اردو غزل پر میر کے اثرات

کتاب کا نام
میر و غالب کا خصوصی مطالعہ ۱
مرتب کردہ ثمینہ کوثر
1.7 اردو غزل پر میر کے اثرات

قیام پاکستان کے بعد کی غزل پر میر کے اثرات

ناصر کاظمی کے ہاں میر کے ساتھ ساتھ فراق گورکھپوری کے اثرات بھی ملتے ہیں۔ قیام پاکستان کے آس پاس ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ پاکستان کے نئے غزل گو شعرا میں وہ نہ صرف نمایاں مقام رکھتے ہیں

بلکہ جدید شعرا میں رنگ میر میں شعر کہنے والے شعرا میں بھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے بڑی خوبصورتی سے میر اور فراق کے رنگوں کو اپنی تخلیقی شخصیت میں جذب کیا اور اپنے عہد کے مسائل و موضوعات کو شاعرانہ سطح پر بیان کرنے کی صلاحیت کا ثبوت بہم پہنچایا ۔

ان کی شاعری میں بر صغیر کی تقسیم کے زمانے کے فسادات کے واضح اثرات ملتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کے نامساعد خارجی حالات کو اپنی داخلی کیفیات میں سمو کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ہجرت کا دکھ، یاد ماضی ، گم شدگان کا تذکرہ، فسادات اور قتل و غارت گری ، ماحول کی ویرانی وغیرہ کے موضوعات بکثرت ملتے ہیں۔میر کے عہد کی صورت حال بھی کم وبیش ایسی ہی تھی۔

چنانچہ ناصر کی شاعری میں میر کے عہد کی رات ان کے عہد کی رات سے آملی ہے۔ میر کے تجربے اور ناصر کے تجربے میں اشتراک دکھائی دیتا ہے۔ ناصر کا طرز احساس زمانی و مکانی بعد کے باوجود میر کے طرز احساس سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ انتظار حسین نے کہیں لکھا ہے کہ کلیات میر، ناصر کے لیے ایک ایسی حویلی تھا جس کے ہر گوشے میں ایک دفینہ دیا ہوا تھا اور ناصر نے اس حویلی کا کونا کونا چھان مارا تھا۔

چنانچہ اپنی ذہنی ضرورتوں اور حالات کی یکسانیت کے باعث وہ رنگ میر کو قبول کرتے ہیں۔ وہ میرے کے سہل ممتنع کے رنگ کو بھی اختیار کرتے ہیں اور اپنی غزلوں میں میر کی طرح چھوٹی بحر میں کم سے کم اور سادہ سے سادہ الفاظ میں اپنی دلی کیفیات کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار دیکھیے :

شہر در شہر گھر جلائے گئے

ہوں بھی جشن طرب منائے گئے

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

دیتے ہیں سراغ فصل گل کا

شاخوں پہ جلے ہوئے بیرے

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے دو لوگ

ولی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا ہوگ

میر جیسے حالات میں زندگی گزارنے اور کلیات میر کو اپنا تکیہ بنانے کے باعث ناصر، میر سے گہرا شغف محسوس کرتے ہیں۔ رنگ میر نے ناصر کے کلام کو نئی دردمندی اور نبی محتکی عطا کی ہے۔ وہ میر کی طرح طویل بحروں میں بھی شعر کہتے ہیں :

کہاں اب وہ موسم رنگ و بو کہ رگوں میں بول اٹھے لیو

یونہی ناگوار چھین سی ہے کہ جو شامل رگ و پے نہیں

ناصر نے میر کی زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہیں مثلا :

یر کر میر اس چمن کی شتاب

ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے

ناصر کی غزل ہے :
کیسی آئی بہار اب کے برس

دن پھر آئے باغ میں گل کے

ہوئے گل ہے سراغ میں گل کے

ہوئے خوں ہے ایاغی میں گل کے

شہرت بخاری بھی رنگ میر میں شعر کہنے والے شعرا میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے اپنے ایک مقطع میں خود

کیا ہے:

گم ہو گیا حیرت کدہ میر میں شہرت

نکلا تھا کہ شاید کبھی مل جائے گھر اپنا

باقی صدیقی کے ہاں بھی میر کی سہل ممتنع اور کم سے کم الفاظ میں بلیغ بات کہنے کی روایت ملتی ہے :

کوئی دنیا سے شکایت تو نہیں

کون پوچھے ترے دیوانے سے

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

سلیم احمد کا شمار بھی ایسے شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے کئی ایک شعرا کے اثرات قبول کیے۔ ان کی غزلوں

میں میر ، سودا، آتش ، فراق، یگانہ اور حسرت موہانی کے ملے جلے اثرات بیک وقت ملتے ہیں:

پہلے سنتے تھے اب تجربہ ہو گیا اک خلل آ گیا ہے خور و خواب میں یاد آیا کہ یونہی نظر آئی تھی میر کو بھی تو اک شکل مہتاب میں اگر چه احمد مشتاق قطعی طور اپنا ایک منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ تاہم وہ فراق اور ناصر کاظمی کی شعری روایت کے قریب معلوم ہوتے ہیں۔

ان دونوں شعرا نے میرے خاصے گہرے اثرات قبول کیے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے :

محبت ہے جہاں میں منبع حسن و توانائی

اسی قوت کے بل پر زندگی اشیا میں رہتی ہے

یہ وہی تصور عشق ہے جس کی تعلیم میر کو ان کے والد نے دی تھی۔ وہ میر کی طرح طویل بحروں میں بھی شعر

کہتے ہیں ۔ وہ ہندی کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جو فراق اور میر کی یاد دلاتے ہیں :

ترے دیوانے ہر رنگ رہے ترے دھیان کی جوت جگائے ہوئے کبھی نھرے ستھرے کپڑوں میں کبھی انگ بھبوت رمائے ہوئے اسلم انصاری کے ہاں بھی میر ، فراق اور ناصر کاظمی کے ملے جلے رنگ ملتے ہیں۔ ان کا کلام میر کا ہلکا سا پر تو لیے ہوئے ہے۔ ان کے ہاں میر کا رنگ نئی وسعتوں کے ساتھ بکھر انظر آتا ہے :

شہر در شہر ہوئے عشق کے چرچے ہم سے کون یہ بوجھ اٹھاتا دل رسوا کے سوا

عبید اللہ علیم کے ہاں بھی میر کی روایت کے اثرات ملتے ہیں :

ہر ایک زمانہ، زمانہ ہے میر صاحب کا کہا جو ان نے تو ہم بھی غزل سنانے لگے ایک میں بھی ہوں گلہ داروں کے بیچ میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ جدید اردو غزل پر میر کے ہمہ گیر اثرات کے پس منظر میں کئی ایک عوامل کارفرما رہے ہیں۔

جدید دور میں شاعری اور عوام کے باہمی رشتوں کی مقبولی نے شعرا کو میر کی طرف مائل کیا۔ میر کا لہجہ ہمیشہ عوامی رہا ہے۔ یہ لہجہ جدید دور میں پھر زندہ ہوا۔ میر کی شاعری دو ڈھائی سو برس پرانی ہونے کے باوجود جدید دور کے جذبات و احساسات کا ساتھ دے رہی تھی ۔

اردو کی جدید شاعری کی رومانویت پرستی نے بھی رنگ میر کے اثرات قبول کیے۔ جدید شعرا کے ہاں غریب الوطنی کا احساس اور کسی حد تک فقیرانہ لہجہ میر کے اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

مزید برآں میر کی چھوٹی بحر اور طویل بحر دونوں کے اثرات بھی جدید شعرا نے قبول کیے۔ میر نے فارسی الفاظ کو اردو میں اس انداز سے برتا کہ بر صغیر کی روح ان الفاظ میں رچ بس گئی۔ یہی رجحان جدید شعرا کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ وہ مقامیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے وطن کی مٹی اور اس کی روایت سے رشتہ قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے بھی وہ میر کے قریب ہو جاتے ہیں قدیم شعرا سے لے کر جدید شعرا تک کسی نہ کسی حوالے سے میر کے اثرات بھی گہرے اور کبھی ہلکے پڑے ہیں ۔

اسی لیے ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے:

تقلید میر اردو شاعری کی ایک مستقل رسم معلوم ہوتی ہے۔ گویا یہ ایک شارع عام ہے۔ جس پر شعر و شاعری کا قافلہ مسلسل یا متواتر وقفوں کے بعد چل رہا ہے ۔ اگر چہ عین ممکن ہے کہ پرانے زمانے میں شاعری کی یہ روش اس طرح کسی شعوری یا احساساتی تحریک کے ماتحت نہ ہو، جس طرح آج کل اس کا رنگ شعوری اور احساساتی ہے۔ تاہم اس کے تسلسل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

قیام پاکستان کے ارد گرد جدید شعرا کی جو نسل سامنے آئی اس نے میر سے خاصے اثرات قبول کیے۔ میر کے کلام میں اپنے زمانے کے حیات و کائنات کے مسائل اور بعض ایسی سچائیاں ہیں، جن کی حیثیت مستقل اور پائیدار ہے۔ ان کے کلام میں موجودہ دور کے مخصوص جذباتی ، چینی اور ذوقی رویوں کی کامیاب عکاسی ملتی ہے۔ اس لیے میر کی آواز موجودہ دور کے لیے غیر معمولی حد تک پسندیدہ رہی ہے۔

میر نے عام احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ یہی بات جدید شعرا کے لیے میر کی تقلید کا باعث بنی۔ جدید شعرا نے میر کے کلام کا ڈوب کر مطالعہ کیا اور مختلف قسم کے اثرات قبول کیے۔ نئے دور کی غزل میں خود فراموشی، تنہائی ، اداسی اور نشاط زیست کی تلاش ملتی ہے۔

جدید شعرا نے میر کی انفرادیت محلی لب ولہجہ، تنہائی اور دردمندی کے اثرات قبول کیے۔ میر کے کلام میں اپنی ذات کی شکست کی آواز ، تنہائی ، اجنبیت، بے چارگی اور کم مائیگی کا بھر پور المیاتی احساس اور اپنے دل کی بر بادی ، ویرانی اور وحشت زدگی کا اظہار ملتا ہے۔

جدید شعرا کے ہاں بھی وحشت ، تنہائی ، اجنبیت ، رائیگانی اور شکست کا احساس مرکزی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ مسائل کے اشتراک کی وجہ سے جدید شعرا نے میر سے کسب فیض کیا اور اپنی آواز کو میر کی آواز سے ملانے کی کوشش کی۔

یہ الگ بات کہ وہ کس حد تک کامیاب یا نا کام رہے۔ تاہم وہ جدید دور میں میر کو نئے سرے سے دریافت کرنے میں ضرور کامیاب رہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں