موضوع۔اردو گیت نگاری کا تنقیدی جائزہ۔
کتاب کا نام۔بنیادی اردو۔
کورس کوڈ۔9001
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam.
اردو گیت نگاری کا تنقیدی جائزہ
انسان کی زندگی کو ہمیشگی نہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے اس جہان میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ کسی کو بھی دوام نہیں۔ کوئی آج زندہ ہے، تو کل نہیں ہوگا ۔ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔
انسان اپنی مختصر سی زندگی میں خوبصورت لمحے تخلیق کرنا چاہتا ہے جو لازوال ہوں جنھیں ایک نسل اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کر سکے۔ تخلیقیت انسان کا ایسا وصف ہے جو نہیں مرتا۔
یہ بھی پڑھیں: مثمن، مثمط اور گیت کی تعریف | pdf
جسے پیشگی بھی ہے اور پائیداری بھی۔ اس گیت میں شاعر کے پیش نظر گیت اس کی تخلیقی شناخت ہے، جو ہمیشہ زندہ رکھنے اور ابدیت عطا کرنے کا استعارہ ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ اُس کے گیتوں نغموں اور غزلوں کو زمانہ بھی بھلا نہ سکے۔
بین السطور وہ کہنا چاہ رہا ہے کہ زمانے کو چاہیے کہ وہ میرے لازوال فن یادرکھے ۔ شاعر کو بھی یقین ہے کہ اس کے رس بھرے گیتوں میں وہ مٹھاس ہے کہ اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاعر کے یہ گیت زندگی کی کل تخلیقیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حفیظ جالندھری کی گیت نگاری
شاعر آنکھوں کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سایوں کی طرح بے نور اور گلستانوں کی طرح مسرور آنکھیں میرے گیتوں کی طرح ہیں۔ اسی طرح وہ آنکھیں جن میں موت نظر آرہی ہو یا وہ آنکھیں جن میں طاقت اور اختیار کی جھلک نظر آئے ،
سب میرے گیتوں سے مشابہ ہیں ۔ شاعر دوسرے بند میں فطرت کے حسین نظاروں کا ذکر کرتا ہے۔ پھلواری ، کونٹیاں، کشتی اور لہر، یہ سب فطرت کے اشارے میرے گیت ہیں، یعنی میرے گیتوں کا موضوع بھی فطرت اور قدرت کی وسعت آمیز جمالیات ہے
تیسرے بند میں شاعر عشق اور دولت کا ذکر کرتا ہے۔ وہ بتانا چاہتا ہے کہ دولت اور عشق دونوں میرے گیتوں میں نظر آتے ہیں۔
آخری بند میں شاعر بتاتا ہے کہ میرے گیتوں میں پیار بھی ہے اور ہتھیار بھی ۔ ان میں مسکراتے ہوئے لوگ بھی شامل ہیں اور آنسوؤں کے چھلکنے کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ یوں میرے گیتوں میں کسی ایک کیفیت کا غلبہ نہیں، بلکہ ہر انسانی رویہ نظر آتا ہے۔
شاعر خواہش کرتا ہے کہ اس کے گیتوں کو یاد رکھا جائے۔ ان میں زندگی کے مختلف رویوں کی جیتی جاگتی تصویر نظرآتی ہیں۔ زندگی کا خوبصورت چہرہ اس کے گیت ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں