اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کردار

اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کر

The topic "اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کردار” (The Role of Sufis, Muslim Scholars, and Rulers in the Development of the Urdu Language) was thoughtfully discussed in the WhatsApp group. Participants including

محترم سید نور شہاب، محترم سید اعجاز حسین، اور محترمہ حنایہ

shared their insights on how Sufi saints, scholars, and rulers contributed to the growth and evolution of the Urdu language. This post summarizes their perspectives on the historical and cultural significance of these figures in promoting Urdu.

اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔

  1. صوفیوں کا کردار:
    صوفیوں نے اردو کو عام لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے اپنایا۔ انہوں نے اس میں اپنی تعلیمات، شاعری اور روحانی پیغام پہنچایا تاکہ لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔
  2. مسلم علماء کا کردار:
    علماء نے اردو میں مذہبی کتابوں کا ترجمہ کیا تاکہ لوگ دین کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ اس سے اردو زبان عام ہوئی اور تعلیم کے لیے اہم بن گئی۔
  3. سلاطین اور حکمرانوں کا حصہ:
    مغل حکمرانوں اور جنوبی ہندوستان کے بادشاہوں نے اردو زبان کو فروغ دیا۔ دربار میں فارسی زبان استعمال ہوتی تھی، مگر عوام سے بات چیت کے لیے اردو زیادہ استعمال ہونے لگی۔ حکمرانوں نے اردو شاعری اور ادب کی حمایت کی۔
  4. فارسی اور مقامی بولیوں کا ملاپ:
    اردو زبان فارسی، عربی اور ہندی بولیوں کے ملاپ سے بنی۔ مسلمان حکمرانوں کے آنے کے بعد مختلف زبانوں کا آپس میں میل ملاپ ہوا، جس سے اردو وجود میں آئی۔
  5. مغل دور کا اثر:
    مغل دور میں اردو کو خاص طور پر فروغ ملا۔ یہ زبان عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن گئی اور اسے شاعری اور نثر کے ذریعے مقبولیت ملی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کی نشوونما میں مسلم صوفیائے کرام کا حصہ

ان تمام عوامل نے مل کر اردو کو ایک مضبوط اور عوامی زبان بنایا ہے۔
لوگوں کو دینِ اسلام کی صحیح تعلیم دینے کی زمہ داری علماء کرام کی تھی اور انگریزوں نے برصیغر پر قبضہ کیا اس سب کے باوجود انہوں نے اپنے اس فرض کو جاری رکھا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے اور ان کی زبان ” فارسی ” تھی بعد میں انگریزوں نےاسے ختم کردیا اور "اردو” کو سرکاری زبان کا درجہ دیا مگر "فارسی ” کا بڑاگہرا اثرا” اردو” پر رہا ۔
اردو زبان کی ارتقاء میں مسلم صوفیاکرام نے اپنا برا اہم حصہ پیش جن میں شامل ہیں
1۔شیخ فریدالدین گنج شکر
2۔شیخ شرفالدین بوعلی قلندر
3۔امیر خسرو
4۔شیخ شرف الدین یحیحیٰ منیری
5۔شاہ برہان الدین غریب
6۔ بندہ نوازگیسودراز
7۔شیخ بہاءالدین باجن
8۔شمس العشاق شاہ میراں جی
9۔شاہ برہان الدین جانم
10۔قاضی دریائی بیرپوری
11۔میاں خوب محمد چشتی
وغیرہ شامل ہیں

1۔ شیخ فریدالدین گنج شکر
آپ 1173 کو پیدا ہو ہے اور 1265 میں وفات پائی ۔ آپ حضرت قطب الدین بختیارکاکی کے مرید اور خلیفہ تھے آپ نے اپنے کلام کا بہت سارا حصہ اردو میں پیش کیا ۔
بقول فرید
؂وقتِ سحر وقتِ مناجات ہے
خیز دراں کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بگوید ترا
خست چہ خیزی کہ ابھی رات ہے

2۔شیخ شرف الدین بوعلی قلندر
آپ بہت صاحب جلال بزرگ تھے جنہوں نے اردو میں اپنا کلام پیش کیا اور ان کے کلام کو آج بھی بلندمقام حاصل ہے
؂سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں کے روئے
بدھنا ایسی رین کو بھور کدھء نہ ہوئے

3۔ امیر خسرو
ان کا شمار اردو کے معروف شعراء میں ہوتا ہے اور وہ شہر پٹیالی میں پیدا ہو ہے
انہوں نے بھی اردو نظمیں لکھیں
؂ زحال مسکین مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اےجاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

4۔شیخ شرف الدین یحییٰ منیری
آپ پوربی ،ہندی ،اور بھاشا کے شاعر تھے آپ نے بھی اردو میں شاعری کی اور بڑاحصہ اردو کودیا
؂کالا ہنسانہ ملا بسے سمندرتیر
پہکھ پسارے یکہ ہرے نرمل کرے سریر
درد رہے نہ پیڑ

5۔بندہ نواز گیسودراز
آپ کا پورا نام "سیدمحمد ابن سید یوسف الحسنی الدہلوی” تھا
؂او معشوق بے مثال نور بنی نہ پایا
اور نور بنی رسول کا میرے جیو میں بھایا
یوں صافیا کرام نے اور کے ارتقاء میں اپنا پورا حصہ پیش کیا اور اس کی ترقی میں کوشاں رہے نہ صرف صوفیاکرام نے بلکہ سلاطین نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اس کے ارتقاء میں بہتر سے بہتر کام پیش کیا چاہے کہ وہ ” قطب شاہی دور "ہو یا کہ "عادل شاہی دور ہو ، یاوہ دور "مغلوں ” کا ہو ، سب نے اپنا اپنا جوہر دکھایا اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی
اردو زبان مسلمانوں کی تہزیبی و معاشرتی رجحانات کی آئینہ دار رہی ہے ۔اردو زبان کے پھیلاؤ میں مسلم حکمرانوں ،شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ جن لوگوں نے کام کیا وہ اولیاء کرام تھے جو عوام کو روزمرہ کی مقامی بولی میں دین واخلاق کی تعلیم دیتے تھے۔ اشاعت اسلام میں مصروف ہر بزرگ نے مقامی لوگوں کو اپنی آسان اور دلنشین گفتگو سے متاثر کیا، ان حضرات کی ذاتی سادہ زندگی، پرخلوص نصیحت اور اعلیٰ کردار کی بدولت عوام ان کی گرویدہ ہوجاتے تھے اور ہمیشہ ان ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اسی طرح ان بزرگوں نے لوگوں کے اخلاق سدھارنےکے ساتھ ساتھ اردو زبان سمجھنے اور بولنے کا ذوق بھی پیدا کردیا اردو زبان کی تاریخ میں قدیم ترین شاعری اور نثری نمونے ان ہی بزرگوں کے اقوال کی صورت میں ملتے ہیں ۔
العرض ان حضرات نے برصغیر کے طول وعرض میں تبلیغ دین اور اصلاحی کردار کےساتھ ساتھ ایک مشترک زبان ( اردو ) کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں