مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا ارتقاء

عمل کی قوت پر زور اور مشکلات پر قابو پانے کا جذبہ اس تحریک کا مدعا ٹھہرا۔ اس تحریک کو بڑے بڑے ادبیوں نے سراہا اور اس کا ساتھ دینے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ۔ ان میں ڈاکٹر عبدالحق ، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، پریم چند، قاضی عبدالغفار ، مجنوں گورکھ پوری ،ڈاکٹر عابد حسین ، نیاز فتح پوری ، ساغر صدیقی وغیرہ شامل ہیں ۔

نوجوان لکھنے والوں نے بھی اس تحریک کے منشور کو اہمیت دی ان میں عابد حسین منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، اپندر ناتھ اشک ، جاں نثار اختر ، مجاز ، خواجہ احمد حسن ، اختر حسین رائے پوری ، راجندر سنگھ بیدی، احتشام حسین ، فیض احمد فیض ، اختر انصاری، رشید جہاں، احمد علی ، تاثیر وغیرہ شامل ہیں۔

رشید جہاں، احمد علی اور محمود الظفر نے انگارے کے نام سے افسانوں پر مشتمل ایک کتاب چھاپی ۔

یہ افسانے پہلے سے موجود ادبی سانچوں اور قدروں کے خلاف کھلی بغاوت تھی جس میں جنس کو موضوع بنایا گیا اس طرح دقیانوسی اور رجعت پسندی کے خلاف نہ صرف نئے ادبی رحجان کا آغاز ہوا ۔ بلکہ معاشرتی قدروں پر بھی ایک حملہ کیا گیا ۔ معاشرے نے ان کے اس قدم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے خلاف پابندی کا فیصلہ ہوا۔

اس تحریک کے مقاصد سے تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہوتا مگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا وہ معاشرتی قدروں کو ہلانے والا تھا، ادب سے سماجی اور معاشرتی بھلائی اور بہتری کا کام لیا جانا یا ادب کو معاشرے کا عکاس ہونا اور اس سے معاشی مسائل کے حل کی بات کرنا اس سے تو شاید کسی کو اتنا اختلاف نہ ہوتا جتنا انگارے کے مواد سے ہوا۔

سماجی رجعت پرستی اور دقیانوسیت پر انگارے کا اثر

سجاد ظہیر کا اپنا بیان ہے کہ انگارے کی بیشتر کہانیوں میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ کم اور سماجی رجعت پرستی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زیادہ تھا۔ انگارے کے مصنفین چونکہ دلیل کا کام جذبات سے لینا چاہتے تھے اس لیے مشرق کے ثقہ مزاج نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ (۷)

ترقی پسند تحریک اور ادب کا مقصد

ترقی پسند تحریک والے ادب کو زندگی کا ترجمان سمجھتے تھے۔ وہ ادب اور زندگی کے باہمی ربط کو ناگزیر خیال کرتے تھے ۔ ادب معاشی زندگی کا ایک شعبہ ہے ۔ ان کے خیال میں ادیب جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے پرورش پاتا ہے وہی ماحول اس کے فن میں اجاگر ہوتا ہے اور ماحول اور فضا کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھنا مناسب نہیں اور نہ ہی ادب مسرت بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ان کے خیال میں ادب اور ادیب کا فریضہ سماجی ہے.

اور ادب کسی ایک شخص یعنی ادیب کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی اور معاشرتی آواز کے طور پر ابھرنا چاہیے۔

ترقی پسند تحریک اور مذہب

ترقی پسند تحریک نے ادب کو جہاں ایک نعرہ بنا دیا وہاں اس تحریک نے مذہب دشمنی میں بھی کسر اٹھا نہیں رکھی اس تحریک نے اشتراکیت کی تبلیغ کی اور مذہب کو بالکل نظر انداز کیا ترقی پسند تحریک کے ارکان ہمیشہ اس الزام کو رد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ترقی پسند ہونے کے لیے ملحد یا لا مذہب ہونا ضروری نہیں مگر یہ سب کچھ مصلحتا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہے ہیں وہاں مذہب کے خلاف بات کرنا آسان نہیں کیونکہ یہاں مذہب کے نام پر ایک الگ ملک کا نعرہ لگ چکا تھا اور بعد میں قائم بھی ہوا۔

مذہب کے نام پر ہی ایک بہت بڑی ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں مذہب کے عمل دخل کی وجہ سے ہی نظریات وجود میں آتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ترقی پسند اپنے منشور پر کام کرنے نظر آتے ہیں۔

اقبال اور ترقی پسند تحریک کے رجعت پرست نظریات

ایسے تمام شعراء و ادبا کو رجعت پرست قرار دیا گیا جو مذہب کے نام لیوا تھے اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اقبال کی شاعری میں انسان دوستی اور حب الوطنی بھی ہے اور سامراج دشمنی اور آزادی کی تڑپ بھی ۔ اقبال بھی بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی کو موضوع بناتے اور مذہب کی آڑ میں غریبوں کا استحصال کرنے والے کچھ ملاؤں کے فریب کا پردہ چاک کرتے ہیں۔

ان کے ہاں فن و مواد اس طرح شیر و شکر ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہے ۔ اقبال ادب کو زندگی کا آئینہ دار ہی نہیں زندگی کا رہنما بھی تصور کرتے ہیں۔ وہ بھی انسان اور مزدور کو جا گیر دار و سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد دیکھنے کے خواہاں ہیں مگر چونکہ وہ اسلامی انقلاب کے داعی ہیں کہ اسلام کی اصل روح بھی انقلابی ہے۔ اس لیے ترقی پسندوں کو قابل قبول نہیں ۔ (۸)

ترقی پسند تحریک اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک ادبی تحریک کم اور سماجی ، سیاسی تحریک زیادہ نظر آتی ہے۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں