اُردو ہندی تنازعہ اور اُردو رسم الخط
ڈاکٹر ظفر احمد استاد شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
اردو میں حروف تہجی اور املا کی بحث علمی سطح پر انیسویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوئی۔ یوں تو ان مطالعات کے پس پر دو کئی عوامل فعال نظر آتے ہیں البتہ بنیادی طور پر اسے سیاسی بحث قرار دے سکتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جب مغل سلطنت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تاج برطانیہ کے زیر نگیں آگیا، جب مغلوں اور مسلمانوں سے وابستہ ایک پوری تہذیب زوال آمادہ ہوئی۔
اس دوران یہ محطہ شدید قسم کی تبدیلیوں کی زد میں رہا۔ ان سے جہاں فرد متاثر ہوا وہاں اس سے منسلک ہر شے بھونچال کا شکار ہوئی۔ زبان بھی اس معاشرے کا ایسائی شعبہ تھا جو نئے حالات میں نئے پیراہن التیار کرنے لگتا ہے۔ دیگر ہندوستانی زبانوں کے بر عکس اردو بولنے والے اپنی زبان کی اس تبدیلی کے عمل میں مزاحم ہوئے۔ اس مزاحمت کی بنیاد یہ تھی کہ اردو زبان ان کے اسلاف کی نشانیوں میں سے ایک تھی۔
اس زبان کو ان کے بزرگوں نے سجایا.ستوار تھا اور اسے ادبی زبان کے درجے تک لے آئے تھے۔ اس زبان میں ان کا بیشتر علمی و ادبی ورثہ محفوظ تھا۔ ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ اس زبان میں اب اس قدر عربی، فارسی اور ترکی اثرات شامل ہو گئے تھے کہ انہیں لگنے لگا کہ اس واسطے ان کا رابطہ ایران و عرب سے قائم رہے گا۔ ان مخطوں کو بحیثیت مسلمان وہ اپنا فکری و علمی سر چشمہ تصور کرتے تھے۔ زبان کی نئی
صورت قبول کرنے سے انہیں اندیشہ تھا کہ یہ رابطہ ٹوٹ جائے گا۔
دوسری جانب نئے ہندوستانی معاشرے میں ہنود جو اکثریت میں ہونے کے باوجود ایک مدت سے پس منظر میں رہتے چلے آئے تھے، انگریزوں کے زیر سایہ ابھر نے لگتے ہیں۔ اقتدار کا قرب حاصل ہوتے ہی وہ کئی ناپسندید و عوامل کو راد راست پر لانے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اردو زبان بھی ان کے مطابق گزشتہ ادوار میں اپنی راہ کھو چکی ہے۔ یوں وہ اس کی تراش خراش پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اس زبان کو وہ ایک عرصے سے قبول کر چکے تھے۔ ان کے مطابق اس زبان میں غیر ضروری طور پر بیرونی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
جن سے اس کو پاک کرنا ضروری ہے۔ یوں پہلے تو وہ اس زبان کے نام اور اس میں عربی، فارسی اثرات کے خلاف محاذ کھولتے ہیں اور پھر بعد میں اس کے رسم الخط پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہی دراصل وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے اردو رسم الخط و حروف کے مطالعے کا آغاز ہوتا ہے۔ ہنود کے ان اعتراضات کا جواب بذریعہ دلیل و ثبوت دینے کے لیے نیز مسلمانوں میں اس زبان کی اہمیت اور اس کے مندرجات کی شناخت و ابلاغ کے لیے رسم الخط و حروف کے مطالعے کا عملا آغاز ہوتا ہے۔ اردو ہندی تنازعے کی تاریخ اور اس کے اثرات پر اردو میں کئی اہم اور
وقیع کتا بیں سامنے آچکی ہیں۔
بہت سے مورخین کا خیال ہے زبان کی تبدیلی کا آغاز کلکتہ میں قائم فورٹ ولیم کالج سے ہوا۔ انگریزوں نے اس کالج میں ہی زبان کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق کا بیج بو دیا تھا۔ جب تک مغل سلطنت کا دیا غمثما تارہا ان سرگرمیوں کی کوئی واضح شکل نہ ابھر سکی۔ لیکن جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مغل حکومت کا چراغ بجھ گیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان پر کمپنی کی حکومت قائم ہوگئی۔
انگریزوں کے اقتدار کا سورج چڑھتے ہیں ہندوؤں نے اردو زبان سے عربی، فارسی اثرات کے خاتمے کے لیے باقاعدہ جد و جہد کا آغاز کیا۔ یوں لسانی مسئلہ پہلی بار بڑے پیمانے پر شدت کے ساتھ ۔
سر اٹھاتا ہے۔ بنارس کی ہندی پر چارنی سجا کی سی متعدد انجمنیں سیاسی محاذ پر سرگرم عمل ہو گئیں اور گورنر میکڈونلڈ کی استعماری سیاست اور گریر سن کا لسانی استعمار ان انجمنوں کی سر پرستی کو اپنا قومی فریضہ سمجھنے لگا۔ (۱)
ہندوؤں نے ہندی کی ترقی اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کئی تنظیمیں قائم کیں۔ ان تنظیموں نے ہندی زبان کے احیاء کو اپنا مقصد اولین بنایا اور ہر سطح پر ہندی زبان کی حمایت ، اسے بیرونی اثرات سے پاک کرنے اور اسے اردو پر سبقت دلانے کی کوششیں شروع کیں۔ برہمو سماج، جس کے بانی راجا رام موہن رائے تھے نے نئے ملکی حالات کا تقاضا سمجھتے ہوئے اصلاح مذہب کا بیڑا اٹھایا اور اس میں کافی کامیابی بھی حاصل کرلی۔ دوسری طرف آریا سماج اس کے رد عمل میں وجود میں آئی۔ یہ ایسی تحریک تھی جس کے ذریعے برہمو سماج اور اور اسلامی اثرات سے ہندومت کو پاک کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
کا بنیادی مقصد ہندومت کی قدیم روح کا احیاء اور نئے نظام کو اس کے مطابق کرنا تھا۔ آریا سماج تحریک نے لسانیات میں نزاعی کردار ادا کیا اور اردو پر ہندی کو سبقت دلانے کی کوشش کی۔ دیانند سرسوتی نے ہندی کو ہندؤں کی مذہبی زبان قرار دیا۔ (۲)
دیانند سرسوتی نے ہندی کو پورے ہندوستان میں رائج کرنے کی کوشش کی۔ زبان کی شدھی کا اولین نمونہ دیانند سر سوتی نے اپنی تصنیف مستیار تجھ پر کاش میں پیش کیا اور عربی اور فارسی کے مقبول الفاظ کو چن چن کر نکالا اور ان کی جگہ
منسکرت کے بھاری بھر کم الفاظ استعمال کیے۔ (۳)
اس تنظیم کے نزدیک ہندی آریا بھاشا تھی اور اس کا فروغ ہر ہندو کا مذ ہبی فریضہ تھا۔ (۳)
دنیا کی رائج اور ترقی یافتہ زبانوں کی تاریخ میں اس طرح کی مثال شاید ہی ملے۔ یہ اردو ہی ہے جس نے اپنے ارتقائی سفر میں اس قدر اتار چڑھاؤ دیکھے ۔ ہنود کی جانب سے زبان کو شدھ کرنے کے بعد اس کے رسم الخط کی باری آئی ، اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع ہوا۔ یہ معاملہ اٹھانے والوں میں سناتن دھرم تحریک کے رہنما پنڈت شردھا رام پیش پیش تھے۔ سناتن دھرم تحریک نے اس ی بھاشا کو دیوناگری حروف میں رائج کرنے کا مطالبہ کیا اور حصول مقصد کے لیے بنارس میں ناگری سجھا اور الہ آباد میں ہندی ساہتیہ سمیلن قائم کیے گئے۔ (۵)
ایک طرف جہاں اردو کو ہندوؤں کی جانب سے کئی حملے سہنے پڑے وہاں دوسری جانب بعض مورخوں کے مطابق انگریزوں نے ایک پالیسی کے تحت ایک زبان کو دو ٹکروں میں تقسیم اسانی سازشوں کے نتیجے میں اردو اور ہندی میں بھی حد
فاضل پیدا ہوئی۔ ایک طرف یہ فاصلہ بڑھتا گیا تو دوسری سمت دفتری ہندی ہوتی چلی گئی۔ (۷) اردو کے دفاع میں جہاں انفرادی سطح پر کام ہوئے وہاں بعض اداروں اور انجمنوں نے بھی اس سلسلے میں اہم
کردار اد اکیا۔ دہلی کالج ، علی گڑھ کالج اور جامعہ عثمانیہ کے نام اس ضمن میں نمایاں ہیں۔ ان اداروں نے اردو کو ادبی و علمی حوالوں سے ثروت مند بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کا کردار اس تحریک میں سب سے نمایاں ہے۔ اس ادارے کے بانی اور روح رواں سر سید احمد خان تھے۔ سر سید ابتدا میں ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے کوشاں تھے۔ وہ مسلمانوں یا یہاں آباد کسی دوسرے گروہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ سرسید کو اپنا لائحہ عمل بدلنا پڑا اور اس فیصلے کے پس پردہ بھی بنیادی کردار زبان نے ہی ادا کیا۔ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہونے والے تنازع نے ۱۸۵۷ء کے بعد شدت اختیار کرلی ۔ چنانچہ ۱۸۶۷ء کے سال کو اس تحریک میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ اب سرسید کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا۔ سرسید کی زندگی میں جنگ آزادی کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا۔ (4)
اس سال بنارس کے بعض سر بر آوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے ۔ (۸)
اس فعل سے جہاں ایک طرف ہندوؤں کی مسلم دشمنی عیاں ہو گئی تو دوسری جانب ان کے دلوں میں اردو کےلیے پائی جانے والی نفرت بھی آشکار ہوئی۔ ۱۸۶۷ ء وہ یاد گار سال ہے جس میں خود ہندوؤں کے ہاتھوں دو قومی نظرئے کی بنیاد رکھی گئی۔ (۹)
ان حالات میں سرسید دور اندیشی سے کام لیتے ہیں اور اپنی کو ششوں کا دائر و ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح تک محدود کر لیتے ہیں۔ وہ ہر محاذ پر اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کا جواب دیتے ہیں۔ ہندووں نے ان حملوں کی ابتدا اردو پر حملوں سے کی تھی۔ ہندی زبان کی سرپرستی فرقہ ورانہ بنیادوں پر شروع کرنے کے ساتھ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا اور اس کے استیصال کے لیے ہر رسید نے اردو کی اس نئی حیثیت کو قبول کیا اور ہند اسلامی تہذیب کے اس شیر میں شمر کو تحفظ پیر م شروع کر دی۔ ۱۰ سرسید نے مسلم تہذیب کی نمائندہ زبان کے دفاع سے اپنا سفر شروع کیا۔ انہوں نے بنارس میں رہ کر اردو زبان اور اس کے خط ابجد پر کئے گئے اعتراضات کے مدلل جواب دیے۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں شمالی ہندوستان کے سرکاری دفاتر میں اردو زبان جمع تحط ابجد بر قرار رہی۔
یوں ہزار ہا مسلمان جو بذریعہ اردو تحریر اور فارسی محط کے سرکاری نوکری کرتے تھے یا تو کری کے امیدوار تھے اور جن کو بڑھے طوطے کی طرح اب بھاشا زبان اور ناگری حرفوں کا سیکھنا اور اس میں امتحان دینا ایسا ہی مشکل تھا جیسا نیچر کا بدلنا، اس ناگہانی طوفان کے ریلے سے بیچ گئے۔ 100
ہندوؤں کی جانب سے اردو زبان پر ہونے والا پہلا اعتراض اس پر عربی ، فارسی اور ترکی زبانوں کے اثرات کی وجہ سے ہوا۔ چونکہ یہ کام مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں ہو ا، لہذا ان اثرات کو بھی مسلم تہذیب کے کھاتے میں شمار کیا گیا۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمران ایرانی تھے یا تورانی۔ عربوں نے بھی ہندوستان کے بعض علاقوں کو پایہ تخت بنایا۔ حکمرانوں اور سرکاری زبان ہونے کی وجہ ۔ زبانوں کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی۔ اس کو ہمارے ہم وطن بھائیوں نے صرف اس بنا پر مٹانا چاہا کہ اس کی ترقی کی بنیاد مسلمانوں کے عہد میں پڑی تھی۔ (۱۲)
ان مسلم حکومتوں اور صوفیائے کرام کی تبلیغ سے ہندوستان کی ایک بڑی آبادی مشرف بہ اسلام ہوئی۔ جس کے نتیجے میں زندگی کے دیگر معاملات کے کے علاوہ ان لوگوں کی زبانوں پر بھی متذ کرہ زبانوں کے اثرات پڑے۔ اس کام میں تیزی مسلمان ادیبوں خاص کر شاعروں کی وجہ سے آئی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب یہاں کے مسلمانوں نے بعض مقامی زبانوں کے لیے عربی، فارسی خط یعنی ابجد اختیار کیا۔ اردو بھی ایک ایسی ہی ہندوستانی زبان تھی جس کے لیے ابجد التیار کیا گیا تھا لہذا اس لیے اس میں فارسی الفاظ کی کثرت ہو گئی۔ بر خلاف بندی کے جو اپنے اصلی ماخذ یعنی سنسکرت کی طرف عود کر گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ
زمانے کی ادبی اردو اور ادبی ہندی میں زمین آسمان کا فرق ہو گیا۔ (۱۳)
علی گڑھ کالج میں اردو نصابی کتب کی تیاری کے سلسلے میں چونکہ اردو کو اولیت حاصل رہی لہذا ہندوؤں کی جانب سے اس طرف بھی تیر برسانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اردو زبان کے مخالفوں نے اخباروں میں اس بات کی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی تھی کہ یونیورسٹی میں مسلمانوں کے لیے اردو زبان اور ہندوؤں کے لیے ہندی زبان مخصوص کی جائے اور باوجود تسلیم کرنے اس بات کے کہ ہندی زبان سردست ترجمہ کی قابلیت نہیں رکھتی اس امر پر زور دیا جاتا تھا کہ اس کی ترقی میں کوشش کر کے اس کو ترجمہ کے لائق بنایا جائے۔ (۱۳)
لیکن ان تمام مخالفتوں کے باوجود سرسید اپنے مقاصد کے حصول میں مگن رہے۔ یوں جہاں ایک طرف انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا وہاں اردو زبان و ادب بھی ان کے احسانات کے زیر بار نظر آتے ہیں۔ علی گڑھ تحریک نے نہ صرف ہندی زبان کے قلبے کو روکنے کی کوشش کی بلکہ اس نے لفظ کی داخلی
حر کی قوت کو پہچانا اور انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے ذریعے اس قوت کو مثبت طور پر استعمال کیا۔ (۱۵)
اس مخدوش دور میں اردو کی حفاظت و ترقی کے لیے جہاں کئی اشخاص نے انفرادی و اجتماعی طور پر کارہائے نمایاں سر انجام دیے وہاں اردو کے فروغ کے لیے قائم ہوئے چند اداروں کا کردار بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ ان اداروں
میں جدید تعلیم اردو زبان میں ہی ہوتی تھی۔ علمی حوالوں سے تراجم نے اردو کا علمی دامن وسیع ہوا۔ علی گڑھ اور دہلی کالجز کے علاوہ جامعہ عثمانیہ نے اردو زبان کو علمی حوالوں سے ثروت مند بنانے میں بھر پور حصہ ڈالا۔ حیدرآباد مسلم تہذیب کا گڑھ تھا اور وہاں دفاتر کی زبان اردو تھی۔ جامعہ عثمانیہ بی تو تمام علوم و فنون کے لیے ذریعہ تعلیم کے طور پر اردو ہی کو اختیار کیا گیا۔ (۱)
سرسید کے بعد اردو کے دفاع کی ذمہ داری اٹھانے والوں میں مولوی عبد الحق کا نام نمایاں ہے۔ مولوی صاحب کی زندگی پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی اردو زبان کی ترقی کے لیے تگ و دو کرتے اور اس زبان پر ہونے والے حملوں سے بچاتے گزار دی۔ جیسے سرسید کی وفات کے بعد اردو کا علم انہوں نے تھام لیا ہو ۔ مولوی عبد
الحق نے بھی سرسید کے نصب العین کو پنایا اور اسی کو اپنا مقصد بنایا۔ یعنی اردو زبان و ادب کی خدمت ۔ (۱۷)
بیسویں صدی کا نصف اول ہندوستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز زمانہ ہے۔ ہندوستان کے لوگ مذہبی، سیاسی طور پر بیدار ہو گئے ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کے ۔ ہیں۔ ایک جانب تو باہمی رواداری اور اتفاق جار ہے ہیں۔ زبان کے سلسلے میں مولوی عبد الحق نے گاند و ادبی میدانوں میں بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہے دوسری جانب اس کام میں روڑے بھی برابر اٹکائے ہر سازش کا مقابلہ کیا۔ ۳۶ ۱۹۳۷ء کا زمانہ اردو مخالفت کے لیے ایک بہت اہم زمانہ تھا۔ اس زمانے میں منشی پریم چند جیسا مستند اردو افسانہ نگار بھی اردو کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا اور مخالفت میں کئی مضمون لکھے۔ (۱۸۸) اسی زمانے میں کانگریس نے ہندوستانی زبان کا پر چار شروع کیا۔ مولوی عبد الحق نے ہندوستانیوں کے عام مفاد میں اس نام کو ابتدا میں قبول کر لیا تھا البتہ گاندھی جی کے ان تاریخی جملوں کے بعد جو انہوں نے مولوی صاحب کے سامنے کہے تھے ، مولوی عبدالحق کے سامنے سے اس ڈرامے کا پردہ بھی بٹ گیا۔ کا نگر میں نے ہندوستانی ادب اور ادیبوں کے حالات سے واقفیت اور انہیں باہم قریب لانے کے لیے ایک تنظیم (اکھل بھارتیہ ساہتیہ پر شد) بنائی، جس کے بانی مسٹر کنہیالال منشی تھے۔ اس تنظیم کے سالانہ جلسے میں جو ۱۹۳۶ء میں گاندھی کی صدارت میں ہوا اور وہیں گاندھی جی کی اردو دشمنی سامنے آئی۔ اس جلسے میں اردو کے حوالے سے گاندھی جی کے خیالات متشرح ہوئے۔ گاندھی جی نے اردو کو مسلمانوں سے منسوب کرتے ہوئے اس کے محط کو بھی قرآنی حروف قرار دیا۔ نیز اس کے فروغ کو مسلمان بادشاہوں کھاتے میں شمار کیا۔ (۱)
مولوی صاحب اس جلسے کے بعد اکھل بھارتیہ پر شد کمیٹی سے الگ ہو گئے۔ گاندھی جی کے اس بیان سے ان کی ذہنیت واضح ہوئی ۔ یہاں مولوی عبدالحق کے عزم و حوصلے کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ گاندھی جی سے ٹکر لینا یقینا کوئی آسان اور معمولی دل گردے کا کام نہ تھا مگر مولوی عبد الحق نے اس معاملےمیں گاندھی جی کا خم ٹھونک کر اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ (۲۰)
پروفیسر گیان چند جین نے البتہ مولوی عبد الحق کے بیان کر وہ اس جلسے کے احوال اور گاندھی جی کے بیان سے ہ اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ مثلاً ان کے مطابق گاندھی جی کا مون برت تھا لہذا انہوں نے کوئی تقریر نہیں کی۔ دوسری بات یہ مولوی صاحب گراں گوش تھے۔ لیکن انہوں نے دیکھنے میں بھی غلطی کرتے ہوئے گاندھی جی کے ساکت ہو نٹوں کو متحرک دیکھا۔ دوہی صورتیں ہیں کہ حکیم صاحب نے ان کے مضمون میں اضافے کیسے اور مولوی صاحب نے انہیں نہیں دیکھا۔ اگر دیکھا ( بہ شمول قرآن کے حروف والا قول (تو اس کے معنی یہی ہیں کہ وہ خود اس سازش میں شریک تھے۔ ۱۲۱۰
پروفیسر گیان چند کے مطابق ایک دوسری صورت بھی ممکن ہے چونکہ اجلاس میں اختر حسین رائے پوری مولوی صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے موادی صاحب کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لیے یہ الفاظ مہاتما جی سے منسوب کر کے مولوی صاحب کو باور کرادیے۔ (۲۲)
ان کے مطابق چلے میں مولوی عبد الحق نے اس بیان کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ اپنی کتاب ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب میں انہوں نے واقعے کانے اور مختلف پہلو سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں۔
جلسے میں تو مولوی صاحب نے اس قول پر ایک لفظ نہ کہا لیکن بعد میں ملک بھر میں انجمن ترقی اردو نے بڑا طوفان مچایا اور رسالوں نے بہت سخت الفاظ میں اپنا تاثر ظاہر کیا۔ سب سے زیادہ در شتی قاضی عبد الودود نے دکھائی جو اس زمانے میں مسلم لیگ کے بڑے فعال کارکن تھے۔ ان کے الفاظ بعد میں پیش کروں گا۔ معترضوں نے یہ نہ سوچا کہ کیا کوئی سیاسی لیڈر ایسا بیان دے سکتا ہے کہ جس سے ایک بڑی قوم اس سے دور بھاگ جائے۔ مبینہ بیان کا نگریس کے مستقل موقف کے خلاف ہے۔ (۱۳)
پروفیسر گیان چند کی مذکورہ کتاب اردود نیا میں کچھ زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر پائی۔ ان کی کتاب کو اردو دشمنی اور ہندی دوستی کا علم بردار کہا گیا۔ اردو داں طبقے نے نہ صرف اس کتاب میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب دیے بلکہ پروفیسر گیان چند کی جانب سے کی جانے والی متنازع بیانات و تسامحات کا مدلل و علمی انداز میں جواب دیا گیا۔ البتہ اس جلسے اور مولوی عبد الحق کے ضمن میں کیے گئے مندرجہ بالا نکات کا جواب تا حال اردو والوں نے نہیں دیا ہے۔
اس مختصر جائزے سے اولا یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کس قدر اس زبان کی ترقی اور اس کی ترقی و بقا کے لیے محنت کی۔ ثانیا اس زبان اور اس کے رسم الخط اور حروف کے لیے ان کی محبت بھی نہایت بھر پور ہے۔ جہاں اس زبان نے ہندوستان کی تقسیم میں پس پردہ محرک کے طور پر اپنا کردار ادا کیا وہاں ہندوستانی مسلمانوں کو متحد ہونے میں اور اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرنے میں مدد دی۔ اس زبان کا دفاع کرتے کرتے اس زبان کے ادبی و علمی کے ساتھ ساتھ اسانی سرمائے میں بھی اضافہ کیا۔ اسی طرح اردو رسم الخط کا دفاع کرتے کرتے انہوں اس میں موجود خامیوں کو دور کیا اور اسے مزید بہتر بنایا۔ اس کے فتنی ولسانی پہلوؤں پر توجہ کی اور اسے زمانے کے ہم آہنگ رکھا۔ رسم الخط کے ضمن میں تحقیقی و تنقیدی مطالعات کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔ پاکستان میں اردو کے لیے ایک رومن مخط اختیار کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔ جس کے بعد اس محط کے حمایتی ایک بار پھر سر گرم ہوئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رسم الخط کے حوالے سے علمی و لسانی تحقیقات بھی مسلسل اشاعت پذیر رہیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
حوالہ جات
ا۔ فتح محمد ملک، پروفیسر (مرتب)، ( پیش لفظ)، اردو زبان اور اردو رسم الخط ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۲۰۰۸ ۲۔ عزیز احمد، بحوالہ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم، ص ۲۸۲
انور سدید ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم، ص ۲۸۳
۔ سجاد ظہیر ، سید ، بحوالہ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم، ص ۲۸۳ انور سدید ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم، ص ۲۸۳
شاہدہ دلاور شاہ، ڈاکٹر، اردو زبان کا متنوع لسانی پس منظر اور چند مباحث (مضمون) مطبوعه : معیار، شماره ۹، جنوری
۰۰۲۰۱۳ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، ص ۵۲۹
ہے۔ انور سدید ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم ، ص ۲۰۴
حالی، مولانا الطاف حسین، حیات جاوید، نیشنل بک ہاؤس، لاہور ، ۱۹۸۲ء ص ۱۳۸
۹- قدرت نقوی، سید ، (مرتبه )، انسانی مقالات (حصہ دوم)، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد ، ۱۹۸۸ء، ص ۱۵۵ ۱۰ انور سدید، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، کراچی، اشاعت چهارم، ص ۳۰۹
ا حالی ، مولانا الطاف حسین، حیات جاوید ، نیشنل بک ہاؤس، لاہور ، ۱۹۸۶ء، ص ۳۳۶
۱۲۔ حالی، مولانا الطاف حسین ، حیات جاوید ، ایضاً، ص ۱۳۸
۱۳ – رام بابو سکسینہ ، ڈاکٹر ، تاریخ ادب اردو، علمی کتاب خانه ، لاہور ، ۱۹۸۲ء، ص ۲
۱۴۔ حالی، مولانا الطاف حسین ، حیات جاوید، نیشنل بک ہاؤس، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص ۱۹۱
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں