب کا تعارف تفاخر سے کرایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت عون اور حضرت محمد کا میدان کربلا میں رجز پڑھنا۔ میرانیس کچھ یوں دکھاتے ہیں:

یہ بھی پڑھیں: مرثیہ تاریخی حوالے سے

یہ فوج ہے کیا، آگ کا دریا ہو تو جھیلیں
کیا ڈر انھیں بچپن میں جو تلواروں سے کھیلیں
کوفہ تو ہے کیا، شام کو اور روم کو لے لیں
انھیں صفت گاہ، اگر کوہ کو ریلیں
چاہیں تو زمیں کے ابھی ساتوں طبق الٹیں
یوں اُلٹیں کہ جس طرح ہوا سے ورق الٹیں

رزم

——–> رزم میں میدان جنگ میں لڑائی کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ اس حصے میں شاعر دوران رزم امام عالی مقام اور ان کے جانثاروں کی بہادری و شجاعت کی خوب منظر کشی کرتا ہے۔ مثلاً

یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے

شہادت

———-> یہ حصہ شہادت کے موضوع پر مشتمل ہوتا ہے۔ شہادت کے اشعار میں امام حُسین اور آپ کے رفقا کی شہادت کا اندوہ ناک منظر بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت علی اصغر کی شہادت کا منظر دیکھیں:

راوی نے یہ لکھا ہے کہ اس دم بہ حال زار
لائے حسین ہاتھوں پر اک طفل شیر خوار

بین

——-> اس حصے میں شاعر دکھاتا ہے کہ جب شہدائے کربلا کے لاشے خیام میں لائے جاتے ہیں تو ان کی لاشوں پر اہل خیمہ کا ماتم و بین کس طرح ہوتا ہے۔ مرثیہ کا یہ منظر بڑا درد ناک اور رقت انگیز ہوتا ہے ۔ مثلاً:

لاشوں میں لائیں بیبیاں زینب کو تھام کر
ماتم کی صف پر گر پڑی وہ سوختہ جگر
بولیں بڑھا کے دست مبارک ادھر اُدھر
بچے کدھر ہیں مجھ کو کچھ آتا نہیں نظر

سلام /دعا

——-> یہ مرثیہ کا آخری حصہ ہوتا ہے جس میں شہدا پر سلام بھیجا جاتا ہے اور ان کے وسیلے سے مالک ارض و سما کے حضور دعا کی جاتی ہے۔ مثلاً:

پروف ریڈر: عاصمہ بتول

یا رب چمن نظم کو گلزار ارم کر
اے ابر کرم ! خشک زراعت پر کرم کر
تو فیض کا میدان ہے توجہ کوئی دم کر
گم نام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
اقلیم سخن میرے قلم رو سے نہ جائے
جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے
*اقلیم سخن میرے قلم رو سے نہ جاۓ۔

حواشی

کتاب کا نام ||شعری اصناف،کوڈ کورس 9003،صفحہ نمبر – 149،موضوع نمبر 1.2،مرتب کرده… مسکان محمد،مرثیہ کے عناصر

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں