اردو میں شاعرات کی روایت تقسیم ہند سے قبل

اُردو میں شاعرات کی روایت تقسیم ہند سے قبل:
شاعری انسانی محسوسات کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے، اس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تاہم تربیت کے ذریعے ان شاعرانہ صلاحیتوں کو نکھارا ضرور جاسکتا ہے۔ اُردو کے نامور نقاد علامہ شبلی نعمانی اسے ذاتی اور وجدانی ملکہ قرار دیتے ہیں۔ با لعموم ان صفات کو مردوں سے جوڑا جاتا رہا، شعر کو مرد کی ملکیت سمجھا گیا۔
بقول ڈاکٹر سلیم اختر :
”مشاعرہ میں شاعرات کا اچھا شعر پڑھ کر با لعموم اس کے پیچھے سربرست مرد
یا استاد شاعر کا سراغ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے “ (١)
یہ رویہ نیا نہیں بلکہ عہد قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اُردو ادب کی تاریخ میں اٹھارویں صدی کو شاعری کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں اُردو شاعری نے خوب ترقی کی۔ اس دور کے شعری منظر نامے پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ شاعری نے اس عہد میں بلاشبہ ارتقاء کی کئی منازل طے کیں لیکن جب بات شاعری میں نسائی آوازوں کی آتی ہے تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُردوادب کی ابتداء سے اٹھارویں یہاں تک کہ انیسویں صدی تک شعر و ادب کے میدان میں کسی معتبر خاتون کا حوالہ نہیں ملتا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
ہندوستانی سماج ایک پدری سماج تھا جہاں تمام اختیار کا مالک مرد سمجھا جاتا تھا۔ عورت کا عمل دخل گھر کی چار دیواری تک محدود تھا۔ اسے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی، اس کی تعلیم پر بھی پابندی تھی اور اگر کہیں کوئی گھرانہ تھوڑا سا روشن خیال واقع ہوا بھی ہوتا اور بچیوں کو تعلیم دے بھی دیتا پھر بھی ان کی روشن خیالی انہیں پڑھانے تک محدود ہوتی۔ لکھنا ان کے لیے ممنوع تھا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ عورتوں کے لکھنے پڑھنے کو معاشرتی بگاڑ کی وجہ قرار دیتے تھے۔
عورتوں کی تعلیم کا ذکر سید محمد عقیل ان الفاظ میں کرتے ہیں :
”سماجی صورت یہ تھی کہ کچھ شریف گھرانوں میں عورتوں کو پڑھنا تو سکھایا
جاتا تھا مگر ان کو لکھنا نہیں سکھایا جاتا تھا کہ لکھنا سیکھ کر اپنے عاشقوں سے
رابطے قاٰئم کریں گی اور پھر سوسائٹی میں بدعنوانیاں شروع ہو سکتی ہیں یہاں تک
کہ حرافہ نام کی ایک گالی عورتوں کے لیے بنائی گئی تھی کہ اگر حرف لکھنا سیکھ
لیں گی تو وہ یقیناً بد معاش ہوجائیں گی۔“ (٢)
چنانچہ تعلیم کی یہی کمی اور ماحول کی یہی گھٹن ہے جس نے عورتوں کی صلاحیتوں کو ابھرنے نہ دیا۔
بقول نجمہ رحمانی :
”عہد قدیم کے تذکروں میں بھی شاعرات پر کسی تذکرہ نگار نے توجہ نہیں دی اور نہ
ہی ان کے دواوین محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی کئی۔ نتیجتًا آج اُس عہد کی
کسی ایک شاعره کا دیوان ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ مختلف تذکروں میں ایک یا
دو اشعارخواتین کے مل جاتے ہیں جن سے کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں “ (٣)

ہندوستان میں مغلوں کا زوال سترھویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل میں شروع ہوگیا تھا لیکن انیسویں صدی کے سیاسی اور معاشرتی انتشار نے نہ صرف سیاسی منظر نامے پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ معاشرتی زندگی پر بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ۔ اس انتشار سے اگر ایک طرف معاشرہ محفوظ نہ رہ سکا تو دوسری طرف فن اور فنکار بھی اس کے اثرات سے نہ بچ سکے۔ سیاسی انتشار اور بد امنی کے باعث اکثر قلم کاروں نے دلی چھوڑ کر لکھنؤ اور فیض آباد کا رُخ کیا۔ اسی واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے نجمہ رحمانی رقمطراز ہیں:
”ان دنوں ایک طرف دلی اُجڑ رہی تھی دوسری جانب لکھنؤ اور فیض
آباد جیسی چھوٹی ریاستیں اپنے درباروں کو سجا رہی تھی۔ ان دنوں
لکھنؤ اور فیض آباد معاشی اعتبار سے کافی مضبوط تھے۔ کچھ دولت کی
فراوانی اور کچھ سلاطین کی عیش پرستی ہر طرف رنگنیوں کا دور دورہ تھا۔
سلاطین اودھ علم وادب کے شیدائی تھے لہذا دلی کے لٹے پٹے ارباب
کمال کو ان کے درباروں کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ “ (۴)
چنانچہ ایسے حالات میں جب ہر طرف دولت کی ریل پیل ہو اور عوام معاشی بدحالی کا شکار نہ ہو، معاشرے کا اخلاقی زوال ایک فطری امر ہے۔ اسی طرح ملک کا یہی معاشی استحکام ہی ایک طرح سے حکمرانوں کو عیاشی کی طرف راغب کرتا ہے۔ بالکل یہی کچھ اہل لکھنؤ کے ساتھ بھی ہوا۔ دولت کی اسی بہتات نے شاہانِ لکھنؤ کو عیاشی کے نئے راستوں کو اپنانے پر مائل کیا۔ یہ دور طوائف الملوکی کا دور تھا۔ اس وقت لکھنؤی معاشرے میں طوائف تہذیب کی علامت سمجھی جاتی تھی، انہیں ہر طرح کی تعلیم دی جاتی تھی، اس لیے اس دور کے کلام میں بھی ہمیں عام خواتین نظر نہیں آتیں بلکہ اس دور کا جتنا بھی کلام منظر عام پر آ چکا ہے ان میں اکثریت اُن خواتین کی ہے جن کا تعلق کوٹھوں کے ساتھ تھا۔
سید محمد عقیل "جدید اُردو شاعرات” کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
”لکھنؤ کی نوابی میں عورتوں نے عام طور پر لکھنا پڑھنا سیکھا اور پھر
چٹ پٹ شاعری بھی کرنے لگیں مگر پھر یہ لکھنے پڑھنے کی صورت
یا تو نوابین کی مخدّرات میں تھی جن میں سے کچھ شاعرات بھی
ہوئیں یا پھر طوائفوں میں فن شاعری پہنچا مگر مجموعی طور پرعورتوں
میں لکھنا پڑھنا مزموم رسم ہی رہی“ (٥)
تخلیق کار کی حیثیت سے خواتین پر لکھا جانے والا پہلا تذکرہ "بہارستان ناز” ۱۸۶۴ء میں منظرعام پرآیا۔ یہ فصیح الدین رنج کا تذکرہ تھا۔ خواتین شاعرات کی تاریخ کے سلسلے میں اس تذکرے کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس تذکرے میں عام گھرانے کی کوئی خاتون شامل نہیں بلکہ جتنی شاعرات سامنے لائی گئی ہیں، وہ تمام کی تمام طوائف پیشہ ہیں۔ اسی لیے رنج کا اُسلوب بھی ناقدانہ نہیں لگتا۔
ڈاکٹر سلیم اختر اس تناظر میں لکھتے ہیں :
”اس تذکرے کا مطالعہ کرتے وقت سب سے بڑی اُلجھن یہ ہوتی ہے
کہ عورتوں کی شاعری کے طور پر اس کا مطالعہ کیا جائے کہ طوائفوں
کی شاعری کے طور پر اسے پڑھا جائے۔ ۱۷۴ شاعرات میں اعلی
گھرانے کی چند بیگمات سے قطع نظر باقی سبھی طوائفیں ہیں کیونکہ
زنانہ بازاری تھیں اس لیے رنج کا اُسلوب تنقید کے بجا ئے للچائے
ہوئے گاہک جیسا ہو جاتا ہے اس لیے بہارستان ناز چسکے کے
اُسلوب میں تحریر کی گئی ہے“ (٦)
اگر اُردو میں شاعرات کی روایت کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس روایت میں اولین نام اورنگ زیب عالمگیر کی صاحبزادی شہزادی زیب النساء مخفی کا آتا ہے جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ ان سے درج ذیل اشعار منسوب کئے جاتے ہیں :
؎ جدا ہو مجھ سے میرا یار یہ خدا نہ کرے
خدا کسی کے تئیں یار کو جدا نہ کرے (٧)

؎ کہتے ہو تم نہ گھر میرے آیا کرے کوئی
پر دل نہ رہ سکے تو بھلا کیا کرے کوئی (٨)

اکثر تذکرہ نگاروں نے یہ اشعار زیب النساء کے نمونہ کلام کے طور پر پیش کئے ہیں تاہم نہ تو ان اشعار کی زبان اتنی قدیم معلوم ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے موضوع سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، کیونکہ اول تو اورنگ زیب بادشاہ کی پرہیزگاری اتنی مشہور تھی اور ان کا رجحان مذہب کی جانب اس قدر ذیادہ تھا کہ اکثر اوقات ان کی مذہب پرستی پر انتہا پسندی کا الزام بھی عائد کیا گیا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اُن کی بیٹی کے قلم سے ایسے اشعار نکلے جس کا موضوع خالصتًا مجازی ہو۔ دوم پردے کا دور تھا۔ خواتین کا کھل عام باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے ایسے دور میں کسی پردہ نشین خاتون کے قلم سے ایسے اشعار کا نکلنا محال ہے۔
شاعرات کی اس روایت کو آگے بڑھانے میں دوسرا اہم نام میر تقی میرؔ کی بیٹی بیگم کا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا انتقال جوانی میں ہوا تھا اور مولوی جمیل احمد کے نزدیک میرؔ نے درج ذیل شعر ان کے انتقال پر کہا تھا:
؎ اب آیا دھیان اے آدم جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں (٩)
بیگم سے مندرجہ ذیل اشعار منسوب کئے جاتے ہیں :
برسو غمِ گیسو میں گرفتار تو رکھا
اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا
کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
وہ ذبح کرے یا نہ کرے غم نہیں اس کا
سر ہم نے تہِ خنجرِ خونخوار تو رکھا
اس عشق کی ہمت کے میں صدقے ہوں کہ بیگم
ہر وقت مجھے مرنے پہ تیار تو رکھا (١٠)

ان اشعار پر محترمہ نجمہ رحمانی ان الفاظ میں اظہار خیال کرتی ہیں:
”بیگم کے کلام میں اُس زمانے کا خاص رنگ جھلکتا ہے اور میرؔ کے رنگ کا
ہلکا سا عکس بھی ان اشعار کا خاصہ ہے ۔“(١١)
اُردو شاعرات میں سے ایک نام قدسیہ بیگم کا بھی ملتا ہے جو ممتاز محل کے لقب سے جانی جاتی ہے۔ اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک ممتاز محل دلی کی رہنے والی تھیں اور مغل بادشاہ محمد شاہ کی بیگم تھیں۔ ان کے متعلق ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اپنی کتاب ”اُردو ادب میں خواتین کا حصہ” میں مختلف تذکروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
”تمام تذکرہ نویس اس بات پر متفق ہیں کہ وہ موزوں طبع تھی۔ عبد الباری آسی
صرف اتنا لکھتے ہیں کہ دہلی کی رہنے والی تھی لیکن عذرات تیموریہ میں
ظہورالحسن بلگرمی لکھتے ہیں کہ محمد شاہ کی محل تھی اس کی صحبت میں
مے نوشی کی عادت بھی پڑ گئی تھی۔“ (۱۲)
ان کے کلام کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ کسی بھی تذکرہ نویس نے ان کے کلام کا کچھ زیادہ حصہ پیش نہیں کیا۔
شاعرات اُردو میں سے ایک نام جینا بیگم کا بھی ملتا ہے جو شاہ عالم کی زوجہ محترمہ تھی ۔ جینا بیگم کے تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ وہ شعر کہتی تھی اور مشہور قصیدہ گو شاعر مرزا رفیع سودا سے اصلاح لیتی تھی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو :
؎ روٹھنے کا عبث بہانہ تھا
مُدعا تم کو یاں نہ آنا تھا (١٣)

؎ آیا نہ کبھی خواب میں بھی وصل میسر
کیا جانیے کس ساعت بد آنکھ لگی تھی (١۴)

؎ یہ کس کی آتش غم نے جگر جلایا ہے
کہ تا فلک میرے شعلے نے سر اُٹھایا ہے (١٥)

ان شاعرات کا تعلق اگرچہ اس عہد کے ساتھ ہے جو خواتین کی سلسلے میں پستی کا حامل ہے اس کے باوجود اس دور کی شاعرات کی زبان وبیان کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچا جاتا ہے کہ تعلیم نسواں کے فقدان کے باوجود ان شاعرات کے یہاں نہ صرف کلاسیکی ٹچ موجود ہے بلکہ اپنے عہد کی بھر پورعکاسی بھی پائی جا رہی ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اُردو شعر و ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اس جنگ نے جہاں سیاسی اور معاشی طور پر ملک کا منظر نامہ تبدیل کیا وہی ادب پر بھی اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ۔ ۱۸۵۷ء کے بعد نہ صرف معاشرہ مسلسل تبدیلیوں سے دوچار رہا بلکہ ادبی منظر نامے کی سمت بھی تبدیل ہوگئی۔ اس جنگ کے بعد مختلف سماجی اور اصلاحی تحریکوں نے معاشرتی سدھار کا بیڑا اُٹھایا جن میں اس صدی کا سب سے بڑا تحریک سر سید کا علی گڑھ تھا جس نے بڑے پیمانے پر ملک کو متاثر کیا ۔
سرسید اور ان کے رُفقاء اگرچہ جدید تعلیم کے بڑے علمبردار تھے تاہم تعلیم نسواں کے بارے میں وہ بھی قدیم خیالات کے داعی تھے مگراس دور کی تعلیمی ترقی نے تعلیم نسواں کے لیے راستہ ضرور ہموار کیا تاہم اس کے باوجود عوام الناس میں تعلیم نسواں کا شعور محدود تھا جس کا اندازہ شمیم سخن کے دیباچے سے بھی ہوجاتا ہے :
” ظاہراً ہم کو تعلیم مستورات میں دو امر حائل ومانع معلوم ہوتے ہیں۔
اول یہ کہ ہندوستان میں یہ عام رواج ہیں کہ صغرسنی میں عورت بیاہ دی
جاتی ہے اور بعد شادی بموجب دستورِملک اس کا پردے میں رہنا
واجبات میں سے ہیں۔ انتہاء درجے اس کو پڑھنے کے واسطے سات
برس کی عمر تک مہلت نصیب ہوتی ہے اور یہ مدّت تعلیم دو سال ابتداء
تعلیم سے شمار کی جاتی ہے۔ بیاہ ہو جانے کے بعد اس کو کوئی موقع تعلیم
کا نہیں ملتا۔ افلاس جو ہمارے ملک پر محیط ہو رہا ہے وہ آگے کے تعلیم کا سامان
مہیا نہیں ہونے دیتا۔ دوم مدارس سرکاری میں جو بفرض تعلیم نسواں جاری
ہے سوائے جغرافیہ و تاریخ وحساب کے کوئی ہنر یا پیشہ ایسا نہیں سکھایا جاتا
جو عورتوں کو ان کے گزر اوقات میں مدد پہنچا سکے۔ یہ امر تو ظاہر ہے کہ
ہمارے ملک کی عورتیں پردے سے باہرنہیں نکل سکتی پھرغورکیا جائے تو مجرد
تاریخ وجغرافیہ پڑھ کر کیا فائدہ پا سکتی ہیں۔“ (١٦)
سرسید کے دور میں عورتوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہونے کے ساتھ ہی ان میں شعر وادب کا رجحان بھی پروان چڑھتا گیا یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے ادبی منظر نامے کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس صدی کے آغاز سے ہی مرد ادیبوں کے ساتھ خواتین بھی اُفق ادب پرجلوہ گر نظرآتی ہیں۔ ان خواتین میں ایک اہم نام ز۔ خ۔ ش کا ہیں جن کا اصل نام زاہدہ خاتون شیروانیہ ہے جو ادبی دنیا میں ز۔ خ ۔ ش کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ز۔ خ ۔ ش بیسویں صدی کے اوائل کا ایک ناقابل فراموش نام ہے جنہوں نے اپنی شاعری سے ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ ایک لمبے عرصے تک وہ مختلف ناموں سے شاعری کرتی رہیں اور ادبی دنیا میں ان کا نام ایک معؔمہ بنا ہوا تھا کہ اس انقلاب انگیز فکر کے پیچھے کوئی مرد ہے یا پردہ نشین خاتون۔ نام کے مخفی رکھنے کی مزید وضاحت "حیات ز۔ خ۔ ش” کے مقدمے سے ہو جاتی ہے :
” ز۔ خ ۔ ش کی جس ماحول اورجس گھرانے میں پرورش ہوئی اگرچہ وہ گھرانہ
روشن خیال سمجھا جاتا ہے بالخصوص اس اعتبار سے کہ ز۔ خ۔ ش کے والد
نواب مزمل اللہ خان شیروانی خود بھی فارسی کے نغز گو شاعر تھے اور
صاحب حیثیت ہونے کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان کے دست راست بھی
تھے چنانچہ اس بنا پرمصلحت انگیز پالیسی کے حامی تھے جبکہ ز۔ خ۔ ش نسبتًا
دوسرے نقطئہ نظر پرکاربند تھیں چنانچہ ایک تو اس بنیاد پر کہ پردہ نشین اہل
قلم خواتین کے لیے اپنا نام ظاہر کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے انہیں یہ
خوف تھا کہ والد کے نقطٰئہ نظر سے اختلاف کی صورت میں والد ہی کی جانب
سے ان کی شاعری پر پابندی عائد ہو جاتی۔ اس لیے اُنہوں نے یہ نام پردہ اخفا
میں رکھا اور مختلف ناموں سے رسائل وجرائد میں شائع ہوکر داد وتحسین حاصل
کرتی رہی۔ “ (١٧)
اُردو شاعری کی روایت میں ز۔ خ۔ ش وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے روایتی حسن وعشق کے قصوں سے ہٹ کر باقاعدہ ترقی پسند خیالات کا اظہار کیا اور سماجی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی بنیادی وجہ جدید تعلیم کا حصول تھی۔ اُنہوں نے اگرچہ تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی تاہم ان کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی گئی تھی اور فارسی وعربی کے ساتھ انگریزی تعلیم کا بھی خاص انتظام کیا گیا تھا اسی لیے وہ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ۱۸۹۴ء میں ان کی ولادت ہوئیں اور ۱۹۲۲ء میں وفات پائی یعنی لگ بھگ ۲۸سال عمر پائی اور اتنی کم عمر میں بھی ایک دنیا کو متاثر کیا جو بلاشبہ ایک اعزاز کی بات ہے۔
ان کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے :
” ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں کے شریف گھرانوں میں عورتوں
اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا محترمہ ز
۔ خ۔ ش نے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ اپنا نام بدل کرشاعری بھی کی۔
اتنی کم عمری میں اس قدر معیاری،عمدہ اور پُر اثر شاعری ان کی بے پناہ
تعلیمی قوت و صلاحیت کی غماز ہے ۔“(١٨)
محترمہ زاہدہ خاتون شیروانیہ کا کلام فردوسِ تحؔیل کے نام سے منظرعام پر آچکا ہے۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو :
ارضِ اسلام پہ غیروں کی حکومت کیسی
قبل از وقت یہ آئی ہے قیامت کیسی
نورِ انصاف ہوا دہر سے یک دم کافور
چار سو پھیل گئی ظلم کی ظلمت کیسی (١٩)

مل جائے گا خُدا تمہیں شوہر کی چاہ سے
سمجھو ذرا حقیقتِ عشقِ مجاز کو
پوشیدہ اپنی عیب کی صورت رکھو اسے
شوہر کا راز سمجھو نہ شوہر کے راز کو
قصے کہو نہ طفل سے ابطال غرب کے
ازبر کراؤ سیرتِ شاہِ حجازؐ کو
مطبخ میں جاکے خود بھی پکایا کرو کبھی
پیچھے ہٹو نہ سونگھ کے لہسن پیاز کو (٢٠)
یہ اشعار ان کی دو مختلف نظموں کے ہیں جن میں پہلی نظم میں حکومتِ وقت پر کھلی تنقید ملتی ہے جو ان کی برٹش گورنمنٹ مخالف ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جبکہ دوسری نظم اصلاحی رنگ کی حامل ہے جو حالیؔ اور آزادؔ کی اصلاحی شاعری کی یاد دلا رہی ہے۔

حوالہ جات
١۔ سلیم اختر ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، ص ٦٢٧
٢۔ طاہرہ پروین ڈاکٹر، جدید شاعرات اُردو، ص ١٩
٣۔ نجمہ رحمانی ، آزادی کے بعد اُردو شاعرات ، ص ٧
٤۔ ایضًا، ص ۱۲
٥۔۔ طاہرہ پروین ڈاکٹر، جدید شاعرات اُردو ، ص ۱۹۔ ۲۰
٦۔ سلیم اختر ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، ص ٦١٩
٧۔ محمد جمیل احمد ، تذکره شاعرات اُردو ، ص ۱۴۸
٨۔ ایضًا، ص ١۴۸
٩۔ ایضًا، ص ١٥١
١٠۔ محمد جمیل احمد ، تذکره شاعرات اُردو ، ص ١٥١
١١۔ نجمہ رحمانی ، آزادی کے بعد اُردو شاعرات ، ص ١٨
١٢۔ رفیعہ سلطانہ ڈاکٹر ، اُردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصہ ، ص ۱۴
١٣۔ محمد جمیل احمد ، تذکره شاعرات اُردو ، ص ١٥٢
١٤۔ ایضًا، ص ١٥٣
١٥۔ ایضًا، ص ١٥٣
١٦۔ مولوی عبد الحئی ، تذکره شمیمِ سخن، ص ١٥
١٧۔ انیسہ ہارون شیروانیہ ، حیات ز ۔ خ ۔ ش ، ص ٨
١٨۔ فرمان فتح پوری ڈاکٹر ، صرف شاعرات ، ص ٨٩
١٩۔ ز ۔ خ ۔ ش ، فردوس تخیل ، ص ۴۲
٢٠ ۔ ایضًا، ص ١٠٨

اگلا موضوع : اردو میں شاعرات کی روایت تقسیم ہند کے بعد

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں