مضمون تعارف و مفہوم
مضمون تعارف و مفہوم, مضمون نگاری بنیادی طور پر اردو کی نثری صنف نہیں تھی ، یہ صنف ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزی کے توسط سے اردو میں وارد ہوئی ۔ انگریزی میں اسے Essay کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ صنف فرانسیسی زبان سے آئی جہاں اسے Issai کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے معنی کوشش کرنا کے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مضمون نویسی کے اصول
اس کے علاوہ ایک اور نظریہ یہ ہے کہ فرانسیسی زبان میں یہ لفظ عربی زبان کے لفظ ” سعی ” سے آیا ہے۔ جس کے معنی بھی کوشش کے ہیں۔ فرانسیسی ادیب مائیکل دی مونتین [ ۲۸ فروری ۱۵۳۳ء تا ۱۳ دسمبر ۱۵۹۲] ( Michel De Montaigne) کو پہلا مضمون نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی کتاب Essais کو مضمون کی پہلی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔
اردو میں مضمون کے لغوی معانی مطلوب، مدعا، بیان، مطلب،اور تحریر وغیرہ ہے۔ فرہنگ عامرہ میں اس کے معنی: موضوع بیان ، کسی موضوع پر تحریری یا تقریری اظہار خیال بیان کیے گئے ہیں (محمد عبد اللہ خویشگی ، فرهنگ عامرہ ) جب کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق مضمون : مختصر ادب پارہ جس کا مقصد کسی خاص نکتے کا اثبات یا موضوع کی توضیع و تعبیر ہو ۔“ کا نام ہے ۔ ( ڈاکٹر جمیل جالبی، قومی اردو انگریزی لغت ص: ۲۳۲)
یہ بھی پڑھیں: مضمون کیا ہے؟
ماہرین ادب کی رائے
لفظ "مضمون” کی اس تمہیدی گفتگو کے بعد اس ادبی صنف کی تعریف کے بارے میں ماہرین ادب کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں۔
موضوعات کی فہرست
عطا الرحمان کہتے ہیں:
"کسی بھی عنوان پر معلومات یک جا کر کے اس کے ذیلی موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے دل چسپ اور جامع مواد کو ترتیب، تسلسل اور روانی کے ساتھ پیش کرنا یا کسی موضوع پر ترتیب کے ساتھ اظہار خیال کرنا ” مضمون کہلاتا ہے۔“
( عطا الرحمان ، اردو اصناف ادب، مالیگاؤں ؛ رحمانی پبلی کیشنز ، ۲۰۱۲ پس : ۵۰)
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا کہنا ہے:
کسی متعین موضوع پر اپنے خیالات اور جذبات و احساسات کا تحریری اظہار مضمون کہلاتا ہے ۔ دنیا کے ہر معاملے، مسئلے یا موضوع پر مضمون لکھا جا سکتا ہے۔“
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،اصناف ادب، لاہور ؛ سنگ میل پبلی کیشنز 2008، ص: ۱۴۸)
ان تعریفوں کے تجزیہ کے بعد "مضمون” کی جو تعریف ذہن پر نقش ہوتی ہے ؛ اس کے مطابق کسی ایک موضوع سے متعلق اپنی تمام معلومات کو ایک منطقی ترتیب سے ادبی پیرائے میں پیش کرنا مضمون نویسی کہلاتا ہے ۔
مضمون نگاری کی شرائط و لوازمات :
مضمون نویسی ایک فن ہے جس کے لیے وسیع مطالعہ، حالات و واقعات کے عمیق مشاہدے ، گہرے غورو فکر، معلومات اور مشق کی ضرورت ہے۔ یہ ذخیرہ الفاظ، صحتِ زبان اور خیالات و واقعات میں ربط و تسلسل قائم کرنے کی صلاحیت کا مطالبہ کرتا ہے ۔
مضمون کی اقسام :
مضمون نگاری کو مندرجہ ذیل دو بنیادی زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
الف) موضوعاتی مضامین
ب) نوعیتی مضامین
موضوع کے لحاظ سے مضمون کئی طرح کا ہو سکتا ہے مثلاً سوانحی ، معاشرتی ، اخلاقی، مشاہداتی، سائنسی، علمی تخیلاتی وغیرہ ۔
نوعیت کے لحاظ سے مضمون نگاری کی متعدد صورتیں ہیں ۔ مثلاً بیانیہ، استدلالی، تنقیدی ، خیالی، تحقیقی وغیرہ۔
بیانیہ مضمون میں کسی موضوع پر ذاتی رائے اور خیالات کا اظہار کرنا پڑتا ہے اور اپنے مشاہدات و تجربات بیان کئے جاتے ہیں ۔ مثلا باغ کی سیر، کسی میچ کا آنکھوں دیکھا حال، یومِ والدین وغیرہ۔ ابتدائی جماعتوں میں بیانیہ مضمون چند مربوط جملوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً پالتو جانوروں یا دیگر روزمرہ مشاہدے میں آنے والی گردو نواح کی اشیا پر مضامین۔
استدلالی مضمون میں کسی موضوع پر اسباب و علل یا دلائل کے ساتھ خیالات کو تحریر کیا جاتا ہے اور دلائل دے کر کسی بات کو ثابت کیا جاتا ہے۔
خیالی یا تخیلاتی مضمون میں ذاتی تخیل اور اختراعی یا تخلیقی قوت کے سہارے کسی موضوع کو بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً چاندنی رات کا منظر۔
تنقیدی اور تحقیقی مضمون نگاری میں کسی موضوع کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کو دلائل اور تحقیق سے واضح کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی مضمون نگاری کثرتِ مطالعہ اور اعلیٰ ذہانت کا تقاضا کرتی ہے۔
پروف ریڈر : وقار حسین
حواشی
کتاب۔ تحریر و تربیت
موضوع۔ تعارف و مفہوم
کورس کوڈ۔9008
صفحہ۔ 12 تا 13
مرتب کردہ۔ثناء فاطمہ