غزل تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا کی تشریح | Tujhi ko jo yahan jalwa farma na dekha
غزل کی تشریح۔۔۔۔۔
شاعر کا نام ۔۔۔۔خواجہ میر درد
تیار کردہ ۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو شاعری۔۔ کورس کوڈ5607
پیج نمبر۔۔۔
خوجہ میر درد کی غزل تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا کی تشریح
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
مرا غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسی نے کبھو وانہ دیکھا
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ادھر تو لیکن نہ دیکھا ` دیکھا
حجاب رُخ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی انکھ جب کوئ پردا نہ دیکھا
شعر نمبر 1
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
جلوہ فرما= ظاہر ہونا۔ نمودار ہونا۔
درد اس شعر میں ذات بار الہی سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس دنیا میں آنے کے بعد کا ئنات کے تمام جلوے دیکھے اور جملہ محاسن کا معائنہ کیا۔ مگر یہ سارا مشاہدہ بیچ۔ اگر میں نے ہاں تیری ذات والا صفات کا نظارہ نہ کیا۔ ایسی صورت میں دنیا کا دیکھنا نہ دیکھنا دونوں میرے لئے برابر ہے۔ معرفت کا یہ شعر ظاہری سادگی اور معنوی گہرائی کی بدولت اہل صوفیا کے یہاں خاصی قدر و اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر و درد حیات و انتقادیات تالیف حیدر حسنین | pdf
شعر نمبر 2
مره غنچه دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسی نے کبھو وا نہ دیکھا
دل گرفته = رنجیده غمگین، مغموم
وا =کھلا ہوا
کبھو ۔ کبھی
اس شعر میں شاعر اپنے دل کو ایک ایسی کلی سے تشبیہہ دے رہا ہے جو وفور رنج و ملال سے اندر ہی اندر گھٹتی رہی ہے اور اس کی قسمت میں کبھی کھلنا اور پھول بن کر لہلہانا نصیب نہیں ہوا۔ انسانی زندگی کی حرماں نصیبی اور دل گرفتگی کی جانب بلیغ اشارہ کیا گیا ہے۔ اس دنیا میں انسان کیا کیا خواہشیں اور تمنائیں نہیں رکھتا؟لیکن اسے ناکامی کا ہی سامنا کر نا پڑتا ہے۔
شعر نمبر 3
ازیت مصیبت
ملامت `بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
اذیت = تکلیف دکھ مصیبت
ملامت = سرزنش لعن طعن بر ابھلا
شعار اس شعر میں محبوب سے مخاطب ہو کر اپنی حالت و کیفیات کا بر ملا اظہار کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کچھ تجھ پر نچھاور لعن طعن کہ میں نے تجھ سے بے ریا محبت کی سچا عشق کیا اور بھی پر ر کبھی پر جان دیتارہا۔ اپنا سکون ، چین ، سب کچھ ؟ کر دیا۔ مگر میری ساری قربانیوں کا یہی صلہ ملا کہ اذیت پر از پر اذیت دی جاتی ہے مصیبت کا سامنا ہے۔ کیا جاتا ہے اور نت نئی بلائیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ بادی النظر میں درد عشق و محبت کے انجام کو نہایت فلسفیانہ انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ باور کرارہے ہیں کہ دنیا کی یہی ریت ہے ، محبت کا یہی انجام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ میر درد تنقیدی و تحقیقی مطالعہ | pdf
شعر نمبر 4
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ادھر تو نے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا
تغافل = بے تو جہی کے التفاتی جان بوجھ کر غفلت کرنا
شاعر کہتا ہے کہ تیرے طرز تغافل اور بے رخی کی وجہ سے میری جان ضنبیق میں آئی ہوئی ہے۔ زندگی دو بھر ہے۔ سکون و اطمینان نا پید ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ تو نے لمحہ بھیر کو بھی اگر میری حالت زار کا مشاہدہ نہ کیا۔ تیری ہی بدولت میرا حال دگر گوں ہوا ہے، لیکن تو ہی بے التفاتی برت رہا ہے۔ تجھے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ تیرے عشق میں مبتلا تیری محبت کا دم بھر نے والا کس کرب والم سے دو چار ہے۔
شعر نمبر 5
حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم
آنکھ جب کوئی پروا نہ دیکھا
حجاب ۔۔۔ پردہ
معرفت کا یہ شعر نہایت فلسفیانہ مضمون کو پیش کر رہا ہے ۔ جب تک انسان کی آنکھ پر غفلت شعاری اور ہوس دنیا کا پردہ حائل ہوتا ہے وہ تجلیات الہی کا مشاہدہ نہیں کر ۔ وہ تجلیات الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ بقول در د انسان جلوہ محبوب و کے سامنے خود ہی حجاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن جب غفلت کا پردہ ہٹ جاتا ہے، جب آنکھ حقیقی معنوں میں وا ہو جاتی ہے تو پھر محبوب و محب کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں رہتا۔ اہل صوفیا کے نظریے کو تو نہایت سادگی اور پر اثر انداز میں پیش کر دیا گیا ہے۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں