خاکے کی اقسام

خاکے کی اقسام | Urdu mai khakhi ke aqsam

نوٹ: یہ تحریک ایک مقالے سے لی گئی ہے۔ پروفیسر آف اردو کو مقالہ نگار کا نام اور باقی تفصیلات تک رسائی نہ مل سکی۔

خاکے کی اقسام

خاکہ ادبی صنف کی حیثیت سے زیادہ قدیم نہیں ہے لیکن اس کی نشوونما کے دور سے لے کر مختلف ارتقائی مراحل کے دوران متعدد اہل قلم نے اس صنف میں اپنا تخلیقی جو ہر دکھایا ہے۔

ان اہل قلم کا بنیادی تخلیقی میدان خاکہ نگاری کے علاوہ دوسرے فنون اور اصناف تھے۔

جیسے تحقیق و تنقید سوانح نگاری ، ناول نگاری، افسانہ نگاری، انشائیہ نگاری اور شعر گوئی و غیرہ۔

یہ بھی پڑھیں: خاکہ کے اجزائے ترکیبی | خاکے کا فن

اس کا اثر یہ ہوا کہ خاکہ نگاری میں بھی انہوں نے مختلف اصناف کی خصوصیات داخل کر دیں اور جس کی وجہ سے خاکہ میں ہیئت ، تکنیک اور موضوع کے نت نئے تجربے ہوئے

اور وہ مختلف رنگ وروپ میں نمایاں ہوئی۔

اردو میں ہیئت اور موضوع کے اعتبار سے خاکہ کو متعدد اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو میں خاکہ کی ساخت

یہ واضح رہے کہ یہ تقسیم خاکہ پر ایک خاص رنگ غالب ہونے کے اعتبار سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خاکہ کے بنیادی اجزاء اور فنی لوازم موجود ہیں۔

اگر ایسا نہیں ہے تو اسے خاکہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔

سوانحی خاکہ

خاکہ میں سوانحی معلومات اور واقعات شخصیت کے کردار اور سیرت کو واضح کرنے کے لیے اہم رول ادا کرتے ہیں

اور انہیں کی بنیاد پر شخصیت کی تصویر اور تعبیر ہوتی ہے۔

سوانحی خاکہ میں فن کار کی بنیادی توجہ شخصیت کی سیرت نگاری پر مرکوز ہوتی ہے۔

وہ واقعات اور کردار کا ایسا بیانیہ اختیار کرتا ہے کہ ہمیں شخصیت کے متعلق کافی معلومات حاصل ہو جائے

اور ان کے ذریعہ شخصیت کی واضح جھلکیاں بھی نظر آجائے ۔

اردو کے ابتدائی مراحل کے متعد اس متعدد خاکے اسی طرز پر لکھے گئے ہیں۔

تاثراتی خاکہ

اس رنگ کے خاکوں میں فن کار شخصیت کی کردار نگاری اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ذکر میں اپنے یادوں اور تاثرات کا سہارا لیتا ہے۔

وہ اس کی زندگی اور سیرت و کردار کو واقعات کے بجائے ایک تاثراتی بیانیہ جس میں جذباتیت خلوص ومحبت اور ہمدردی کے جو شیلے اور ولولہ انگیز احساسات موجزن ہوں، کے ذریعہ اجاگر کرتا ہے۔

یوں تو خاکہ نگاری تاثرات کے بغیر بے روح محسوس ہوگی لیکن تاثراتی خاکہ میں اس کو بیانیہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے

اور اس میں واقعہ نگاری اور کردار نگاری کے رنگ پھیکے پھیکے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اردو میں خاکہ نگاری کا تنقیدی جائزہ

مدحیہ اور توصیفی خاکہ

اس میں شخصیت کے تئیں عقیدت مندی کے جذبے کا رنگ غالب ہوتا ہے اور خاکہ نگار موضوع خاکہ کے متعلق ایسے واقعات و تاثرات بیان کرتا ہے

جن سے اس کے مدح و توصیف کا پہلو نکلتا ہو۔

وہ مرکزی توجہ شخصیت کے اعلیٰ اخلاق اور بلند اوصاف پر مبذول کرتا ہے۔

اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ مدحیہ اور توصیفی خاکہ بھی تاثراتی بیانیہ کے رنگ میں ہوتا ہے۔

اس میں واقعہ نگاری اور کردار نگاری ہوتی ہے لیکن تاثرات کا رنگ لئے ہوئے۔

خاکہ نگار کو شخصیت کے کردار میں انسانی عظمت کے مثالی اور اعلیٰ اقدار دکھائی دیتے ہیں

اور وہ قاری کو بھی اسی تاثر میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ بظاہر یونی کمی معلوم ہوتی ہے اور اس میں جانبداری کا پہلو نکلتا ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ یہ ایک تخلیق کار کا نقطہ نظر ہے اور اس کے احساس و جذ بہ پرشک کرنا مناسب نہیں ہے۔

ممکن ہے کہ خاکہ نگار کے جذبات اس کے تجربات کی بنیاد پر حقیقت پر مبنی ہوں ۔

اگر خاکہ نگاری کے فنی لوازم کا لحاظ کیا گیا ہے تو جانبدارانہ ہونے کے باجود مدحیہ اور توسیفی خاکہ قابل اعتبار ہوگا۔

مزاحیہ اور طنزیہ خاکہ

طنز ومزاح نگاری اردو کے غیر افسانوی ادب میں ایک اہم اور مقبول عام صنف ہے۔

بعض مشہور مزاح نگاروں نے خاکہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور کامیاب خاکے لکھے ہیں۔

اردو خاکوں میں طنز و مزاح کا استعمال اسلوب میں شگفتگی اور رنگینی پیدا کرنے کے لیے کافی مقدار میں ہوا ہے۔

جن خاکوں میں طنز و مزاح کا رنگ غالب محسوس ہوا سے طنزیہ اور مزاحیہ خاکہ کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

ایسے خاکے بہت زیادہ نہیں ہیں۔ طنز و مزاح کو زبان کی چاشنی فکر انگیزی اور اشخاص کی خامیوں کو کن انکھیوں کی صورت میں بیان کرنے کے لیے متعدد خاکوں میں آمیز کیا گیا ہے۔

معلوماتی اور سنجیدہ خاکے

اس ذیل کے خاکوں میں شخصیت کے ذاتی اور علمی وادبی اوصاف پر معلومات پیش کی جاتی ہیں ۔

خاکہ کا رنگ سنجیدہ ہوتا ہے اور خاکہ نگار پوری متانت اور دیانت کے ساتھ شخصیت کے متعلق معلومات فراہم کرتا چلا جاتا ہے۔

اس کے علمی و ادبی نگارشات پر تنقیدی تبصرے بھی کرتا ہے۔

ایسا نہیں کہ اس میں واقعہ نگاری، کردار نگاری اور شخصیت نگاری مفقود ہوتی ہے اور سنجیدہ اسلوب کی وجہ سے دلچسپی نہیں ہوتی لیکن خاکہ کے رنگ میں شگفتگی اور دلکشی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

اس طرح کے خاکے اردو میں مقبول نہیں ہیں اور ان کی تعداد بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔

سرسری خاکہ

یہ خاکہ کی وہ قسم ہے جو اپنے اختصار کی وجہ سے سرسری کہی جاتی ہے۔

اس میں خاکہ کے فنی لوازم جیسے واقعہ نگاری اور کردار نگاری یا تو بالکل مفقود ہوتے ہیں یا ان کا صرف شائبہ رہتا ہے۔

اس رنگ کے خاکے بہت کم ملتے ہیں اور فنی اعتبار سے ان کو خاکہ” کے بجائے خاکہ نما یا قلمی چہرہ “ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔

خاکوں کے مندرجہ بالا اقسام یا اس کے مختلف رنگ و روپ کا تفصیلی اور تنقیدی تجزیہ مقالہ کے آئندہ ابواب میں ہوگا ۔

جب ہر دور کی خاکہ نگاری کے خصوصیات اور ادبی وفنی امتیازات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

مختلف خاکوں کے اقتباسات اور ان کے فنی پہلوؤں کے تجزیہ سے جہاں ایک طرف ان کی ادبی قدر و قیمت متعین کرنے کی کوشش کی جائے گی وہیں دوسری طرف ان کے رنگ و روپ خوبی اور خامی پر بحث کی جائے گی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں