اردو اردو داستان کا تعارف | Urdu Dastan Ka Taroof
موضوعات کی فہرست
داستان کی تعریف
داستان تاریخ کی قدیم ترین صنف ہے۔ ابتدا میں ان کو قلمبند کرنے کا رواج نہیں تھا۔ داستانیں زبانی کہی اور سنی جاتی تھیں۔ داستان قصے کا ابتدائی روپ ہے۔ ہمارے ادب میں داستانوں کی ابد تا اٹھار ہویں صدی کے آغاز سے ہوئی۔ کہانی سنے اور قصہ بیان کرنے کا عمل انسانی معاشرے کا قدیم ترین مسئلہ خیال کرنا چاہیے۔ داستان کا بنیادی تعلق بیان اور تخیل کے ساتھ ہے۔ ذہن انسانی حیرت انگیز ممکنات کا سراغ لگاتا اور اسے قصے، کہانی کے کرداروں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ داستان کی ایک نمایاں خوبی اس کا کبھی مکمل نہ ہونا ہے۔ اس کے ہر قصے سے ایک نئی کہانی کا دروازہ کھلتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: داستانیں اور تصور خیر و شر، سعید احمد | PDF
داستان "باغ و بہار” کا تعارف
اُردو داستانوں میں باغ و بہار ایک ایسی داستان ہے جس کی شہرت ابھی تک کم نہیں ہوئی، اس کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ اس میں دہلی کی معاشرت کو بڑے احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے محقیقین نے اس پر قلم اٹھایا ہے۔ "رشید حسن خاں” جیسے مدون نے اس کی تدوین کی ہے اور "مولوی عبد الحق” بھی اس میں شامل ہے۔
🔹فورٹ ولیم کالج کی داستانوں میں سب سے زیادہ شہرت باغ و بہار کے حصے میں آئی ہے۔ میر امن نے اسے گل کرسٹ کے کہنے پر 1801 میں لکھنا شروع کیا۔ یہ داستان 1802 میں مکمل ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: داستان کی روایت | PDF
پہلی دفعہ طبع 1804 میں ہوئی۔ باغ و بہار کے ماخذ پر بڑی تحقیق ہوئی ہے۔ خود میر امن نے اس کا ماخذ عطا حسین خان تحسین کی نوطرز مرصع بتایا ہے جو کہ فارسی قصہ چہار درویش سے ترجمہ کی گئی ہے۔
داستانوں میں جو مقبول عام ” باغ و بہار ” کو حاصل ہوا وہ کسی اور داستان کو حاصل نہیں ہوا۔ عوام و خواص میں یہ داستان آج بھی اتنی مقبول ہے جتنی آج دو سو انیس برس پہلے تھی۔
اس داستان کا تمام ماحول ” دلی” کا ہے میر امن بے شک غیر ممالک کا ذکر کریں تصویر کشی اس انداز میں ہوئی ہے جسے "دلی” کے کسی محلے کا بیان ہو رہا ہے۔ اس داستان میں ہمیں جگہ جگہ دلی کی معاشرتی زندگی کی جھلک ملتی ہے۔
داستان” باغ و بہار "کا خلاصہ
🔹روم کے ملک میں ایک بادشاہ تھا۔ جس کا نام آزاد بخت تھا۔ چالیس سال عمر ہونے کے باوجود اس کی اولاد نرینہ نہ تھی۔ محرومی حد سے بڑھی تو اس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور یاد الٰہی میں مشغول ہو گیا اور پھر اپنے وزیر خرد مند کے کہنے پر دوبارہ تخت نشین ہو گیا۔ ایک دن آزاد بخت نے کتاب میں پڑھا کہ اگر کوئی کام تدبیر سے حل نہ ہو تو اسے تقدیر پر چھوڑ کر کسی قبرستان میں درود شریف پڑھنا چاہیے۔
ایک رات باد شاہ قبرستان میں عبادت میں مشغول تھا کہ اسے روشنی دکھائی دی وہ قریب پہنچا تو اسے چار بے نوا فقیر کفتیاں گلے میں ڈالے غم زدہ دکھائی دیے۔ اب ہر ایک نے رات گزارنے کے لیے اپنی اپنی سرگزشت سنانی شروع کی۔
🔹 پہلے درویش نے اپنی سرگزشت اس طرح شروع کی۔ میں ملک یمن کے ملک التجار کا بیٹا ہوں۔ چودہ برس کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اپنی نادانیوں کی وجہ سے دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اپنی بہن کے پاس پہنچتا ہے۔ بہن اسے کچھ اشرفیاں دے کر سوداگر کے قافلے کے ساتھ دمشق بھیجتی ہے۔ شہر کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔
جب آدھی رات ہوتی ہے دیوار سے ایک صندوق نیچے آتا ہے ۔ جب وہ صندوق کو کھول کر دیکھتا ہے۔ تو اس میں ایک خوبصورت لڑکی ہوتی ہے جو دمشق کی شہزادی ہے۔ شہزادی زخمی ہوتی ہے وہ اس کا علاج کرتا ہے، راستے میں شہزادی غائب ہو جاتی ہے ، اس نے مرنا چاہا تو ایک سبز پوش نے اسے تسلی دی اور کہا کہ آزاد بخت کے ملک چلے جاؤ تمہیں تین فقیر اور ملیں گے۔ بادشاہ آزاد بخت بھی مشکل میں گھرا ہے۔ وہ ملے گا تو اس کی وساطت
سے تم سب کی مرادیں پوری کرے گا۔
🔹دوسرے درویش نے اپنی سرگزشت کا آغاز اس طرح کیا، وہ کہنے لگا کہ فارس کا شہز ادہ ہے۔ حاتم طائی کا قصہ سن کر وہ اسی کی طرح بننا چاہتا ہے ۔ جب وہ ایک فقیر کی زبانی بصرہ کی شہزادی کا ذکر سنتا ہے تو اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ شہزادی نے یہ شرائط پیش کی کہ ملک نیم روز میں ایک نوجوان چاند رات میں ایک بیل پر سوار، نگلی تلوار ہاتھ میں لیے نکلتا ہے اور ایک غلام کو لوگوں کے مجمعے میں قتل کر کے غائب ہو جاتا ہے۔
اگر اس کی خبر لاؤ تو تم سے شادی کروں گی۔ چنانچہ وہ جان کو خطرے میں ڈال کر کہ دو بیل سوار جنوں کے بادشاہ کی بیٹی کا عاشق اور بیل (جن) طالب اور مطلوب کے درمیان جدائی کا باعث تھا۔ اس درویش نے نوجوان سے اس کی مدد کا وعدہ کیا مگر ناکام رہا۔ مرنا چاہا تو ایک برقع پوش سوار نے روک لیا۔
🔹 در ویشوں کا قصہ سننے کے بعد بادشاہ محل میں آگیا اور ان چاروں کو بلوایا۔ بادشاہ نے اپنی سرگزشت بیان کی۔
🔹اب تیسرے درویش کی باری آئی وہ کہنے لگا ملک حجم کا شہزادہ ہے۔ اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہے۔ عاشق زار ہے اور عشق کا زخم خور دہ ہے۔ فرنگ کی ملکہ مہر نگار کا عاشق ہے۔ وہ ملکہ مہر نگار اور اپنے محسن بہزار خان کے ساتھ واپس آرہا تھا کہ وہ دونوں دریا کی نذر ہو گئے۔ اس نے ڈوبنا چاہا تو اسے مرقعہ پوش سوار نے روک لیا۔
🔹چوتھا درویش چین کا شہزادہ ہے۔ ناز سے پرورش پائی اور اچھی تربیت ہوئی۔ ایک رئیس کی لڑکی پر عاشق ہے۔ جنوں کا بادشاہ بھی اس لڑکی پر عاشق ہے۔ ایک دن اس نے لڑکی چاہت میں جنوں کے بادشاہ کے پیٹ میں چھر اگھونپ دیا تو اس نے لات مار کر اسے جنگل میں پھینک دیا۔ دہ برقع پوش کی ہدایت پر یہاں پہنچا ہے۔ چوتھے درویش کا قصہ جو نہی ختم ہوا محلی نے دوڑکر بادشاہ کو بیٹا پیدا ہونے کی خبر دی۔
🔹جنوں کے بادشاہ شہبال نے ان تمام کی مرادیں پوری کر دیں۔
داستان” باغ وبہار "کی اہمیت
اس داستان باغ و بہار کی اہمیت اس داستان کے کرداروں ، زبان و بیان، اسلوب، معاشرتی پہلو، محاورات ، ضرب الامثال ، پلاٹ اور مکالموں سے ہے۔
پروف ریڈر ۔ابرار حسین
حواشی
▫️کتاب کا نام 🌹🌹اردو داستان اور ناول: فکری و فنی مباحث
▫️کورس کوڈ 🌹🌹9011
▫️موضوع 🌹🌹(1) داستان کی تعریف
( 2)داستان”باغ و بہار” کا تعارف
(3) داستان”باغ و بہار” کا خلاصہ
(4) داستان” باغ وبہار” کی اہمیت
▫️صفحہ 🌹🌹30تا32