اردو میں شاعرات کی روایت تقسیم ہند کے بعد

اردو میں شاعرات کی روایت تقسیم ہند کے بعد:
تقسیم ہند کے بعد جہاں اُردو نثر کے میدان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد مصروف عمل نظر آتی ہے وہی شاعری میں خواتین خال خال ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تقسیم ہند کے موضوع پر جہاں فکشن میں خواتین نے اپنے شاہکار ناول اور افسانے تخلیق کئے وہی شعری منظر نامے میں مکمل سکوت طاری رہا۔
۱۹۴۷ء کے بعد جو شاعرات اُبھر کر سامنے آئیں ان کا مختصر جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔
پاکستانی شاعرات میں پہلا نام زہرا نگاہ کا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذريعے اپنے عہد کی بھر پور نمائندگی کی۔ زہرا نگاہ فاطمہ سریّا بجیا اور انور مقصود کی بہن تھیں، اس لیے ادبی ذوق انہیں ورثے میں ملا تھا۔ زہرا نگاہ نے دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں اور زندگی کی ناقدری کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس لیے انسانی زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں وہ تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے عام گھریلوں مسائل پر بھی اُنہوں نے قلم آرائی کی۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے خواتین کو درپیش مسائل بھی ان کے موضوعات میں شامل ہیں جبکہ ملکی سیاسی حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کے شعری مجموعے ” شام کا پہلا تارا ” اور ” فراق” کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
؎ تم نے بات کہہ ڈالی کوئی بھی نہ پہچانا
ہم نے بات سوچی تھی بن گئے ہیں افسانے (٢١)

؎ جہانِ نو کا تصور حیات نو کا خیال
بڑے فریب دیئے تم نے بندگی کے لیے (٢٢)

ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادرمیں نے برسوں میں بُنی ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہوگے
نہ خوش ہوگے نہ پژمردہ رہوگے (٢٣)
پاکستانی شاعرات میں دوسرا اہم نام ادا جعفری کا ہے جنہوں نے اپنی منفرد اُسلوب کی بدولت اپنی الگ شناخت قائم کرلی۔ ادا جعفری کو اپنی ہم عصر شاعرات پر اس لیے بھی فوقیت حاصل ہے کہ ان کی شاعری دیگر شاعرات کی طرح محض نسوانی مسائل تک محدود نہیں بلکہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم دیکھتی ہیں ، اس کے خلاف خود کو احتجاج پر مجبور پاتی ہے۔ اُردو شاعرات میں اداؔ وہ پہلی خاتون ہے جو اپنی شاعری میں ایک ماں کے روپ میں سامنے آئیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” کے عنوان سے سامنے آیا. دوسرا مجموعہ ١٩٦٧ء میں شہرِ درد کے نام سے شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ غزالاں تم تو واقف ہو، ساز سخن اور سفر باقی ہے، بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔
؎ تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں (۲۴)

اپنی تخلیق پہ نازاں ہوں کہ شرمندہ ہوں
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے
اور سرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں
کٹ ہی جائے گا شب تارا کا اک روز فسوں
دیکھو نادان ہے نادان سے مایوس نہ ہو
آخر انسان ہے انسان سے مایوس نہ ہو (۲۵)
پاکستانی شاعرات کی روایت میں اگلا قابل ذکر نام کشور ناہید کا ہے، جنہوں نے ساری زندگی عورتوں کے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ کشور ناہید نے اپنی ادبی سفر کا آغاز ” لب گویا ” سے کیا جو ان کے غزلیہ کلام پر مشتمل مجموعہ ہے جس میں ابتدائی عشق کے کچے پن پر مبنی احساسات کا کُھل کر اظہار ملتا ہے جیسے:
؎ دیکھ کر جس شخص کو ہنسنا بہت
سر کو ان کے سامنے ڈھکنا بہت (٢٦)

اس مجموعے کے بعد کشور ناہید نے اپنی شاعری کی سمت متعین کی۔ اب ان کی شاعری میں کُھل کر مرد سماج سے بغاوت کا جذبہ ملتا ہے۔ ان کے لہجے کی تُندی ان کے اندر کی کرواہٹ اور سماج سے بیزاری کا پتہ دیتی ہے۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کی شاعری کا غالب حصہ عورتوں کی آزادی اور مرد سماج کی مخالفت پر مشتمل ہے تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کے یہاں صرف یہی دو موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں بھی ضروری سمجھا انہوں نے سیاسی موضوعات اور حکمرانوں کی نااہلی پر بھی چوٹ کی، جس سے ان کی شاعری کا کینوس کافی وسیع ہوجاتا ہے۔
نمونے کے اشعار ملاحظہ ہو :
؎ پھر کھڑی ہوتی ہے دیوار پہ دیوار یہاں
دل ابھی تک یہ سمجھتا ہے ملاقاتی ہے ( ٢۷ )

؎ اپنی بے چہرہ گی چھپانے کو
وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا (٢۸)
؎ پلٹ کے آئے تو دیوار و در نےحیرت کی
ہمارے ہاتھ میں تحرير تھی ہزیمت کی ( ٢٩ )
پاکستانی شاعرات کی اس روایت کو آگے بڑھانے میں ایک اہم اور ناقابل فراموش نام فہمیدہ ریاض کا ہے جو ادبی دنیا میں اپنے باغیانہ خیالات کے باعث الگ پہچانی جاتی ہے۔ فہمیدہ نے اپنی ادبی سفر کا آغاز "پتھرکی زبان” سے کیا جو ان کی ابتدائی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے میں اگرچہ ایک نوجوان لڑکی کے احساسات و جذبات کو پیش کیا گیا ہے تاہم دبا دبا سا احتجاجی رویہ بھی اس مجموعے کی خاصیت ہے جو آگے جاکے ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری کے موضاعات میں عورتوں کی آزادی، حقوق، مرد معاشرے کی مخالفت اور سیاسی موضوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے جنسیات پر بھی کُھل کر اظہار خیال کیا جس کی وجہ سے سماجی حلقوں کی جانب سے وہ معتوب ٹھہراٰئی گئیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں پتھر کی زبان، بدن دریدہ، دھوپ، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے، ہم رکاب، آدمی کی زندگی وغیرہ شامل ہیں۔ سب لعل و گہر کے عنوان سے ان کا کلیات بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔
؎ طویل رات نے آنکھوں کو کردیا بے نور
کبھی جو عکسِ سحر تھا سراب نکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جس کو نشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے (٣٠)

سب شیشے ساغر لعل و گہر
دامن میں چھپائے بیٹھی ہوں
سب ثابت و سالم ہیں اب تک
اک رنگ جمائے بیٹھی ہوں ( ٣١)
پاکستانی شاعرات کی روایت میں ایک معتبر نام پروین شاکر کا بھی ہے جو منفرد لہجے اور دلکش اُسلوب بیان سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو کے نام سے شائع ہوا۔ موضوعات کے اعتبار سے یہ مجموعہ کشور ناہیدؔ کے لب گویا سے ملتا جلتا ہے مگر دونوں کے اُسلوب میں نمایاں فرق ہے۔ پروین شاکر کی شاعری میں عورتوں کے مسائل، عشقیہ واردات و کیفیات اور حکمرانوں کے بے اعتدالیوں پر تنقید ملتی ہے۔ طبقاتی کش مکش بھی ان کی شاعری میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ پروین کے شعری تخلیقات میں خوشبو، صد برگ، خود کلامی، کفِ آئینہ اور عکسِ خوشبو وغیرہ شامل ہیں۔ ماہ تمام کے نام سے ان کی کلیات بھی چھپ کر سامنے آ چکی ہے۔
؎ اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں (٣٢)

؎ مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے (٣٣)

؎ اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی کی مانند
اور میری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے (۳۴)

تقسیم ہند کے بعد اُبھرنے والی شاعرات میں سے ایک اہم نام یاسمین حمید کا ہے جنہوں نے غزل کو نسوانی مسائل کے لیے استعمال کیا۔ یاسمین حمید نے جس عہد میں شاعری کا آغاز کیا وہ نظم کا دور تھا۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اسی عہد میں نظم کی بجائے غزل کو وسیلہ اظہار بنایا اور وہ موضوعات جنہیں عام طور پر نظم میں پیش کیا جارہا تھا انہیں بھی یاسمین حمید نے غزل کے پیرائے میں کامیابی سے برتا ہے۔
۱۹۴٧ء کے بعد میرؔ کے انداز کو اختیار کرنے کا رجحان عام تھا۔ خواتین میں یاسمین حمید وہ واحد شاعرہ ہیں جنہوں نے اس رجحان کو اپنا کر کامیابی سے نبھایا ہے۔ جدید شاعری میں عورت کی تصویر یکسر بدل گئی ہے یہی بدلی ہوئی تصویر اپنی پوری جزئیات کے ساتھ یاسمین حمید کی غزلوں میں موجود ہے۔
؎ ہمارے نام کی حقدار کس طرح ٹھہرے
وہ زندگی جو مسلسل تیرے اثر میں رہی ( ٣۵ )

؎ میرا بھی ایک نام ہے میرا بھی اک مقام
یہ بھول ہی گئی تھی مگر اُس کی چاہ میں (٣٦)

؎ بارش کے بعد مہرباں بادل گزر گیا
دھرتی بہت اُداس تھی زخمِ وصال پر (۳۷)

؎ فقط ساحل پہ بیٹھے بے بسی کی خاک اڑاؤں
کہ تُند و تیز موجوں کے طلب میں ڈوب جااؤں (۳۸)

شاعرات کی اس روایت میں شبنم شکیل بھی نمایاں مقام کی حامل ہیں۔ شبنم نامور شاعر اور نقاد سید عابد علی عابد کی صاحبزادی ہیں اس لیے شعری ذوق ورثے میں پایا۔ شبنم شکیل کا شمار پروین شاکر کی ہم عصر شاعرات میں ہوتا ہے بلکہ شبنم کے اپنے بیان کے مطابق اُنہوں نے ١٩٦٠ء کے لگ بھگ پہلی غزل کہی تھی اس لحاظ سے پروین شاکر ان سے جونئیر نظر آتی ہیں۔ شبنم کی شاعری سلجھے ہوئے شعور کی حامل ہے۔ جہاں ان کی ہم عصر شاعرات کے یہاں عشقیہ جذبات کا کھلم کھلا اظہار ملتا ہے وہیں شبنم نے اس طرح کے کچے عشقیہ مضامین بیان کرنے سے احتراز کیا۔ شبنم کی شاعری میں عورت اور مرد کی گھریلوں نا ہمواری اور ایک ایسی خاتون کا عکس ملتا ہے جو شادی کے وقت ایک شخص کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے مگر یہاں بھی اس کو تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ملتی اور کسی بھی وقت مرد کے منہ سے نکلے ہوئے تین کلمات اس کی پوری زندگی برباد کرسکتے ہیں۔ شبنم شکیل نے عورت کی زندگی کے اسی عدم تحفظ کی طرف دنیا کو متوجہ کیا ہے تاہم ان کی شاعری میں بغاوت کی کوئی صورت نطر نہیں آتی جو یقینا قابلِ تحسین بات ہے۔
؎ خود رات گئے آیا جھنجھلا کے بہت بولا
کیا سُکھ ہے مجھے گھر میں ہر روز کا مرنا ہے (۳۹)

؎ میں زندگی میں مروں گی نہ جانے کتنی بار
مجھے خبر ہے کہ رشتہ مرا صلیب سے ہے (۴۰)

؎ آپ سونے کا قفس لانے کی زحمت مت کریں
ہم وہ طائر ہیں کہ جن کے بال و پر باقی نہیں (۴۱)

؎ زندگی کا کوئی احسان نہیں ہے مجھ پر
میں نے دنیا میں ہرایک سانس کی قیمت دی ہے (۴۲)

؎ سسرال کے سب طعنے چپ چاپ سہے جاؤں
میکہ جو نہیں میرا اس گھر ہی میں رہنا ہے (۴۳)
پاکستانی شاعرات میں سارہ شگفتہ تانیثی شاعری کا ایک اہم حوالہ سمجھی جاتی ہے جن کی پوری شاعری عورت کے مسائل اور معاشرتی بے حسی سے عبارت ہے۔ سارہ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتی تھی۔ انڈیا کی معروف شاعرہ اور فکشن نگار امریتا پریتم سے گہری دوستی تھی جنہوں نے ان کی موت کے بعد ان کے خطوط کو شائع کروایا۔
سارہ شگفتہ نے اپنے شاعرانہ اظہار کے لیے نثری نظم کا پیرایہ اختیار کیا۔ اپنی شاعری کے بارے میں خود لکھتی ہیں :
”میں نے دودھ کی قسم کھائی شعرمیں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی،
میں شاعره کہلاؤں گی لیکن تیسری بات جھوٹ ہے میں شاعرہ نہیں ہوں۔
مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں،
آج چاروں سے طرف شاعرہ شاعرہ کی آوازیں آتی ہیں لیکن ابھی تک
کفن کے پیسے پورے نہیں ہوئے۔“ (۴۴)
سارہ کے مزاج میں جو جذباتیت تھی وہیں ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے "آنکھیں” اور "نیند کا رنگ” سامنے آچکے ہیں۔
شاعرات کے اسی روایت میں ایک اہم نام عہد حاضر کی شاعرہ ثمینہ گلؔ کا ہے جنہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے مصداق ادبی دنیا میں اپنی منفرد شناخت بنا رکھی ہے۔ ان کی شاعری کی منفرد خاصیت کے پیش نظر ان کی شاعری کو زیر نظر مقالے کا موضوع بنایا گیا تاکہ ان کی ادبی جہات کو متعارف کرایا جاسکے۔

حوالہ جات ۔
٢١۔ زہرانگاہ ، فراق ، ص ٢٨
٢٢۔ زہرانگاه ، شام کا پہلا تارا ، ص ٢٦
٢٣۔ ایضًا ، ص ٥٥
٢٤۔ اداؔ جعفری ، شہر درد ، ص ١٩٩
٢٥۔ ایضًا، ص ٥٥
٢٦۔ کشور ناہید، لب گویا ، ص ۵۷
٢٧۔ کشور ناہید، وحشت اور بارود میں لپٹی ہوئی شاعری ، ص ١١٦
٢٨۔ کشور ناہید، آباد خرابہ، ص ٨٣
٢٩۔ کشور ناہید ، گلیاں دھوپ اور دروازے ، ص ١٢١
٣٠۔ فہمیدہ ریاض، پتھر کی زبان ، ص ٥٦
٣١۔ فہمیدہ ریاض ، سب لعل و گہر ، سر ورق
٣٢۔ پروین شاکر ، خوشبو ، ص ١٨
٣٣۔ پروین شاکر ، ماہ تمام ، ص ٣٥
٣٤۔ پروین شاکر ، خوشبو ، ص ١١
٣٥۔ یاسمین حمید ، پس أئینہ ، ص.۱۴۷
٣٦۔ ایضًا، ص ۱۴۲
٣٧۔ ایضًا، ص ۱۵۸
٣٨۔ یاسمین حمید ، حصار بے در و دیوار ، ص ۱۷
٣٩۔ شبنم شکیل ، شب زار ، ص ۱۰۰
٤٠۔ ایضًا، ص ۷۶
٤١۔ ایضًا، ص ۸۲
٤٢۔ شبنم شکیل ، شب زار، ص ۱۴۱
٤٣۔ ایضًا، ص ۹۹
٤٤۔ سارہ شگفتہ ، أنکھیں ، ص ۱۰

اگلا موضوع۔ ثمینہ گل کی نظم نگاری

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں