ماحولیاتی تنقید اور اُردو افسانہ
اُردو افسانہ ہر دور میں نت نئے موضوعات اور تجربات کی بنیاد پر مقبول عام اُردو صنف میں شامل رہا ہے۔
اُردو افسانہ اپنی کہانی اور کرداروں کی تلاش میں اپنے ماحول سے رجوع کرتا ہے اور پھر لکھاری کے اندرون سے باہر کے رابطے کو مضبوط کر کے ثقافتی، معاشرتی اور تہذیبی رنگ کو جماتے ہوئے کئی ایک شاہکار کہانیاں تخلیق کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔
اُردو افسانے کو جہاں آزادی کی تحریک سے لے کر تخلیق پاکستان تک کئی ایک اچھوتی کہانیاں تخلیق کرنے کو ملی ہیں۔
یہ آزادی کے ہنگامے کے دوران فسادات کے حوالے سے جنم لینے والی کہانیاں آج بھی قاری کے ذہن میں تازہ ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ہجرت کے دوران خاندانوں کی تقسیم اور اپنے آبائی علاقے کو خیر آباد کہنے کا ذکھ اور نئی سر زمین پر اجنبی بن کر رہنا، نئے ماحول، نئی ثقافت اور نئے رسم و رواج میں کئی ایک دُکھ بھری کہانیوں نے جنم لیا اور افسانہ لکھنے والوں نے ان کہانیوں کو خوبصورت پیرائے میں پیش کر کے اس تاریخی حقیقت کو ادبی صفحات پر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
پھر سانحہ مشرقی پاکستان نے کہانی لکھنے والوں کو ایک نیا موضوع دے دیا اور بہت سارے لکھاری اس طرف متوجہ ہوئے اور
سقوط ڈھاکہ پر بہترین افسانے تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس کے بعد قوم کو دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے اثرات سے ملک و قوم کا کوئی فرد بھی محفوظ نہ تھا۔
خاص طور پر قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران پھر ادیبوں نے قلم اٹھایا اور ایک ایسے جہاد پر نکل پڑے جس میں ان کا ہتھیار اپنے خیالات، مثبت سوچ اور یہ عزم تھا کہ آخر جیت ہماری ہو گی۔
اس سارے عرصے میں شک خوف اور بے چینی کے بادل منڈلاتے رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بہترین ادب بھی ان حالات و واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے تخلیق ہوتا رہا۔
ان بڑے واقعات ، سانحات اور موضوعات کے ساتھ ساتھ ذیلی موضوعات داخلی اور خارجی واردات بھی کہانی کا موضوع بن کر تخلیق کے مراحل طے کرتے رہے۔
یوں افسانے اور افسانہ نگاروں نے اپنی کہانی کی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ بدلتے حالات اور واقعات کے مطابق کہانی کو نئے روپ میں ڈال کر حالات حاضرہ سے نہ صرف جوڑ دیا
بلکہ بطور کہانی نویس کے اپنا ادبی، اخلاقی اور معاشرتی حق بھی ادا کر ڈالا۔
اردو افسانے میں ہم اگر ماحولیاتی تنقید کے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں کئی ایک کہانیاں ایسی ملتی ہیں
جن میں ہمیں حیاتیاتی معاشرہ، حیا زیت، بن نگاری، مظاہر پسندی اور دیگر ماحولیاتی تنقید کے فلسفے پر کہانی کی بنت ملتی ہے۔
اس حوالے سے منشا یاد کا ایک اہم افسانہ "پول سے لپٹی ہوئی بیل“ ہے جس کا مرکزی کردار ” میں “ (راوی) شہر کی تیزی، طرازی، مصروفیت، اور اجنبیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے اعصاب اور من کے اندر کی کشمکش اسے ایک اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
اسے اپنے دیہات کے لوگ، گلی، محلے، فصلیں، کھیت، در بخت ، پودے یاد آنے لگتے ہیں۔
اس افسانے میں ہمیں افسانہ نگار منشا یاد "حیاتیاتی معاشرہ” کے پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
افسانے کا کردار ” میں “ اپنے ماحول، ارد گرد، حتی که در ودیوار آب و ہوا، درخت، پودوں اور فصلوں کی یاد میں گم ہو جانا چاہتا ہے
پھر ڈاکٹر اس کی کیفیت دیکھتے ہوئے اسے یہ مشورہ دیتا ہے:۔۔۔۔۔
ماخذ اور حوالہ جات
مقالے کا عنوان: ادب اور ماحولیات: پاکستانی اُردو نظم کا ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ (منتخب شعراء کی نظموں کے حوالے سے)
محقق: محمد بشارت
نگران: ڈاکٹر نعیم مظہر
یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
سالِ تکمیل: 2023
اقتباس کے صفحہ نمبر: 38۔39