اردو ڈرامہ نگاری بنیاد مباحث

*ڈرامہ نگاری بنیاد مباحث*انسان میں تماشہ دیکھنے کا شوق فطری ہے اور ازل سے وہ اپنی معاشرتی زندگی میں اسے مواقع فراہم کرتا رہا ہے جس سے وہ اس ذوق کی تسکین کر سکے ، ڈرامائی ادب اور تھیٹر کے باقاعدہ آغاز کا زمانہ قریبا پانچ سو سال قبل مسیح قرار دیا جاتا ہے اور اس دور میں یونان میں ڈرامے نے بہت ترقی کی اور بڑے بڑے ڈرامہ نگار پیدا ہوئے اس کے بعد اہل یورپ نے بطور خاص ڈرامے کو اپنایا اور اس پر خصوصی توجہ دی۔ مغرب کے مقابلے میں اردو میں ڈرامہ کم لکھا گیا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ اردو ادب پر ابتداء میں تصوف کا اثر تھا اور ہمارے صوفیا اپنی مذہبی احتیاط پسندی کی بنا پر ڈرامے کی طرف توجہ نہ کی ۔ اس کے علاوہ ہمارے ادب پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان وادب کا تھا اور چونکہ فارسی میں ڈرامہ نگاری کی روایت موجود نہ تھی اس لئے اردو میں بھی ڈرامہ نہیں لکھا گیا۔ پھر یہ کہ درباروں کی سر پرستی بھی بالعموم شعراء ہی کے لئے مخصوص تھی اس لئے بھی ڈرامے کی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکی۔اردو کا پہلا باقاعدہ ڈرامہ واجد علی شاہ نے ۲٬۵۸ ۱ میں لکھا اس کا نام رادھا کنھیا ہے ۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے اپنا ڈرامہ اندر سبھا ” لکھا ۔ یہ اردو ڈرامے کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور امید تھی ، کہ واجد علی شاہ کی سرپرستی میں ڈرامہ ابھی اور ترقی کرے گا کہ سلطنت اور اپنے سیاسی زوال کا شکار ہوگئی اور اب علی شاہ کو قید کر کے کلکتہ بھیج دیا گیا۔اردو ڈرامے کا دوسرا دور ممبئی سے شروع ہوتا ہے۔ اسی دور کے ڈرامہ نگاروں میں احسن لکھنوی ، بیتاب بنارسی اور طالب بنارسی قابل ذکر ہیں مگر اس دور میں سب سے زیادہ شہرت آغا حشر کاشمیری کو حاصل ہے اس دور کے ڈرامے ایک تاریخی حیثیت کے تو ضرور حامل ہیں لیکن ادبی اور فنی اعتبار سے زیادہ بلند درجہ نہیں رکھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جن لوگو نے سر پرستی کی انہیں ڈرامے کی ادبی حیثیت سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے ڈرامے کو تجارتی بنیادوں پر اپنایا تھا۔ ڈرامے کا یہ دور ۱۹۳۵ء تک قائم رہا ۔ اس کے بعد ڈرامے کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس دور کے فائندہ ڈرامہ نگاروں میں حکیم احمد شجاع ، سید امتیاز علی تاج آغا شاعر دہلوی وغیرہ قابل ذکرہیں۔ یہ وہ ڈرامہ نگار ہیں جنہوں نے قدیم تھیٹر روایات سے بھی فائدہ اٹھایا اور جدید انگریزی اور یورپی ڈرامے سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں قدیم وجدید ڈرامے کی روایات کا اجتماع نظر آتا ہے۔ اس زمانے کے ڈرامے میں عشق و محبت کے علاوہ معاشرتی و سماجی موضوعات پر بھی ڈرامے لکھے گئے۔ اور زبان و بیان کے اعتبارسے بھی یہ ڈرامے غاصے کامیاب نظر آتے ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں آرٹ کونسلوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ڈرامے کے فروع میں نمایاں کردار انجام دیا۔ اس حوالے سے جو ڈرامہ نگار سامنے آئے ہیں ان میں مرزا ادیب، اپندر ناتھ اشک، خواجہ معین الدین اور اشفاق احمد کے نام ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں